اسلامی معلوماتفقہ اسلامی

میراث اور ترکہ کے مسائل و احکام

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشا د ہے :اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقہ سے مت کھاؤ! (سورۃ النساء:۲۹)
اس آیت کی روشنی میں ہر مسلمان کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیئے کہ کسی بھی طرح دوسرے کا مال ناحق اس کے پاس نہ پہنچے اور نہ ہی غلط راستہ میں یا غلط طریقہ سے خرچ ہو۔اس میں ترکہ کا مال بھی شامل ہے،ہمارے معاشرہ میں ترکہ کے مال سے متعلق کچھ کوتاہیاں عام ہیں،بعض مرتبہ دیہان نہ ہونے وجہ سے لوگ اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس مضمون میں چند ایسی ہی کوتاہیوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

ترکہ کا تعین

انتقال کے وقت انسان کی ملکیت میں جو بھی چیز ہوتی ہے وہ اس کا ترکہ ہے، ترکہ میں صرف بڑی چیزیں ،جائیداد، مکان پلاٹ ،دوکان وغیرہ شامل نہیں،بلکہ اس میں چھوٹے سے چھوٹا سامان بھی شامل ہے،جس میں الماری سے لے کر سوئی، دھاگہ ، کپڑے، برتن سب شامل ہیں،چاہے وہ سامان ذاتی استعمال کا ہویاگھر کے استعمال کاہو ،حتیٰ کہ جسم پر موجودکپڑا بھی ترکہ میں شامل ہے۔

زندگی میں ہی اپنی مملوکات واضح کردیں

ہر شخص کو اپنے ملکیت میں موجود ہرچیز مکان، دوکان، پلاٹ وغیرہ کے بارے میں وضاحت کرکے رکھنی چاہیئے،کسی چیز میں ابہام نہیں ہونا چاہیئے،اسی طرح مشترک کاروبار کی صورت میں ہر ایک کا حصہ واضح ہونا چاہیئے،ذاتی سامان کے بارے میں تو عام طور پر معلوم ہوتاہے کہ کونسی چیز کس کی ہے ،لیکن جو سامان گھر کے استعمال کیلئے ہوتا ہے اس کے بارے میں معاملہ واضح کردیناچاہیئے۔اور اگرورثاء کوکسی چیز کے بارے میں معلوم نہ ہوسکے تو اس کے بارے میں شریعت کے کچھ اصول ہیں ان کی روشنی میں علماء سے مسئلہ معلوم کرناچاہیئے ایسے ہی اٹکل اور اندازہ سے تقسیم نہیں کرنی چاہیئے۔

کفن دفن کے اخراجات سے متعلق کو تاہی

اگر میت کے کے کفن دفن کے اخراجات ترکہ سے ادا کیئے جائیں، توا س میں صرف کفنانے اور دفنانے سے متعلق متوسط اخراجات اداکیئے جاتے ہیں، ان کے علاوہ دیگر اخراجات مثلاً تعزیت کے لئے آنے والوں کی خاطر ٹینٹ کرسی کا انتظام کرنا یا کھانا پکوانا یا اس میں سے صدقہ کرنا یہ اس میں شامل نہیں ان کو ترکہ میں سے لینا جائز نہیں، ہاں اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ سب ملکر خوشی سے ترکہ کے مال میں سے کچھ خرچ کریں تو اس کی اجازت ہے۔ دوسرے یہ عورت کے کفن دفن کے اخراجات اس کے شوہر پر لازم ہیں،وہ ترکہ سے نہیں لیئے جائیں گے ۔

مالی لین دین کی ادائیگی

اگر میت کے ذمہ کسی بھی قسم کی دَین (قرض)موجود ہے تو اس کو ترکہ میں سے ادا کرنا ضروری ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ وصیت سے پہلے دَین کی ادائیگی فرماتے تھے(مشکوٰۃ) اسی لیئے ہر ایک کو چاہیئے کہ اپنی ہر قرض کے معاملات کو کسی جگہ نوٹ کر کے رکھے تاکہ پسماندگان کو معلوم ہوسکے ،اور وہ اس کے مطابق ادائیگیاں کرسکیں،نیز پسماندگان کو بھی اس بات کا اہتمام کرنا چاہیئے کہ وہ تسلی کرلیں کہ کسی کا حق تو ترکہ میں نہیں رہ گیا ۔

