Columns

بھارت میں ہولی کا تہوار مسلمان خواتین کے لیے ایک بھیانک خواب

بھارت میں ہولی کا تہوار مسلمان خواتین کے لیے ایک بھیانک خواب

نوید نقوی

میں الحمدللہ مسلمان ہوں اور میرے مذہب میں مسلمان تو کجا کسی غیر مسلم کو بھی کسی قسم کی تکلیف دینا سختی سے منع ہے اور جب میں اسلام کا دوسرے مذاہب سے موازنہ کرتا ہوں تو بے اختیار سجدہ شکر ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہوں ، میں اس بات کا قائل ہوں کہ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات ہوں بشمول بھارت کے، لیکن برابری کی بنیاد پر اور عزت و احترام پر مبنی ہوں، لیکن ایسا تب ممکن ہوگا جب آپ معاشی حوالے سے بھی مضبوط ہوں۔
اور جب آپ کا ہمسایہ بھارت جیسا شر انگیز ملک ہو جس نے آپ کی شہ رگ کشمیر پر نا جائز قبضہ کر رکھا ہو اور ہر روز مسلمانوں پر ظلم وستم روا رکھتا ہو تب ضروری ہے کہ ہم اپنے کے حالات کو سدھارنے کی بھرپور کوشش کریں اپنی معیشت کو کسی بھی قیمت پر مضبوط کریں اور اپنے وطن سے کرپشن، سفارش کلچر ، ذخیرہ اندوزی، وڈیرہ شاہی سسٹم کا خاتمہ کریں ۔
ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک کے ساتھ کوئی بھی مخلص نہیں ہے اور ہر کسی کو اپنی اپنی کرسی کی پڑی ہے یہاں سیاست دانوں نے پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور عوام کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔

کسی اسلامی تہوار سے غیر مسلموں کو کوئی تکلیف نہیں دی جاتی بھارت میں اس کے برعکس ہے

ہم مسلمانوں کے مذہبی تہوار جیسا کہ عیدین، ربیع الاول، محرم الحرام کے ایام ، رمضان المبارک کے روزے وغیرہ ایسے با برکت مواقع ہیں جن میں کسی کو ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوتی اور نہ ہی ان ایونٹ کی کریڈیبیلٹی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ کسی کو ذرا سی بھی تکلیف دی جائے، لیکن اس کے برعکس ہمارے ہمسائے میں یعنی بھارت میں کوئی بھی مذہبی تہوار ہو اقلیتوں کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خاص طور پر مسلم خواتین کا گھر سے باہر نکلنا ناممکن بنا دیا جاتا ہے ۔
بھارت میں اس وقت عملی طور پر انتہا پسندوں کی حکومت ہے اور یہ انتہا پسند اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دی جائے، ہولی ہندو کمیونٹی کا ایک مقدس تہوار ہے بحیثیت مسلمان میں تمام مذاہب کے تہواروں کی قدر کرتا ہوں اور مجھے ذاتی طور پر کسی بھی غیر مسلم تہوار پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اگر ان تہواروں میں کسی دوسرے مذاہب کی خواتین تک کی توہین کی جائے تو یہ ایک قابل اعتراض بات ہے اور اس کی مذمّت کیا جانا ہم سب کا فرض ہے۔
بھارت کے مسلمان اس وقت سے شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے۔ مودی حکومت ان تہواروں کی آڑ لے کر مسلمانوں کو تکلیف دینے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتی اور یہ سلسلہ ہولی جیسے مقدس تہوار پر بھی روا رکھا جاتا ہے۔ بھارت دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بننے والا ہے اور اس کی معیشت بھی برطانیہ جیسے ملک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے، جس کا گھمنڈ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔

رواں سال ہولی کے موقع پر مسلمان خواتین کو تنگ کرنے کی شکایات

اس سال بھی ہولی پر مسلمانوں خاص طور پر خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پورا سوشل میڈیا مختلف ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے جن میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ہندو انتہا پسند جوان کس طرح گروپوں کی شکل میں ہولی کے نام پر خواتین کو تنگ کر رہے ہیں۔ ان انتہا پسند ہندوؤں کے اصل چہرے کو دکھانے سے پہلے ہولی کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے کہ دراصل یہ تہوار کیا ہے اور پوری دنیا میں ہندو مذہب کے پیروکار اس کو کیوں مناتے ہیں۔

ہولی کا تہوار سرما کے اختتام اور بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے

