Columns

جدید تعلیم یافتہ حضرات کے کچھ اعترضات اور ان کے جوابات

جدید تعلیم یافتہ حضرات کے کچھ اعترضات اور ان کے جوابات

تحریر: امیرجان حقانی

جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا؟

دینی حلقوں کی طرح میری نشستیں جدید تعلیم یافتہ احباب کے ساتھ بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اگر سچ کہوں تو جدید تعلیم یافتہ احباب سخت قسم کے سوالات پوچھتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کا دینی مطالعہ بہت کمزور ہوتاہے۔ چند سوالات بیسیوں دفعہ مختلف بڑی مجلسوں میں جدید تعلیم یافتہ احباب کی طرف سے پوچھے گئے ہیں مثلاً ’’جنت میں مردوں کو حوریں ملیں گی اور عورتوں کو کیا ملے گا؟‘‘پھر اس کے ساتھ یہ سوال بھی کہ کنواری لڑکیوں کو کیا ملے گا یعنی جو لڑکی شادی سے قبل ہی مرگئی اور جنت پہنچی تو اس کو کیا ملے گا۔؟ اور یہ سوال کہ ایک عورت نے دنیا میں ایک سے زائد مردوں سے شادیاں کیں دنیا تو جنت میں اس کو کونسا شوہر ملے گا؟ اسی طرح یہ سوال “کیا دنیا کے مرد جن کو حوریں ملیں گی کیا وہ ان سے جماع کریں گے۔۔؟ یہ سوال بھی کہ عورت کو طلاق کا حق کیوں حاصل نہیں ہے؟

جنتی عورتیں اپنے جنتی شوہروں کی بیویاں بنیں گی

ان سوالات کا مختصر جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔میں نے اس موضوع کا کافی مطالعہ کیا ہے۔ کوشش کروں گا کہ بات مختصر ہو ،طول نہ پکڑے۔
تو عرض ہے کہ جوعورتیں جنت میں داخل ہوں گی وہ اپنی پسند اور چاہت کے مطابق دنیاوی شوہروں کی بیویاں بنیں گی۔نہ صرف بیویاں بلکہ حوروں کی سردارنیاں بھی۔ یہاں یہ ذہن میں رہے کہ ان مردوں کا بھی جنت میں جانا ضروری ہے۔اگر ان کے شوہر جنت میں نہیں داخل ہوں گے تو پھر اللہ تعالٰی کی منشاء سے ان عورتوں کی مرضی کے مطابق جنت کے کسی اور مرد کے ساتھ ان کا نکاح کردیا جائے گا۔

کسی عورت نے متعدد شادیاں کی ہوں تو جنت میں کس کے نکاح میں ہو گی ؟

اگر ایک عورت نے دنیا میں ایک سے زائد مردوں سے شادی کی ہے اور وہ سارے مرد جنتی بھی ہیں تو اس عورت کو اختیار ہوگا کہ وہ ان میں سے جس سے چاہیے شادی کرلے۔ یہ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب اپنی مرضی سے کرے گی۔ یہ فطرت الہی ہے کہ ایک عورت ایک مرد کی بیوی بن سکتی ہے ۔ بیک وقت دو مردوں کی بیوی نہیں بن سکتی۔ فطرت الہٰی کا یہ قاعدہ جنت میں بھی چلے گا کہ ایک مرد کئی بیویاں اور حوریں اپنے نکاح میں رکھ سکے گا لیکن ایک عورت ایک سے زائد مردوں کے ساتھ شادی نہیں کرسکے گی۔
اس حوالے سے ایک روایت النہایہ میں ابن کثیر نے نقل کی ہے ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے بعض عورتیں (دنیا میں) دو ،تین یا چار شوہروں سے یکے بعد دیگرے نکاح کرتی ہیں اور مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جاتی ہیں وہ سارے مرد بھی جنت میں چلے جاتے ہیں تو ان میں سے کون اس کا شوہر ہو گا ؟اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

” اے ام سلمہ ! وہ عورت ان مردوں میں سے کسی ایک گا انتخاب کرے گی اور وہ اچھے اخلاق والے مرد کو پسند کرے گی _ اللہ تعالی سے گزارش کرے گی “اے میرے رب ! یہ مرد دنیا میں میرے ساتھ سب سے زیادہ اخلاق سے پیش آیا لہذا اسے میرے ساتھ بیاہ دیں‘‘ (باب فی الفتن والملاحم الجز الثانی رقم الصفحہ 387)۔
اسی طرح ایک صحیح روایت کے مطابق جن عورتوں نے ایک سے زائد مردوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں تو ان کو جنت میں ان کا آخری شوہر ملے گا ۔میمون بن مہران کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ ام دردا کو نکاح کا پیغام بھیجا، لیکن انہوں نے ان سے شادی سے انکار کر دیا اور کہا: میں نے ابودردا رضی اللہ عنہ سے سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت(جنت میں) اپنے آخری خاوند کے ساتھ ہو گی۔ اور میں سیدنا ابو دردا کے عوض کسی کو نہیں چاہتی۔(سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1281)