بیوی کے مہر کی ادائیگی

اسی دین داری میں مہر کی ادائیگی بھی شامل ہے بہت سے لوگ زندگی میں اپنی بیویوں کا مہر ادا نہیں کرتے اور خواتین مانگتی بھی نہیں ،تو اس بارے میں یاد رکھیں اگر مہر ادا نہیں کیا اور بیوی نے مانگا بھی نہیں تو اس سے مہر معاف نہیں ہوتا بلکہ ذمہ میں رہ جاتا ہے، ا لّا یہ کہ بیوی سے معاف کروالیا ہو،اور اس نے بخوشی دل سے معاف کردیا ہو تو اس سے مہر معاف ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں اسے ترکہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ (فکلوہ ہنیئا مریئا)

وصیت سے متعلق کوتاہی

اس میں دونوں طرف سے کوتاہی ہوجاتی ہے،وصیت کرنے والے کو چاہیئے کہ ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہ کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کے بارے میں فرمایا تھا کہ
’’تہائی(مال)بہت ہے، تمہارا پنے ورثاء کو مالدار چھوڑنا بہتر ہے اس سے کہ ان کوتنگدست چھوڑواور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں ‘‘(بخاری)
اور ایک تہائی مال کی وصیت کرنے میں بھی ورثاء کی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیئے۔
پھر دوسری طرف ورثاء کو چاہیئے کہ وہ مرنے والے کی شرعی وصیت پر عمل کریں،اگر وصیت اس کے ایک تہائی حصہ کے اندر اندر ہے تو اس پر عمل کر ناضروری ہے اور اگر ایک تہائی سے زیادہ ہے تو بھی ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کرناضروری ہے ،اور اگر تمام ورثاء سمجھدار اور بالغ ہوں اور وہ سب بخوشی اپنا حق کم کر کے اس وصیت پر ایک تہائی کی حد سے زیادہ پر بھی عمل کرنے پر راضی ہوں تو وہ اس کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔ بعض دفعہ زبانی وصیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، یاد رکھیں کہ وصیت کا تحریری طور پر ہونا ضروری نہیں زبانی بھی معتبر ہے ۔

میراث سے متعلق کوتاہیاں

ترکہ کے مال میں سے کفن دفن کے اخراجات، قرض ادا کرنے اور وصیت پوری کرنے کے بعد جو مال مرنے والے کی طرف سے شرعی اصولوں کی روشنی میں اس کے ورثاء کو ملتا ہے، اسے میراث کہتے ہیں۔

مال میراث کی شرعی حیثیت

کسی کےانتقال ہوتے ہی وراثت کا سارا مال خود بخود تمام شرعی ورثاء کی ملکیت میں چلا جاتا ہے ،البتہ تقسیم سے پہلے ہر ایک کا مال متعین نہیں ہوتا،تاہم ہر ہر چیز میں ہر وارث اپنے حصہ کے بقدر شریک ہوجاتا ہے،مثال کے طور پر کسی شخص کے وارث دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، تو جیسے ہی اس کا انتقال ہوا اس کی وراثت کاسارامال ان بچوں میں ان کے حصہ کے بقدر ان کی ملکیت میں چلا جائے گا، یعنی وراثت کی ہر ہر چیز میں ہر بیٹا۶؍۲ اور ہر بیٹی۶؍۱ حصہ کی مالک بن جائے گی، اس کو اور آسان کرلیں تو یوں کہہ لیں کہ ہر چیز چھ شیئرز میں تقسیم ہو جائے گی، اور اس میں سے دو دو شیئرز ہر بیٹے کے اور ایک ایک شیئر ہر بیٹی کا ہوجائے گا، یہ سب اس کے مالک بن جائیں گے، ملکیت آنے کیلئے تقسیم ضروری نہیں وہ خود بخود آجائے گی۔

