اسلامی معلوماتمسلم دنیا

ماہِ صفر اور اسلامی تعلیمات

:ایک دلچسپ واقعہ

            ماہِ صفر سے متعلق عوام میں بڑی عجیب وغریب روایات ورسومات پائی جاتی ہیں جو کہ  تعلیمات اسلامی کے خلاف ہیں ماہ صفر سے متعلق عوام میں پائی جانے والی ان بدعات کا دیں اسلام اور اس کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے ماہ صفر دیگر مہینون کی طرح ایک ماہ ہے اور اس سے متعلق پائی جانے والی گمراہ کن روایات کی تعلیمات اسلامی میں کوئی حیثیت نہیں ہے اس سے قبل کہ ہم ماہ صفر اور ان روایات کے متعلق جانیں ہم آپ کو  ایک سبق آموز لطیفہ سناتے ہیں جو کہ آپ کو اس موضوع کو سمجھنے میں مدد دے گا۔”ایک بادشاہ نے اپنے غلام کو ہدایت کر رکھی تھی کہ تم صبح سویرے مجھے اپنی صورت نہ دکھانا۔ اس لیے کہ تم منحوس ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری نحوست کا اثر مجھ پر پورا دن رہے۔ اتفاق کی بات یہ کہ ایک دن وہ غلام صبح ہی کسی کام سے بادشاہ کے سامنے آگیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے شام ہونے تک کوڑے لگائے جائیں۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ شام ہونے پر بادشاہ نے اُس سے کہا: منحوس! آیندہ سے صبح سویرے مجھے اپنا منہ نہ دکھانا۔ غلام نے ذرا جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: بادشاہ سلامت! منحوس میں نہیں، بلکہ آپ ہیں، اس لیے کہ آج صبح ہی میں نے آپ کا اور آپ نے میرا چہرہ دیکھا۔آپ کا چہرہ دیکھنے سے مجھے یہ انعام ملا کہ شام تک کوڑے کھانا پڑے۔ جب کہ میرا بابرکت چہرہ دیکھنے کے بعد آپ صبح سے شام تک تندرست اور صحیح سلامت رہے۔ بادشاہ اپنے غلام کی یہ بات سن کر متاثر ہوا اور اس کو آزاد کر دیا”۔

یقیناً یہ مزاحیہ واقعہ ان دماغوں کی  قلعی کھولنے کےلیے کافی ہونا چاہیے جو کسی بھی چیز، وقت، راستے، جانور وغیرہ سے متعلق نحوست اور توہمات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس بلاگ میں موجودہ قمری مہینے یعنی ماہِ صفر کے بارے میں  اسلامی تعلیمات سے متعلق  کچھ اہم گزارشات پیشِ خدمت ہیں جس میں بے بنیاد خیالات اور من گھڑت باتیں شامل ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اسلام سے قبل بھی اس کی مثال ملتی ہے اور عین زمانۂ اسلام میں بھی۔ پہلے ماہ صفر سے متعلق بنیادی معلومات سے واقف ہوتے ہیں۔

:صفر کا مطلب

صفر اسلامی کیلنڈر کے اعتبار سے دوسرا مہینہ ہے۔ اسے ’’صفر‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ صفر (ص پر زیر کے ساتھ ) سے ماخوذ ہے بمعنی خالی ہونا۔ چوں کہ اہلِ عرب میں زمانۂ جاہلیت میں قتال کرنا منع اور حرام تھا، اس لیے ماہِ محرم کے اختتام کے ساتھ ہی صفر کے مہینے میں لوگ قتال کے لیے نکل جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی پڑے رہ جاتے، اسی وجہ سے اس ماہ کا نام صفر رکھ دیا گیا۔

پھر چوں کہ جاہلیت میں اس مہینے صفر کو نحوست والا اور آفات وبلاؤں کے نزول کا کہا جاتا تھا،جس کے باعث بدشگونی اور بدفالی لینا عام تھا۔ جیسا کہ آج بھی توہم پرست ایسا خیال کرتے اور اس مہینے میں خوشی کی تقریب کرنے سے اجتناب کرتے ہیں، اسی وجہ سے اسلام نے صفر کو توہم پرستوں کے مقابلے میں الگ نام دیا اور اسے صفر المظفر اور صفر الخیر(کامیابی، بھلائی) قرار دیا۔