ہولی بہار کا ایک ہندو تہوار ہے جس کی شروعات برصغیر سے ہوئی، جو زیادہ تر بھارت اور نیپال میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایشیا کے دیگر حصوں اور مغربی دنیا کے مختلف حصوں میں بھی منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار قمری مہینے کے آخری پورے چاند کے دن منایا جاتا ہے اسے رنگوں کا تہوار یا محبت کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ تہوار برائی پر اچھائی کی فتح سرما کا اختتام، بہار کی آمد، دوسروں سے ملنے، کھیلنے اور ہنسنے، معاف کرنے اور معافی مانگنے اور ٹوٹے رشتوں کو دوبارہ بحال کرنے کی علامت ہے۔

ہندو ہولی کو برائی کے خاتمے اور اچھائی کی فتح کے طور مناتے ہیں

لوگ اس دن کو دوستوں اور اہلخانہ پر شوخ رنگ ڈال کر مناتے ہیں، پوجا کرتے ہیں اور اس دن سے قبل والی رات برائی کو علامتی طور پر ختم کرنے کے لیے الاؤ جلاتے ہیں تاکہ اچھائی کی فتح ہو سکے۔ یہ تہوار ایک ہندو دیومالائی کہانی پر مبنی ہے اور انڈیا بھر میں اس تہوار کی بہت زیادہ ثقافتی اہمیت ہے۔ لوگ اس تہوار کو نئی شروعات کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دو روزہ تہوار ہولی کے بارے میں دیو مالائی کہانیاں

دیو مالائی سطح پر کہا یہ جاتا ہے کہ شیطانوں کے بادشاہ نے ہر کسی سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے خدا مان کر اس کی عبادت کی جائے۔ مگر اس کے اپنے ہی بیٹے نے اس مطالبے کی مخالفت کی تو بادشاہ ناراض ہو گیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو مارنے کے کئی منصوبے تیار کیے لیکن عملاﹰ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ پھر بادشاہ کی بہن نے اس بات کو اپنا مشن بنا لیا کہ اپنے بھتیجے کو مار کر ہی بیٹھے گی۔ مگر اس کا بھی نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہ کی بہن تو آگ میں جل کر ہلاک ہو گئی مگر بادشاہ کا اپنے والد سے اختلاف کرنے والا بیٹا پھر بھی زندہ رہا۔

پہلے دن الاؤ روشن کرنے اور عبادت کے لئے ،دوسرا دن رنگ ڈالنے اور ناچ گانے کے لئے مختص

ہولی ہندوؤں کے بڑے تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص بھارت اور نیپال میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار دو دن تک منایا جاتا ہے۔ پہلے دن الاؤ روشن کیے جاتے ہیں اور مندروں میں خصوصی عبادات کی جاتی ہیں جبکہ دوسرا دن، رنگ پنچمی ہولی کے تہوار کے اختتامی دن کو نشان زد کرتا ہے ہولی پر لوگ مختلف رنگوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے پر رنگ ڈالتے ہیں، گاتے ہیں، ناچتے ہیں۔ وہ بھگوان کرشن کی پوجا کرتے ہیں اور ان کی مورتی پر رنگ ڈالتے ہیں۔ہولی کے موقع پر انڈیا کے کئی حصوں میں بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ لوگ رقص کرتے اور گاتے بجاتے ہیں جبکہ روایتی انداز کے ساتھ شاندار دعوتوں کا انعقاد کرتے ہیں۔
اس موقع پر سکولوں میں چھٹی ہوتی ہے کیونکہ بچے اور بڑوں سب کے لیے یہ دن رنگا رنگ تقریبات کے لیے وقف ہوتا ہے۔ لوگ تہوار منانے کے لیے دولت، جوش اور طاقت کی علامت گلال ایک سرخ پاؤڈر کو ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں۔

نئی دلی میں جاپانی خاتون سیاح پر زبردستی رنگ ڈالنے اور تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل

لیکن اب ہولی کو ایک عبادت کے طور پر نہیں منایا جاتا بلکہ اب یہ تہوار خواتین کے لیے زحمت بن چکا ہے خاص طور پر مسلمان خواتین کے لیے ایک امتحان ثابت ہوتا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے ہولی کے دوران مسلمان خواتین کو حراساں کیا گیا جبکہ نئی دلی میں خاتون جاپانی سیاح پر تشدد کیا گیا جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔ وائرل ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ ہولی کھیلنے کے بہانے جاپان سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاح کو لڑکوں کے گروپ نے بالوں سے پکڑا اور زبردستی اس کے منہ پر رنگ لگایا جبکہ ایک لڑکے نے خاتون سیاح کے سر پر انڈے بھی مارے اور اسے ہراساں کیاجاپانی خاتون مسلسل بچنے کی کوشش کرتی رہی اور لڑکوں کو روکتی رہی مگر کسی نے ایک نہ سنی۔