وراثت کا مال استعمال کرنا

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :’’خبردار !کسی پر ظلم نہ کرنا!جان لو!کسی بھی دوسرے شخص کامال(لینا یا استعمال کرنا) اس کی مرضی و خوشی کے بغیر حلال نہیں ‘‘(مشکوٰۃ)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کامال اسکی اجازت کے بغیر استعمال کرنا ناجائز اور ظلم ہے ،اسی طرح وراثت کا مال جو سب ورثاء کی مشترکہ ملکیت ہے وہ بھی کسی ایک وارث یا کسی اور کیلئے سب ورثاء کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
اگر میت کا گھر ہے اور اس میں ایک وارث رہ رہا ہے تو اس کو اس میں رہنے کیلئے سب ورثاء سے اجازت لینا ضروری ہے۔ (اورظاہری بات ہے کہ اگر وہ گھرخالی کرکے جارہا ہے یا اس کو فروخت کیا جارہا ہے،اوراس میں کچھ عرصہ لگ رہا ہے تواتنا وقت اس کو دیا جائے گا )
اسی طرح جیسے مشترکہ چیز سارے شرکاء کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کی جاسکتی ،اسی طرح وراثت کا مال بھی کسی ایک وارث کیلئے سب کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

مشترک مال کا حکم

مشترکہ چیز کی آمدنی جیسے حصوں کے بقدر مشترک ہوتی ہے اسی طرح اگر وراثت کی کسی چیز سے آمدنی ہوئی تو وہ بھی مشترک ہوگی،مثلاً میت کا کاروبار تھا ،اور مرنے کے بعد بھی وہ کاروبار جاری ہے تو اس کی آمدنی بھی مشترک ہوگی،کاروبار میں جو ترقی ہوگی اوراس کاروبار کی آمدنی سے جو چیز لی جائے گی وہ سب بھی مشترک ہوگی،کسی ایک وارث کیلئے اس کو اکیلے استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔اب اس میں مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ایک وارث مثلابیٹا اس سارے کاروبار کو چلاتا ہے تو اس کا کیا حق ہوگا اس کو کیسے تقسیم کریں گے، تو اسمیں تفصیلات ہیں جو کہ بوقت ضرورت علماء سے معلوم کرنی ہوں گی، یہاں صرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ انتقال کے بعد ایسے ہی نہ بیٹھے رہیں بلکہ فوراً علماء سے رابطہ کریں تاکہ وہ صحیح طریقہ ٔ کار کی طرف رہنمائی کردیں۔
اسی طرح کسی جائیداد کا کرایہ آرہا ہے تو وہ بھی سب ورثاء کی مشترکہ ملکیت ہے ،کسی ایک وارث کیلئے سب کی رضامندی کے بغیروہ آمدنی لینااوراپنے اوپر خرچ کرناجائز نہیں،بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک وارث جو کہ سرپرست کی حیثیت رکھتا ہے وہ اس آمدنی میں سے سب ورثاء پر خرچ کرتا ہے تو اس میں بھی ضروری ہے کہ وہ سب سے اجازت لے کر خرچ کرے۔
اگر وراثت میں کوئی دوکان ہے تو وہ بھی سب کی مشترکہ ملکیت ہوگئی ہے ،اب اگر اس میں کوئی ایک وارث یا کوئی اور اپنا ذاتی کاروبار کرہا ہے تو ظاہر ہے وہ تمام ورثاء سے اجازت کے بغیر اس میں اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکتا،یا تو اس کو خالی کردے یا ورثاء سے اجازت لے یا ان سے کرایہ پر لے لے،یا جو بھی معاملہ ہو وہ آپس میں طے کر لیا جائے۔

