Columns

اپنے بچوں کو معذور بننے سے بچائیں

اپنے بچوں کو معذور بننے سے بچائیں

لڑکا یا لڑکی جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے ہیں، صحت قابل رشک مگر گھر میں ایسے رہتے ہیں جیسے خصوصی افراد، صبح اٹھیں گے، بستر ویسے ہی بے ترتیب چھوڑ دیں گے، ماں آ کر یہ درست کر دے گی۔

کپڑے تبدیل کریں گے، جہاں اتارے وہیں یا کسی کونے کھدرے میں رکھ چھوڑیں گے ماں آئے گی، اٹھائے گی، دھوئے گی، استری کرے گی اور واپس ترتیب کے ساتھ ان کی الماری میں رکھ دے گی۔

کھانا انہیں تیار ملنا چاہیئے، کھانے سے پہلے یا کھانا کھا چکنے کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، پلیٹیں اٹھانا یا گلاس واپس اپنی جگہ رکھ دینا جیسے چھوٹے کام بھی انجام دینا گوارا نہیں ہوتا ، کیوں کہ ان کو عادت ہوچکی ہوتی ہے کہ ماں آئےگی اور یہ سارے کام کرے گی۔

اسکول، کالج یا یونیورسٹی جائیں گے، واپس لوٹیں گے تو سونے کیلیئے، سنپ چیٹ، واٹس اپ یا ٹک ٹوک پر مستی کیلیئے، ٹویٹر، انسٹاگرام پر وقت گزاری کیلیئے یا پھر اپنے پنسدیدہ سیریل ڈرامے دیکھنے کیلیئے، کھانا وہیں بیٹھے منگوائیں گے فقط لقمے کیلیئے ہاتھ بڑھانا یا اسے نگلنا ان کا کام ہوگا اس کیلیئے بھی ان کا شکریہ کیونکہ اس کے بعد انہوں نے ٹی وی یا لیپ ٹاپ یا آئی پیڈ پر دوبارہ جہاد کیلیئے واپس جانا ہوگا۔

ماں ،باپ اور گھر والوں سے بے اعتنائی اور ڈیجیٹل دوستوں کے ساتھ مشغولیت

اور کبھی کبھار تو یہ اپنے فارغ وقت میں گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھنے کی مہربانی بھی کر دیتے ہیں مگر کیا مجال ہے کہ اس دوران میں یہ اپنے موبائل کی سکرین سے نظریں ہٹاتے ہوں کیونکہ یہ اپنے ان پیاروں کے نزدیک رہنا چاہتے ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کوئی کمنٹ کیا ہو، قیمتی سٹیٹس اپلوڈ کیا ہو یا کوئی تصویر بھیجی ہو، فوراً کمنٹ کر کے ان کی دلجوئی کرنا ان کا اولین فرض ہوتا ہے۔

گھر کی ادنی قسم کی ذمے داری سے بھی فرار کی افسوس ناک روش

اور یہ والے صاحبان گھر کی کوئی ذمہ داری بھی ذمے داری نہیں نبھاتے میں بھلے وہ انتہائی چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو، اپنی جگہ پر گند مچا کر اٹھ جاتے ہیں، کھانا پسند نہ ائے تو ناراض ہو جاتے ہین، گھر میں کوئی قابل مرمت کام یا قابل تبدیل چیز دیکھ لیں تو انجان بن کر گزر جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ذمہ داری تو باپ کی ہوتی ہے اور صفائی ستھرائی یا ترتیب ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

کئی بار ہمارے ارد گرد یا ہمارے اپنے گھروں میں یہ ہو رہا ہے اس پر بہت غور سے سوچا ہے اور ہر بار اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خیر سے ہم ایک معذور نسل تیار کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو چکے ہیں جی ایک معذور نسل۔

اپنے ہی گھر میں مہمانوں کی طرح رہنا

اور خیر سے اب ہمارے پاس جو تیار نسل ہے ان کے تصرفات دیکھیئے تو لگتے ہیں کہ یہ اس گھر میں مہمان ہیں نہ کوئی تعاون کرنے والے، نہ ہی کسی کام میں مدد کرنے والے، نہ کوئی اپنے اطراف کی کوئی ذمہ داری اٹھانے والے، پرائمری سکول سے لیکر اپنی کالج یونیورسٹی تک بلکہ نوکری لگ جانے کے بعد بھی وہ اپنے والدین کے گھر میں مہمان بن کر رہتے ہیں۔

