Latest

ٹیچر ڈے پر ایک اہم سوال اور اس کا جواب

ٹیچر ڈے پر ایک اہم سوال اور اس کا جواب

ڈاکٹر طفیل ہاشمی

ایک بہت اہم سوال نظر سے گزرا،
ایک صاحب پوچھتے ہیں، اگر سب کے ٹیچر اتنے اچھے تھے تو موجودہ حالات کا ذمہ دار کون ہے؟

میرے خیال میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے.
میرا جواب یہ ہے کہ :

در اصل میں شعبہ تعلیم سے پچھلے چوالیس سال (یکم فروری 1975 __تاحال) سے وابستہ ہوں. اس سے پہلے کی زندگی بھی مدارس، کالجز اور یونیورسٹیز میں حصول تعلیم میں گزری. پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ ریاض یونیورسٹی سعودی عربیہ اور ملٹن کیینز یونیورسٹی یو کے میں بھی رہا. دنیا کے بہت سے ممالک کی جامعات اور ان کے تعلیمی نظام اور اداروں کو دیکھنے کا موقع ملا.

صرف 298 روپے میں پی ایچ ڈی

انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کو تعلیم دلائے. ممکن ہے آپ کو حیرت ہو کہ میں نے جب 1984 میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تو میں نے کل دوسو اٹھانوے روپے فیس جمع کروائی تھی جو مقالہ جمع کرواتے وقت دی گئی.

تعلیم صنعت بنا دی گئی

پھر پاکستان میں تعلیم کو انڈسٹری بنا دیا گیا. اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ تعلیمی اداروں کے تمام قوانین بالعموم کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے لیے ہیں ورنہ انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ سب کو معلوم ہے کہ لاکھوں روپے فیس جمع کروانے والے کو بہر طور ڈگری دے کر بھیجیں گے.

تعلیمی اداروں کے کاروباری فرنچائز اور کیمپس

اسی کاروبار کو وسعت دینے کے لیے یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں نے فرنچائز، کیمپس وغیرہ کے ذریعے بزنس شروع کر دیا. بزنس کا اپنا اصول ہے کہ کم از کم خرچ کر کے زیادہ سے زیادہ نفع کمایا جائے.
اس اصول کے تحت وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ایسے کرپٹ سماج میں ہو سکتا ہے.

ایک طبقہ نہیں چاہتا کہ لوگ اعلی تعلیم حاصل کریں

عسکری دور میں جنرل پرویز مشرف کی زیر قیادت تعلیمی بزنس کا سیکٹر وجود میں آیا تو ان کی کمیونٹی کو احساس ہوا کہ اس میں ہاؤسنگ سے زیادہ نفع ہے پھر جب شریف خاندان کو اقتدار ملا تو ان کی دیگر خوبیاں بجا مگر تعلیم کبھی نہ ان کی خواہش رہی نہ ترجیح. ان میں سے ہر ایک کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سکول سے بھاگے ہوئے بچے ہیں. جس طرح جاگیردار یہ نہیں چاہتے کہ ان کے مزارع پڑھ لکھ جائیں اسی طرح صنعت کار طبقہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ عام لوگ اعلی تعلیم حاصل کرلیں.

سو موجودہ حالات کا ذمہ دار دراصل ہمارا تعلیمی نظام ہے. جس نے عدلیہ، انتظامیہ مقننہ سمیت تمام ادارے حوالدار کلرکوں کی سربراہی میں دے دئیے ہیں

ملازمت میں توسیع کا مسئلہ

نیزملازمت میں توسیع یا ری امپلائمنٹ کے مسئلے کا تعلق صرف چیف آف آرمی سٹاف سے ہی نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو ملکی صورت حال کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے. امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے سال ہا سال سے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کا تصور تقریباً ختم ہو گیا ہے فقط اتنا ہے کہ پوسٹنگ بدل جاتی ہے. یہ ملک میں بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا ایک سبب ہےجو اعداد و شمار کے اعتبار سے شاید سب سے بڑے اسباب میں سے ہو.

وزٹنگ فیکلٹیز

اگر میں اپنے شعبے کے حوالے سے دیکھوں تو یونیورسٹیز میں ہر ہر شعبے میں کئی کئی تدریسی اسامیاں خالی ہوتی ہیں اور انتظامیہ ان پر باقاعدہ تدریسی عملہ متعین کرنے کے بجائے ریٹائرڈ افراد کو وزیٹنگ پروفیسرز کے طور پر رکھ لیتی ہے. اس طرح یونیورسٹی جو طلبہ سے پوری فیس وصول کر کے انہیں پارٹ ٹائم ٹیچر دیتی ہے ہر سمسٹر میں ہر استاذ کی تنخواہ کی مد میں لاکھوں کی بچت کرتی ہے.