:ماہِ صفر سے متعلق باطل خیالات کی بنیاد

ماہِ صفر سے متعلق باطل خیال لوگوں نے اپنے موقف کے لیے ایک حدیث بھی گھڑی ہوئی ہے جسے وہ اپنے عقائد کے ثبوت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھے ماہِ صفر کے ختم ہونے کی بشارت دے گا، میں اس کو جنت کی خوش خبری دوں گا۔

            اس من گھڑت حدیث کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ صفر کا مہینہ منحوس ہے جب ہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ختم ہونے کی خبر دینے والے کو جنت کی بشارت دی ہے۔ حدیث کی تعلیمات  کے  ماہر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ایک اسلامی کتاب کتاب ’’الموضوعات الکبریٰ‘‘ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں  اس روایت کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ یعنی یہ بات من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔

            حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ اسلام کی تعلیمات سے ہیلے جاہلیت کے دنوں میں لوگ صفر کو ایک سال حلال اور ایک سال حرام ٹھہرایا کرتے تھے۔ یعنی کبھی اہلِ عرب ماہِ محرم کو جو ان کے نزدیک قابل احترام مہینوں میں سے ہے اور اس میں جنگ کرنے کو حرام سمجھتے تھے، اُسے بڑھا کر صفر کو بھی اس میں شامل کر لیتے یعنی  جنگ وجدال کو صفر کے مہینے میں بھی ناجائز قرار دیتے اور کبھی صفر کو محرم سے علیحدہ قرار دے کر حرمت والے  مہینوں سے الگ  کر کے اس میں جنگ کو حلال سمجھتے۔ (مرقات)

            اِسی طرح آج کل بھی بعض لوگ اس ماہ میں شادی وغیرہ جیسی خوشی کی تقریبات سے اجتناب کرتے ہیں۔

  یہ بھی پڑھیں: محرم الحرام اور عاشوراء کے احکام ومسائل

:ماہِ صفر سے متعلق توہمات اور رسومات

            زمانۂ جاہلیت میں بھی ماہ صفرکو منحوس اور بکثرت بلاؤں کے نزول کا مہینہ گردانتے تھے جس کی بنیاد پر بعد میں توہمات پرست لوگوں اور مذہبی لوگوں نے بھی اس مناسبت سے بہت ساری رسومات اور باطل عقیدے بھی گھڑ لیے۔ جس میں صفر کے پورے مہینے بالخصوص ابتدائی تیرہ دنوں کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اس مہینے میں شادی بلکہ رشتہ تلاش کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ۔ اس مہینے میں سفر نہیں کیا جاتا ۔ کہیں قرآن خوانی کے ذریعے اس مہینے کی آفات وبلیات کو اپنے تئیں ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض صفر کی آخری بدھ کو چھٹی کرنے کو باعثِ اجر وثواب سمجھتے ہیں اور بعض لوگ اس دن عید مناتے ہیں۔ کچھ اس دن مٹی کے برتنوں کو توڑ دیتے ہیں اور بعض لوگ تعویذات بنوا کر مصیبت وبیماری وغیرہ سے بچنے کی غرض سے پہنا کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں وہم پرستی کی ہیں۔ خاص کر عوام الناس میں یہ بات بھی شہرت پکڑ گئی کہ صفر کے مہینے میں جو شادی ہوگی وہ صفر (زیرو، ناکام) ثابت ہوگی۔ جس کی وجہ سے ماہِ صفر کو نامبارک اور منحوس سمجھا جانے لگا۔ ماہ صفر سے متعلق یہ ایسی گمراہ کن روایات ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے دور دور تک کا واسطہ نہیں اور عوام نے یہ  رائج بدعات عیں تعلیمات اسلام سمجھ کر اپنائی ہوئی ہیں