گھر میں واحد ذمے داری جیب خرچ وصولی

وہ کسی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے ما سوائے جیب خرچ لینے کو یا ڈرائیونگ لائسنس بر وقت بنوا کر دینے کو اور ماں باپ دونوں گھر کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں بھلے عمر جتنی ڈھلتی جائے اور کتنے ہی کمزور کیوں نہ پڑتے جائیں کیونکہ وہی خود ہی تو نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف اٹھانی پڑے۔

بچوں کو ان کی ذمے داریوں کا احساس دلانا بھی تربیت کا حصہ ہے

کام کی ذمہ داری لینا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا تربیت ہے جو اولاد کے دل میں بوئی جاتی ہے اور اس کی آبیاری کی جاتی ہے، یہ کوئی ہاتھ پر سرسوں اگانے جیسی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ کوئی ایسا آسان مسئلہ ہے کہ ذمہ داری اور مسئولیت اٹھانا شادی کے بعد خود بخود محسوس ہو جائے کیونکہ شادی کے بعد بھی وہ اسی طرز عمل پر ہی قائم رہیں گے جو انہوں نے اپنے والدین کے گھر سے سیکھا اور اپنایا ہوگا، کونسا سسرال اور کیسا پرایا گھر وہی چلے گا جو سیکھا ہوگا اور سیکھا کیا ہے؟ معذوری، دوسروں پر توکل اور بھروسہ۔

ایسی اولاد شادی کے بعد بھی خود انحصاری کی راہ پر نہیں آسکتی

اور اس کے بعد یہ والی نسل پھر کبھی بھی گھر یا خاندان بنانے، بیوی بچوں کی ذمہ داریان اٹھانے کیلیئے اپنے آپ پر انحصار نہیں کر پاتی کیونکہ آپ نے ان کی بنیاد ہی ایسے رکھ دی ہے اور اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ کے اس قیام کے نتائج کیسے نکلنے ہیں؟

ہر کام میں ماں باپ پر عدم انحصار کی عادت کے شخصیت پر اثرات

اپنے بیٹے یا بیٹی کو گھر میں کچھ ذمہ داریاں اٹھانے کی عادت ڈالئے یہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور سماجی طور پر ذمہ دار نسل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے، ذمہ داری لینا انہیں مضبوط بناتا ہے اور آنے والی چیزوں کا سامنا کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے، یہ آپ کو ان پر بھروسہ کرنے میں مدد کرتا ہے اور دوسروں کے بارے میں سوچنے میں ان کی مدد کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود غرضی کی بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں۔ بچپن کی یہ عادت ان کے گھروں اور اردگرد کے ماحول میں یا پھر مستقبل میں ان کی ملازمت اور معاشرے میں زیادہ قابل تعریف اور موثر بنانے میں ان کی مددگار ہو سکتی ہی جب کہ ان کا آپ پر یا ان کی ماں پر انحصار انہیں سست، کمزور اور زیادہ کمتر بناتا ہے اور انہیں مستقبل کے لیے تیار نہیں کرتا۔

دوسروں پر انحصار کرنے والا شخص مستحکم خاندان کی تشکیل نہیں کر سکتا

ایک منحصر شخص ایک آزاد اور مستحکم خاندان کیسے بنا سکتا ہے؟ پھر ہم آج کی نسل میں طلاق کی بلند شرح پر سوچتے ہیں کہ “ان میں صبر کیوں نہیں ہوتا!” حمل اور ولادت فطری امور ہیں لیکن اپنے خاندان کے لیے جدوجہد کرنے اور زندگی کی مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے، مرد ہو یا عورت، یہ ایک ایسا ہنر ہے جو پہلے والدین سے حاصل کرنا چاہیے، ماں اور باپ اگر آپ اپنے بیٹے کو اپنے گھر کی ذمہ داری لینے کے لیے نہیں پالیں گے تو کیا اسے یہ سب دنیا سکھائے گی؟

یاد رکھیئے کہ دنیا کے دیئے ہوئے سبق آپ کی توقع سے زیادہ چونکا دینے والے، بے رحم، بہت ہی کم تر اور زیادہ ظالم ہوں گے اس لیئے مہربانی کر کے ان کی مدد کرو اور اس دنیا داری میں ان کے مددگار نہ بنو۔
(منقول)

بےایمان معاشرے کا ایک ایمان دار فرد

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button