Columns

اسلام اور سائنس، مسلمانوں کے سائنسی زوال کے اسباب

اسلام اور سائنس، مسلمانوں کے سائنسی زوال کے اسباب

جبران عباسی

آج کی صدی میں مغربی پروپگینڈے ” اسلامو فوبیا” کی وجہ سے اسلام کا سائنس کی طرف رویہ جارحانہ سمجھا جاتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اسلام سائنس کی ایجادات اور نظریات سے متفق نہیں ہے کیونکہ اس سے اسلام کے وہ تمام اہم تصورات مسترد ہو جائیں گے جن پر پورا دین اسلام قائم ہے۔
دوسری طرف مسلمان سکالرز یورپی سائنس دانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ سائنس کی وجہ سے پے در پے ایجادات ہوئی اور اب بےہنگم انڈسٹریلائزیشن کی وجہ سے ہمارا سیارہ زمین تباہی کے دہانے پر ہے۔
گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ، گلوبل وارمنگ ، موسمیاتی تبدیلی یہ سب سائنس اور اس کی ایجادات کی وجہ سے ہے۔ دنیا اب ناقابل رہائش بنتی جا رہی ہے۔

سائنس اور اسلام کی چپقلش کی ایک وجہ

اور اسلام کی چپقلش کی ایک وجہ rationalism بھی ہے۔ یعنی سائنس دلیل یا وجہ کی کھوج لگاتی ہے جبکہ کوئی بھی مذہب بشمول اسلام نظام فطرت کو سوالیہ مشکوک نظروں سے دیکھنے سے منع کرتا ہے۔ اس سے نظریات میں بدلاؤ اور باغیانہ روش پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہے۔

امام غزالی اور ابن رشد کا فکری اختلاف

سائنس اور اسلام کی یہ لڑائی گیارہویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی جب مسلم اندلس کے عظیم دانشور ابن رشد اور اور ایران کے عظیم مفکر اور عالم امام غزالی کے درمیان ایک فکری قضیہ چھڑا جس کے مسلمانوں کی علمی و سائنسی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

سائنس اور اسلام: گیارھویں صدی سے قبل

آٹھویں صدی سے دسویں صدی کے وسط تک مسلمانوں کا زریں سائنسی دور گزرا ہے۔ مسلم اسپین ، عباسی خلافت ، وسط ایشیائی خطوں کے مسلمان سائنس دانوں ، نظریہ دانوں اور فلکیات دانوں نے سائنس کی ترقی و ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مسلمانوں کے اس عہد زریں میں ناقابلِ یقین سائنسی ایجادات کی گئیں اور سائنسی علوم میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ دنیا کو عربی نظام عدد 1-10 سے متعارف کروایا گیا۔ سرجری کا آغاز ہوا ، نئے کیمکل فارمولے ایجاد کئے گے ، زراعت میں پانی کھنچے کی تکنیک ایجاد کر کے زراعتی خوشحالی لائی گئی ، انسان نے اڑنے کی اولین کوششیں شروع کیں، یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی گئی ، ہسپتالوں کی تعمیر ہوئی۔ سیاروں کا نظام سمجھنے کےلئے رصد گاہیں بنائیں گئیں جو ناسا جیسے ادارے کی انسپائریشن ہے۔

سائنس کی ماں فلسفہ کا آغاز

سائنس کی ماں فلسفہ کو کہا جاتا ہے۔ فلسفہ کا آغاز یونانیوں نے کیا جو بت پرست تھے مگر پھر بھی اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں سائنس کو خوش آمدید کہا اور انسانی معیار زندگی کو بہتر بنانے کےلئے سائنس کی خدمات بخوشی مستعار لی گئی تھیں۔
مگر پھر سائنس اور اسلام کے اس رشتے میں ایک خلیج حائل ہو گئی جو آنے والی صدیوں میں وسیع تر ہوتی گئی۔

امام غزالی کے یونانی نظریات پر سنگین اعتراضات

امام غزالی 1058 عیسوی میں فارس کے شہر طبران میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں مکمل کرنے کے بعد آپ کو جرجان روانہ کیا گیا اور وہاں وہ امام ابو ناصر اسماعیلی کی درس گاہ میں داخل ہوئے۔
امام غزالی انتہائی ذہین اور بےمثال حافظہ رکھتے تھے۔ وہاں سے درس مکمل کر کے آپ نیشاپور میں مفتی اعظم امام الحرمین کی درس گاہ میں داخل ہوئے۔ اس درس گاہ کو اسلامی کالج کا درجہ حاصل تھا۔ امام غزالی کے مضامین ” اسلامی سائنسز” پر مبنی تھے اور بہت جلد آپ کا شمار قابل ترین طالب علموں میں ہونے لگا یہاں تک کہ آپ وہیں نائب استاد کے منصب پر فائز ہو گے۔