پچھلے دنوں راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی کے صرف ایک شعبہ میں معلوم ہوا کہ تقریباً ایک درجن پوسٹس پر وزٹنگ فیکلٹی کام کر رہی ہے اور انہیں فی سمسٹر لاکھ سوا لاکھ دینا پڑتا ہے جبکہ باقاعدہ فیکلٹی ممبر کو کم از کم بھی بارہ پندرہ لاکھ سالانہ دینا ہوتا ہے، گویا صرف ایک شعبہ کروڑوں کی بچت کر رہا ہے. وزیٹنگ فیکلٹی بس دیہاڑی دار مزدور کی طرح کام کرتی ہے اور ادارہ بھی اسی طرح ان سے برتاؤ کرتا ہے.

اعلی ذہنوں کی بیرون ملک منتقلی

دوسری طرف ہر مضمون میں سینکڑوں بے روزگار پی ایچ ڈی سکالرز چند سال پاکستان میں دھکے کھانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑ جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک پر ملک نے لاکھوں روپے خرچ کئے ہوتے ہیں لیکن جب انہیں کام کرنے کے لیے کہیں مواقع میسر نہ ہوں تو کیا کریں. اس طرح اعلی ذہانتیں ہمیشہ کے لیے دوسرے ممالک کی ترقی کے لئے وقف ہو جاتی ہیں.

خالی اسامیوں پر تعیناتیوں کا مسئلہ

کسی اتھارٹی کی طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ ہر ادارہ ہر خالی اسامی کو بھرنے کا پابند ہو اور سرکاری اداروں میں توسیع یا ری امپلائمنٹ پر مکمل پابندی ہو تاکہ نئی قیادت تیار ہو سکے. اس کے برعکس بعض جامعات نے فیکلٹی رکھنے کا تکلف بھی ترک کر دیا ہے اور کئی کورسز آن لائن متعارف کروا دئیے ہیں کہ طلبہ اڈیو لیکچرز سن کر سوالات کے جوابات دیں اور ایک کوارڈینیٹر نتائج مرتب کردے.

قابلیت کے بجائے چند لاکھ کے عوض ڈگری

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب تعلیم کو سیلف فنانسنگ سکیم پر منتقل کیا گیا اور آرمی جنرلز، سرمایہ داروں اور سیٹھوں نے یونیورسٹیز، کالجز اور تعلیمی ادارے کھولنے شروع کر دئیے تو تعلیم نے ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری کی حیثیت حاصل کرلی، جہاں محنت، قابلیت اور علم کی بنا پر نہیں بلکہ چند لاکھ فیس دے کر ڈگری خریدی جاتی ہے. جو طالب علم ایک بار داخل ہو گیا اور بزنس کا تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ داخلے دئیے جائیں، اگر اس نے فیسیں بھر دیں تو اسے لازما ڈگری دے کر بھیجا جائے گا، بالخصوص پرائیویٹ یونیورسٹیز میں فیل ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے.

تعلیمی اداروں میں خلاف میرٹ تقرریاں

یہی نہیں بلکہ ملک بھر میں بہت سے ادارے آرمی کے ریٹائرڈ جنرلز کی سربراہی میں چل رہے ہیں. ایسی جامعات جہاں کوئی آرمی ریٹائرڈ آفیسر وائس چانسلر ہے اور وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر کے بآسانی میرٹ کو فتح کر لیتے ہیں، اپنے مخصوص پس منظر اور ماحول کی وجہ سے تمام انتظامی سٹاف مثلاً رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات، ٹریژرار، ایچ آر اور دیگر سٹاف آرمی ریٹائرڈ ملازمین سے بھرتی کرتے ہیں بلکہ فیکلٹی میں بھی سویلین سے صرف اس صورت میں افراد لئیے جاتے ہیں جب آرمی ریٹائرڈ میسر نہ ہوں کیونکہ آرمی میں اپنے باس سے اختلاف کی روایت شاید نہیں ہوتی اور نظم و نسق پر کبھی حرف اعتراض نہیں آتا. اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں جو بے شمار ادارے آرمی جنرلز کے کنٹرول میں ہیں ان میں میرٹ پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہوگا.

تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے چند تجاویز

میری تجویز یہ ہے کہ قانون ساز اداروں کو چاہئے کہ ری ایمپلائیمنٹ اور توسیع پر مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ریٹائرڈ ملازمین کی سرکاری اداروں میں ہر طرح کی انڈکشن پر قطعی پابندی لگا دی جائے.

یہ بھی پڑھیں:

عالمی یوم اساتذہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button