با حجاب مسلمان خواتین پر زبردستی رنگ ڈالنے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل

ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے ایک دوسری سیاح خاتون کو بھی پکڑ کر زبردستی رنگ لگاتے رہے جبکہ اس کا شوہر اوباش لڑکوں کو رنگ لگانے سے منع کرتا رہا تاہم لڑکے باز نہ آئے۔خاتون سیاح نے اپنے وی لاگ میں بتایا کہ ان کے منع کرنے اور چلانے کے باوجود بھی لڑکے ان کی حفاظت کرنے کے بہانے انہیں نازیبا انداز میں چھوتے رہے اور انہیں ہراساں کرتے رہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ پولیس یہ سب دیکھتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں بند رکھنے پر مجبور ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے گلی محلوں میں انتہا پسند شہریوں نے حجاب پہن کر گزرنے والی مسلمان خواتین پر بھی رنگ اُچھالے، انڈے مارے اور انہیں ہراساں کیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔

تشدد کا شکار ہونے والی جاپانی خاتون بنگلہ دیش منتقل ، خواتین کو بھارت نہ آنے کا مشورہ

متاثرہ جاپانی خاتون واقعے کے بعد بھارت چھوڑ کر بنگلا دیش منتقل ہو گئی اور اس نے پوری دنیا کی خواتین سیاحوں کو اکیلے بھارت آنے سے منع کیا ہے اور یہ بھارت کے لیے بدقسمتی ہے کہ اس کی پولیس بھی انتہا پسندوں کے آگے بے بس ہے۔ ہولی کے نام پر پورے انڈیا میں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزی ہوتی ہے۔ ہولی کے دن بھارت کے مختلف شہروں میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے مسلمان خواتین کو ہراساں کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہندو انتہاپسندوں کا ہجوم راہ چلتی برقعہ پوش خواتین پر زبردستی رنگ پھینک کر انھیں تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک رکشے میں بیٹھی ہوئی خواتین کو پہلے ہراساں کیا گیا بعد ازاں ان پر زبردستی رنگ ڈال دیا گیا۔
ایک ویڈیو میں ہندو انتہا پسندوں کو پولیس کی موجودگی میں اپنے گھر کی بالکنی میں موجود دو مسلمان خواتین پر پتھراؤ کر تے دیکھا جاسکتا ہے۔ انڈیا کی پولیس ہو یا دیگر لا انفورسمنٹ ایجنسیز ہمیشہ انتہا پسند ہندوؤں کے آگے بے بس رہتے ہیں بلکہ انٹر نیشنل میڈیا کے مطابق جب سے مودی حکومت آئی ہے بڑی تعداد میں انتہا پسندوں کو جن کا تعلق بی جے پی اور آر ایس ایس سے تھا پولیس میں بھرتی کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتیوں سے نمٹا جا سکے، مودی حکومت نے بھارت کے سیکولر ازم والے چہرے کو اپنے انتہا پسندانہ اور فاشزم والے اقدامات سے داغدار کر دیا ہے اور یہ داغ شاید بھارت کے چہرے سے کبھی نہ مٹ سکے اس لیے اگر پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانوں پر ظلم کرتے ہوئے خوف محسوس ہو تو سب سے پہلے پاکستان کو مضبوط کرنا ہوگا نہ صرف دفاعی طور پر بلکہ معاشی حوالے سے بھی اس مملکت خداداد کو مستحکم کرنا ہوگا نہیں تو ہندوستان کے انتہا پسند جو اپنی بزدلی میں مشہور ہیں وہ بھی مسلمانوں کی بیٹیوں کو ہراساں کرتے رہیں گے اور ہم صرف دل میں کڑھتے رہیں گے جس کا اثر ان پر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ 2019 میں مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس مسلمان اکثریت والی ریاست کو بھارت میں ضم کر دیا اور ہم پاکستان کے مسلمان صرف زبانی مذمت کرنے تک محدود رہے اور مودی اب مسلمانوں کی بیٹیوں کو مقدس تہواروں کی آڑ میں ہراساں کر رہا ہے اور ہماری خاموشی اس کا حوصلہ مزید بڑھا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

کابل ، افغانستان کا دارالحکومت جس کے رنگ ہی نرالے ہیں

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button