نظام الملک کی دعوت پر بغداد آمد

اس زمانے میں بغداد میں عباسی خلافت قائم تھی اور وزیر اعظم کا منصب ایک قابل وزیر نظام الملک کے پاس تھا۔ جب امام غزالی کی شہرت نظام الملک تک پہنچی تو انھوں نے امام غزالی کو بغداد آنے کی دعوت دی اور وہ بغداد کے شاہی مدرسے نظامیہ کے سربراہ تعنیات کر دیے گئے۔
بغداد میں آپ نے بےشمار دولت ، شہرت اور اثر و رسوخ حاصل کیا لیکن وہ ان سب سے مطمئن نہ تھے۔ ملازمت ترک کر کے دمشق چلے گئے اور وہاں جامع مسجد میں تعلیم دینے لگے۔ بعد ازاں حج کے لیے گئے۔ آپ دس سالوں تک مختلف شہروں ، بیابانوں اور جنگلوں میں گھومتے رہے اور دس برس بعد دوبارہ بغداد آ کر آپ نے مدرسہ نظامیہ کی صدارت سنبھالی۔

امام غزالی اور فلسفہ

امام غزالی نے 67 کے قریب کتابیں تصنیف کی ہیں مگر سب سے زیادہ شہرت کتاب “تھافت الفلاسفہ” کو ملی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے یونانی مفکرین ارسطو ، افلاطون اور مسلم مفکرین ابن سینا اور آل فارابی کے فلسفے پر کھل کر تنقید کی اور یونانی فلسفہ کو کفر سے تعبیر کیا۔امام غزالی نے ابن سینا کے فلسفے کو بدعت اور شرک سے تعبیر کیا۔

امام غزالی کے بڑے اعتراضات

1: فلسفہ کا یہ دعوی ٰ باطل ہے کہ عالم ہمیشہ سے قائم ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عالم کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے خود کی ہے۔
2۔ فلسفہ کا یہ دعوی ٰ باطل ہے کہ عالم ازلی ہے۔
3۔ خدا کا وجود ثابت کرنے میں فلسفہ ناکام رہتا ہے جس سے لوگ گمراہ ہو رہے ہیں۔
4۔ فلسفہ یہ ثابت کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ خدا کو اپنے غیر کا علم ہے۔
5۔ فلسفہ یہ بھی ثابت کرنے سے قاصر ہے کہ خدا کو اپنی ذات کا علم ہے۔
6۔ فلسفہ اِس بات سے انکار کرتا ہے کہ انسان حشر کے روز زندہ کیا جائے گا۔
یہ اعتراضات تعداد میں 20 ہیں۔ بنیادی طور پر امام غزالی نے یہ تنقید کی کہ یونانی فلسفے کو اسلامی تعلیمات کا حصہ بنایا جا رہا ہے جس سے اسلامی نظریات اور یونانی نظریات کا ٹکراؤ ہو گا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں شرک اور بدعت ہو گی۔ اس شرک اور بدعت سے بچنے کےلئے ناگزیر ہے کہ فلسفہ کو ترک کر دیا جائے۔
امام غزالی نے 19 دسمبر 1111 عیسوی کو اپنے آبائ وطن طوس ایران میں ہی وفات پائی۔

ابن رشد کا امام غزالی کو جواب

ابنِ رشد امام غزالی کی وفات کے ٹھیک 16 برس بعد مسلم اندلس کے شہرہ آفاق شہر قرطبہ میں ایک بااثر مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں۔
آپ کا رحجان فلسفہ کی طرف تھا ، فلسفہ اور طب میں اعلی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ابنِ رشد قرطبہ کے پہلے قاضی شہر اور بعد ازاں خلیفہ ابو یعقوب یوسف کے ذاتی معالج کی حثیت سے خدمات فراہم کرتے رہے۔
خلیفہ یوسف ان کی ذہانت سے گہرا متاثر ہوا اور ذاتی دوستوں میں شامل کر لیا۔ خلیفہ یوسف کی خواہش پر ابن رشد نے متروک شدہ یونانی فلسفے کا از سر نو مطالعہ کیا اور یونانی فلسفہ کی تشریحات لکھیں اور ان شکوک و شہبات کا جائزہ لیا جن کی وجہ سے امام غزالی نے یونانی فلسفہ کو بدعت اور شرک کی طرف لے جانے والا فلسفہ قرار دیا تھا۔ آپ نے قرطبہ کے چیف قاضی کی حثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔

ابن رشد نے فلسفہ کا مقدمہ کیسے پیش کیا؟

ابن رشد نے امام غزالی کے تمام اٹھائے گئے نکات کو دلیل و منطق کے ساتھ مسترد کر دیا۔ اگرچہ کچھ نکات میں ابن رشد نے امام غزالی سے اتفاق کیا جیسا کہ ابن سینا کے خدا کے بارے میں کچھ خیالات جن سے ابن رشد اور امام غزالی دونوں مطمئن نہ تھے۔
ابن رشد کے افکار کے مطابق حتمی سچائی قران میں ہے ،ہم اپنی عقل اور فلسفہ کے ذریعے جو علم سیکھتے ہیں وہ قرآن سے ہر گز متصادم نہیں ہو سکتا ہے۔ فلسفہ آیات کی سچائی کا گواہ ہے۔
اگر قرآن کوئی بات فلسفہ کے برعکس کرے تویقین رہے انسان کی سچائی آفاقی نہیں ہے بلکہ یہ معلومات کی بنیاد پر بدلتی رہتی ہے۔
ابن رشد کے مطابق اگر کسی قرآنی آیت کے معنی پر سب جید عالم متفق ہو جائیں پھر اس آیت کی کھوج لگانے اور اس کےلئے پرتجسس ہونے کی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر جہاں اجماع امت نہ ہو پائے وہاں آیت کے معنی اور اس کےلئے پرتجسس ہونے کی اجازت ہے۔

اِس نکتے کو بنیاد بنا کر ابن رشد نے امام غزالی کے فتووں پر اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ فلسفہ گمراہ نہیں کرتا ہے بلکہ قرآن پاک کی آیات کی کھوج لگاتا ہے اور ان کے حقیقی معنی ڈھونڈتا ہے۔ اگر فلسفہ پڑھ کر کوئی گمراہ ہو رہا ہے تو وہ ابھی سچائی کی آدھی منزل پر ہے۔

امام غزالی کا نظریہ occasionalism

اس بحث کا مسلمانوں کی سائنسی ترقی پر کیا اثر پڑا؟
سب سے پہلے یہ واضح کرنا ہو گا کہ امام غزالی محض ایک دینی عالم یا فقیہ نہیں تھے بلکہ وہ ماہر فلکیات اور طبعیات دان تھے۔ غزالی نے ہی سب سے پہلے ایٹم یعنی مختصر ذرات پر بات کی اور اپنا نظریہ occasionalism پیش کیا جس کے مطابق دنیا خود بخود یا اچانک وجود میں نہیں آئی بلکہ یہ خدا نے تخلیق کی۔ ایٹم کی تخلیق خدا نے کی ہے۔ غزالی نے فلسفے میں skepticism کی شاخ رکھی جس میں تمام فلسفیانہ نظریات کو باریک بینی اور منطق کے ساتھ پرکھا جاتا ہے۔ skepticism آج فلسفہ میں بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔

ابن رشد پر عتاب

دوسری جانب ابن رشد بھی ہر گز سیکولر خیالات کے مفکر نہیں تھے بلکہ وہ چیف قاضی کے عہدے پر تعینات شرعی قوانین نافذ کرتے تھے۔ ابن رشد نے فقہ پر طویل کام کیا ہے اور سائنس کو قرآن کا حصہ ثابت کرنے پر برسوں تک تحقیق کی ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ابن رشد کی شخصیت اور ان کی ادبی خدمات کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور انھیں عمر کے آخری حصے عتاب میں گزارنے پڑے۔

نیا خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور (1184-1198) فلسفیوں سے نفرت کرتا ہے ۔ حاسدین نے ابن رشد کی کتابوں کے ادھورے اقتباسات خلیفہ کے سامنے پیش کئے اور خلیفہ کو ابن رشد کے خلاف خوب بھڑکایا۔ خلیفہ نے ابن رشد سے قاضی القضاء کا عہدہ واپس لے لیا اور انھیں الیسانہ نامی شہر میں ملک بدر کر دیا۔ ان کی تمام کتابیں جلا دی گئیں اور ان کے علمی کام کو پڑھنا جرم قرار پایا۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق انھیں جامع مسجد قرطبہ سے باندھا گیا اور ذلیل و رسواء کیا گیا۔

عالم اسلام میں سائنسی زوال کا آغاز

ابن رشد کے خیالات mob mentality کا شکار ہوئے۔ ان کے خیالات کی غلط تصویر سے عام مسلمانوں کو یہ تاثر گیا کہ فلسفہ پڑھنے والے اور سائنس کی ایجادات کرنے والے اسلامی عقائد کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔
کیونکہ ابن سینا جو عظیم کیمیا دان گزرے ہیں انھی کے خیالات کو امام غزالی نے شرک سے تعبیر کیا تھا۔ یوں بارہویں صدی کے بعد سائنس اور فلسفہ سے مسلمان دور ہوتے گے ، کچھ لوگ جو اس سائنسی میدان میں دلچپسی بھی رکھتے تھے اسلامی خلافت عباسیہ ، اندلس کی مسلم اسپین کی خلافت کے خاتمے کے بعد لاوارث ہو گے۔ حکومتی سرپرستی ختم ہو گئی اور ایسے حکمران آنے لگے جو فلسفہ تو درکنار عام تعلیم اور کتب بینی کا ذوق بھی سطحی رکھتے تھے۔