شادی سے پہلے انتقال کرنے والی کنواری لڑکیاں

اسی طرح کنواری لڑکیاں اور وہ عورتیں جن کے شوہر جنت میں نہیں جائیں گے ان کے حوالے سے بھی واضح ارشادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اجازت دیں گے کہ وہ اپنی مرضی سے جس جنتی مرد سے شادی کرنا چاہئیں ،انہیں اس کی اجازت ہو گی۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے ’’جنت میں جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لئے ہے‘‘(الاعراف:31)۔یعنی جس چیز کی چاہت کی جائے گی وہی چیز اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء سے حاضر کیا جائے گا۔

کیا جنتی مرد حوروں سے جسمانی قربت حاصل کریں گے ؟

اسی طرح یہ سوال بھی کئی پروفیسر حضرات نے متعدد بار پوچھا کہ کیا جنتی مرد حوروں کے ساتھ جماع کریں گے؟ تو عرض ہے کہ متعدد نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ جنت کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مردوں کو اللہ تعالی حوروں سے شادی کرادے گا اور اہل جنت ان سے جماع کریں گے ۔سورہ طور میں ارشاد باری ہے:

’’وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ( الطور:20)ترجمہ:اور ہم نے ان کے نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی (حوروں) سے کردیں گے۔اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ’’إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ ‘‘(يسين:55)،ترجمہ’’جنتی لوگ آج کے دن اپنے (دلچسپ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہوں گے‘‘ ۔ اہل علم نے جنتی مشغلوں سے مراد کنواریوں کے پاس جانا لیا ہے۔ اسی طرح نبی ﷺ کے متعدد فرامین سے بھی یہ بات واضح ہے کہ اہل جنت حوروں سے جماع کریں گے ۔اور یہ ہر جنتی جوڑے کے ساتھ ہوگا۔ مسلم شریف کی حدیث ہے کہ’’وما في الجنةِ أعزبُ‘‘(حدیث نمبر:2834)یعنی جنت میں کوئی بغیر جوڑے کے نہ ہوگا۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ’’إنَّ أهْلَ الجنةِ إذا جَامَعُوا نِساءَهُمْ عادُوا أبْكارًا‘‘(صحيح الجامع:3351) ترجمہ: جنتی جب اپنی بیویوں سے صحبت کرلیں گے تو وہ پھرسے کنواری (جیسی) ہوجائیں گی۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم جنت میں جماع بھی کریں گے ؟ توآپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ہاں !قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے خوب جوش سے صحبت کریں گے ، جب کھڑے ہوں گے تو وہ(حورآپ خود) پاک اور باکرہ ہوجائے گی۔

عورت کو طلاق کا حق کیوں حاصل نہیں؟

رہا یہ سوال کہ عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیا گیا ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ عنداللہ طلاق ایک مکروہ اور ناپسندیدہ چیز ہے اگرچہ جائز ہے۔ عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی صورت مطلقہ کہلانا نہیں چاہتی ہے۔ تاہم اگر میاں بیوی کے درمیان نبھاہ نہیں ہورہا۔ حقوق تلف ہورہے ہیں اور زیادتی ہورہی ہے تو جس طرح مہر کے ذریعے مرد عورت کو اپنے قبضے میں لیتا ہے عین اسی طرح خلع (رقم دے کر) کے ذریعے عورت مرد سے آزادی بھی حاصل کرسکتی ہے۔ اور یہ معمول کی بات ہے۔
بہر صورت اگر ماقبل میں دیے گئے حوالوں اور احادیث و آیات پر غور کیا جائے تو ان سوالات کا جواب اس قدر مکمل اور خوبصورت ہےکہ پھر کسی سوال کی ضرورت نہیں پڑتی۔
مردوں کو جہاں حوریں ملیں گی وہیں عورتوں کے لیے بھی ہر قسم کے انعامات کااعلان کیا گیا ہے۔قرآن مجید کی سورہ واقعہ کا بغور مطالعہ کیا جائے اور اہل علم کی تشریحات دیکھی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ’’جنت میں داخل ہونے والی خواتین کو اللہ تعالی نئے سرے سے پیدا فرمائیں گے اور وہ کنواری حالت میں جنت میں داخل ہوں گی‘‘۔’’جنتی خواتین اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی‘‘’’جنتی خواتین اپنے شوہروں سے ٹوٹ کر پیار کرنے والی ہوں گی‘‘۔
میں اس تحریر کو نہ مزید مفصل کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی بھاری بھرکم حوالوں سے قارئین کے لیے بوجھل بنانا چاہتا ہوں ان معروضات انتہائی سلیس انداز میں آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ امید ہے میری بات آپ کو سمجھ آئی ہوگی۔ میرے وہ پروفیسر دوست بھی خصوصیت کے ساتھ پڑھ لیں جواکثر محفل میں یہی سوالات دہراتے ہیں اور مجھے لاجواب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رہے میری معلومات کمزور اور ناقص ہوسکتی ہیں لیکن دین الٰہی نہ ناقص ہے نہ ہی کمزور۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

یہ بھی پڑھئیے:

گلگت بلتستان کی قدر آور علمی شخصیت پروفیسر عطاء اللہ کی رحلت

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button