ورثاء کی کونسی باہمی اجازت بہنوں سے حق معاف کروانا

جہاں بھی اجازت کا ذکر آیاہے تو وہاں وہ اجازت معتبر ہے جو خوشدلی سے ہو، زبردستی کی اجازت معتبر نہیں، حدیث میں خوشی کے ساتھ رضامندی کا ذکر ہے۔اسی لیئے جو لوگ بہنوں سے ان کی خوشدلی کے بغیر حصہ معاف کروالیتے ہیں،وہ یاد رکھیں کہ بہنوں کا رسمی طور پر یا بادل نخواستہ طور پر،یا شرماشرمی میں اپنا حصہ معاف کرنا شرعاً معتبر نہیں،اگر خوشدلی سے بھی کردیں تو معاف کروانااسلامی اصول کے خلاف ہے کیونکہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ انہوں نے دل سے معاف کیا ہے ؟پھر اس میں ہندوؤں کے خلاف شرع ظالمانہ رواج کی ترویج بھی ہے، لہٰذا اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے۔البتہ اگر بہنیں سمجھتی ہیں کہ والد نے انہیں زندگی میں کافی مال دیدیا ہے اور بھائی ضرورت مند ہیں تو اگر وہ اپنا حصہ بھائیوں کیلئے شرعی طریقہ سے چھوڑتی دیتی ہیں تو یہ ان کیلئے بہت فضیلت کی بات ہے۔

ورثاء کی آپسی رضا مندی کا حکم

نیز اجازت ان ورثاء کی معتبرہے جو سمجھدار ہوں،اور بالغ ہوں اگرکوئی وارث ذہنی طور پر معذور ہے یا نابالغ ہے تو اس کی اجازت بھی معتبر نہیں۔اگر سب ورثاء کوئی ایسا کام کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں سب کی اجازت ضروری ہے اور ورثاء میں کوئی نابالغ یا مجنون بھی موجود ہے تو اس کے تفصیلی احکام موجود ہیں جنہیں علماء سے معلوم کر کے عمل کر ناچاہیئے ۔

وراثت کی تقسیم میں تاخیر

شریعت کا حکم ہے کہ ترکہ میں جن حقوق کی ادائیگی واجب ہے وہ ادا کر کے باقی میراث وارثوں میں تقسیم کردی جائے ،تاخیر ہونے کی وجہ سے بہت سی پیچیدگیاں اور بدگمانیاںپیدا ہوتی ہیں،اور دیر سے تقسیم کرنے میں بعض دفعہ الجھنیں اور اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ،اس لیئے جلد سے جلد میراث تقسیم کرلینی چاہیئے ۔بعض لوگ اس خیال سے تاخیر کرتے ہیں کہ اگر جلدی تقسیم کرلیا تو تو لوگ کہیں گے کہ بس اسی کے منتظر تھے کہ آنکھ بند ہو اور سرمایہ پر قبضہ کر لیا جائے،یاد رکھئے ! اللہ کے حکم کے آگے یہ سب خیالات کوئی حیثیت نہیں رکھتے ترکہ کی تقسیم اللہ کا حکم ہے اس کے مطابق جلد از جلد عمل کرنا ضروری ہے۔

بیوہ کو دوسری شادی کرنے پر میراث سے محروم کرنا

بعض لوگ بیوہ کو دوسری شادی کرنے پر میراث سے محروم کردیتے ہیں،یا بعض دفعہ بیوہ تمام ترکہ پر ناحق قبضہ کرلیتی ہے،اسی طرح اگردلہن میکے میں انتقال کرجائے تو میکے والے اس کے سارے جہیز پر قبضہ کرلیتے ہیںاور شوہر کو حصہ نہیںدیتے،یا سسرال میں انتقال کرجائے تو سسرال والے اس کے والدین کو حصہ نہیں دیتے ،یہ
سب ناجائز ہے۔

مفتی محمد فرحان فاروق

تعزیت کا فلسفہ اور غیر اسلامی رویے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button