مسلمان حکم رانوں نے غزالی اور ابن رشد کے فکری اختلاف سے فائدہ اٹھایا

تیرہویں ، چودہویں صدی اور بعد ازاں عثمانی سلطنت میں ابن رشد اور امام غزالی کی فکری جنگ سے مسلمان حکمرانوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی عوام کو فلسفہ ، سائنس اور ترقی سے محروم رکھا۔ سائنس انسانی معیار زندگی کو بلند کرنے اور فلسفہ شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اسی لئے مسلمان حکمرانوں نے اس سوچ کے ساتھ اگر عوام کا معیار زندگی اور شعور بلند ہو گا وہ ان کے طرز حکمرانی ، طاقت اور اقتدار پر سوالات اٹھائیں جائیں گے ، فلسفیوں اور سائنس دانوں کی سرپرستی کرنا بند کر دی تھی۔

یورپ کی نشاۃ ثانیہ

یورپ میں ایسا ہو چکا تھا۔ نشاط ثانیہ کے بعد نہ صرف چرچ کا اثر و رسوخ کم ہوا بلکہ میگنا کارٹا کے بعد برطانیہ میں بادشاہت کو بھی محدود کر دیا گیا اور وینس جیسے درجنوں شہروں میں جمہوری کونسلوں کا آغاز ہوا۔
سائنسی ایجادات فنڈز اور دولت کے بہاؤ کے ساتھ چلتی ہیں۔ فلورنس کے میڈیچی خاندان نے مائیکل اینجلو جیسے عظیم فنکاروں کی سرپرستی کر کے اسے ثابت کیا ہے۔ دوسری طرف مسلمان سکالرز شاہی سرپرستی ختم ہونے کے بعد ریسرچ کا وہ معیار نہ برقرار رکھ سکے جو عباسی خلافت اور مسلم اندلس کی اموی خلافت کے عہد زریں میں قائم تھا۔

وہ سائنسی ایجاد جو مسلمان وقت پر نہ اپنا سکے

پرنٹنگ پریس

1515 میں عثمانی سلطان سلیم اول نے پرنٹنگ پریس پر پابندی عائد کر دی تھی اور اس کے استعمال کی سزا موت مقرر کی۔
عثمانی سلطان نے مسلمانوں پر پرنٹنگ پریس کے استعمال کی پابندی لگا دی مگر دوسری طرف سلطنت میں رہنے والے یہودی اور اقلیتیں اس پابندی سے مستثنیٰ تھے۔
یہودیوں کے علم کی قدریں مضبوط ہوتی گئیں اور مسلمانوں کے ہاں اتنی ہی کمزور ہوتی گئیں۔ یہ پابندی 1726 میں ہٹائی گئی ۔ تاہم اب بھی قرآن پاک یا کسی عربی کتاب کو چھاپنے کی اجازت نہ تھی ، حتی کی کتاب چھاپنے سے پہلے اس کتاب کا مسودہ خلافت کی وزارت سے منظور کروانا پڑتا تھا۔ بہرحال جب یہ پابندی ہٹی تو کافی دیر ہو چکی تھی۔

یورپ نے پرنٹنگ پریس سے بھرپور فائدہ اٹھایا

دوسری طرف یورپین نے پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نت نئے سائنسی ، سماجی ، ادبی ، مذہبی موضوعات پر کتابیں دھڑا دھڑ چھپنے لگیں۔ اس سے یورپ کے لوگوں کے ذہن کھلے اور وہاں شکسپیر ، فرانسس بیکن ، وولیٹیر ، جارج بارکلے ، فریڈرک نطشے ، میکاولی، ایمیونیل کانٹ ، کارل مارکس ، سگمنڈ فرائڈ جیسے شہرہ آفاق دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے پسماندہ یورپین اقوام کو دنیا کی معزز ترین صفوں میں سب سے آگے کھڑا کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسری طرف ہمارے پاس پندرہویں صدی سے اب تک بہادر جنگجو حکمرانوں اور جرنیلوں کے نام تو بے شمار ہیں لیکن ان پانچ صدیوں میں پانچ ایسے نام بھی نہیں ہیں جنہوں نے عالمگیر سطح پر اپنے ادبی خدمات ، نظریات اور افکار کی بنا پر شہرت پائی ہو۔

یہ بھی پڑھئیے:

مغل عہد سلطنت کا نظام تعلیم ، لائبریریاں اور سائنسی ایجادات

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button