:ماہِ صفر اور اسلامی تعلیمات

ایک حدیث شریف میں آیا ہےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مرض کا لگ جانا، الو اور صفر یہ سب وہم پرستی کی باتیں ہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ (مسلم شریف)    یہ حدیث شریف ماہِ صفر کے خرافات سمیت تمام بے بنیاد خیالات اور رسومات کے توڑ کے لیے کافی ہے

 :ماہِ صفر میں ہونے والے پر مسرت واقعات

اسلامی تاریخ اور تعلیمات سے ادنی سی بھی واقفیت رکھنے والے کے لیے اس حقیقت کا ادراک کرنے میں مشکل نہ ہوگی کہ ماہِ صفر تو مسلمانوں کے لیے خیر وبرکت، مسرت وشادمانی اور خوشی کا مہینہ رہا ہے۔ کیوں کہ اسی مہینے میں مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت کی جس کے باعث ان پر خیر کے دروازے کھلے اور آگے اسلامی فتوحات کا روشن باب رقم ہوا۔ ساتھ ہی جہاد کے فریضے سے بھی سرفراز ہوئے جس نے چہار سو دشمنوں کے دلوں پر اسلام اور مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی اور اس وقت کی سپر قوتوں کو اسلام کی طاقت کے آگے سرِ خم تسلیم کرنا پڑا۔اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی سلطنت کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا

ماہِ صفر ا کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض ارشاد گرامی کے ذریعے سے ہی امت کی رہنمائی نہیں کی بلکہ عملی طور پر اپنے عمل اور تعلیمات سےبھی مظاہرہ فرما کر فضول رسوم اور توہمات کا رد فرمایا۔ چناں چہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا نکاح ماہِ صفر ۴ ہجری میں ہوا۔ اسی طرح سن ۷ ہجری میں حضرت صفیہ بنتِ حیّ رضی اللہ عنھا کے ساتھ عقدِ نکاح ہوا۔ بلکہ اپنی پیاری صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا نکاح بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسی ماہ میں کیا۔اگر واقعی صفر کے مہینے میں کوئی نحوست ہوتی تو آپ اپنے عمل سے اس طرح بالکل بھی انجام نہ دیتے۔

:ماہِ صفر اور جدید دور

            عصرِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی اور تیزی سے بدلتے معیارِ زندگی کے باعث اِن توہمات اور خرافات میں بہت حد تک کمی آ چکی ہے لیکن پھر بھی کئی لوگوں میں یہ چیز رسم کی طرح نسل در نسل ان باطل خیالات کو اپنی نسلوں تک منتقل کرتی رہی ہے اور ایسے تمام لوگ ان بدعات کو اسلام کی تعلیمات سمجھ کر اختیار کئے ہوئے ہیں بالخصوص غیر تعلیم یافتہ طبقے اور تعلیم یافتہ مگر اپنی اقدار وخاندانی روایات میں غیر لچک داری کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے اپنے ’’آباء واجداد‘‘ کی رسم کو توڑنا کسی سانحے سے کم نہیں۔

سعادت اور نحوست کیسے آتی ہے؟

ماہِ صفر اور اس سے متعلق تعلیمات اسلامی  سے قطع نظر یہاں ایک اہم موضوع ہے۔ وہ یہ  کہ جب کسی چیز، وقت، گھڑی میں بذاتِ نحوست نہیں ہے تو کسی کی خوش بختی اور بخت بختی کا معیار کیا ہوگا؟

درحقیقت یہ شامتِ اعمالاور اسلامی تعلیمات سے دوری  کا نتیجہ ہے جو انسان کی فلاح وبہبود اور تباہی وبربادی کا فیصلہ لاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید نے اس چیز کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے: لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔ تاکہ انھوں نے جو کام کیے ہیں، اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انھیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔ (سورۃ الروم۴۱)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے فساد برپا ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے وہ گھڑی اور وقت برا ہے جس میں وہ بداعمالی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button