Education Mazameen

ووکیشنل ایجوکیشن کی اہمیت

   تحریر: جبران عباسی

ووکیشنل ایجوکیشن کیا ہے؟

ووکیشنل ایجوکیشن مختصر اور طویل دورانیے کے ٹیکنیکل اور مختلف ” فنی تربیت” پر مشتمل کورسز ہوتے ہیں۔

ان کورسز کے ذریعے افراد کو ہنر مند بنایا جاتا ہے۔ یہ ہنر مند افراد کئی اہم ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں اور ملازمت کے مواقع سے مستفید ہوتے ہیں۔ جیسے الیکٹریشن بجلی کے ضروری مرمتی کام کرتا ہے ، کمپیوٹر آپریٹر ڈیٹا کو ترتیب دیتا ہے یا مکینک گاڑیوں کی مرمت کرتا ہے۔۔

ٹیکنیشنز کسی بھی صنعت کا اہم جزو ہوتے ہیں۔

یوں تو ہر ملک ووکیشنل ایجوکیشن پر اپنے وسائل خرچ کر رہا ہے مگر فن لینڈ وہ ملک ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ووکیشنل ایجوکیشنل پروگرامز پر خرچ کرتا ہے ، 2020 کے اعدادو شمار کے مطابق فن لینڈ نے ایک بچے کی ٹیکنکل تعلیم پر 7,584 یورو خرچ کئے جو پاکستانی روپوں میں اس وقت کی کرنسی کے حساب سے 15 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں سال 2020 میں ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز کےلئے صرف 150 ملین روپے مختص کئے گے تھے۔
آخر کیوں فن لینڈ اس غیر روایتی ایجوکیشن پر ملین یوروز خرچ کر رہا ہے۔ کیا فن لینڈ کو فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔

فن لینڈ ایجوکیشن ٹریننگ پروگرام کا پس منظر

1970 اور 1980 کی دہائی میں فن لینڈ میں روایتی نظام تعلیم اپنے عروج پر تھا ، فن لینڈ کے طلبا و طالبات اعلی یورپین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے اور بزنس مینجمنٹ ، بیوروکریسی ، سائنس ، طب ، انجنئیرنگ وغیرہ کے وائٹ کالر شعبہ جات کا انتخاب کرتے۔
مگر 1990 میں فن لینڈ کو عظیم کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا، جی ڈی پی کا 14 فیصد حصہ گر گیا اور بیروزگاری کی شرح 3 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہو گئی۔
اس کساد بازاری میں یونیورسٹی گریجویٹس کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ لاکھوں گریجویٹس بیروزگار ہو گئے اور فن لینڈ کی معیشت کا چلتا پہیہ جام ہو گیا۔

فن لینڈ کی حکومت کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اگر مضبوط معیشت کی بنیاد رکھنی ہے تو نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کو ٹیکنکل ایجوکیشن کا حصہ بنانا ہو گا اور دنیا کو ایکسپرٹس ایکسپورٹ کرنے ہوں گے۔

1990 کی دہائی میں ہی نوکیا موبائل نے فون بنانا شروع کئے ، یہ ایک غیر روایتی انڈسٹری تھی جس کے لیے وسیع پیمانے پر ہنر مند نوجوان درکار تھے ، کساد بازاری کے ان سالوں میں نوکیا کمپنی نے بڑی حد تک فن لینڈ کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا۔

آنے والے برسوں میں فن لینڈ کی معیشت میں استحکام آ گیا ، نوکیا کمپنی کے کروڑوں یونٹس فروخت ہونے لگے، نوکیا کا شمار دنیا کی گلوبل نمبر ون کمپنی میں ہونے لگا اور فن لینڈ میں ٹیکنکل ایجوکیشن کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی۔ یوں فن لینڈ آج دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنیکل ایجوکیشن پر خرچ کرتا ہے اور دنیا کو بہترین سکلڈ بلیو کالر فورس فراہم کرتا ہے۔

کیا فن لینڈ کو بہترین ریٹرن آف انوسٹمنٹ مل رہا ہے؟

بالکل مل رہا ہے، فن لینڈ کو اس غیر روایتی نظام تعلیم کو مقبول کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے اوورسیز ورکرز دنیا بھر میں اپنی قابلیت منوانے میں کامیاب ہوئے اور وہ سب سے زیادہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔

پاکستانی لیبر بمقابلہ فن لیبر

ایک جانب پاکستانی بلیو کالر اوورسیز ورکر کی ماہانہ آمدن پانچ سو سے ہزار ڈالر تک محدود ہے مگر دوسری طرف فن لینڈ کے بلیو کالر اوورسیز ورکز کی ماہانہ آمدن 2500 سے 4000 ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ خود فن لینڈ میں اوسط آمدن 4400 یورو ماہانہ ہے۔

پاکستان میں ٹیکنیکل ایجوکیشن وقت کی اہم ضرورت

پاکستان کی آبادی کا 63 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، شرح تعلیم 60 فیصد ہے اور موجودہ اعداد و شمار کے مطابق شرح بیروزگاری 12 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہ ڈیموگرافی خطرناک ہے ، آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں شرح خواندگی انتہائی کم اور شرح بیروزگاری انتہائی بلند ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام ، معشیت قرضوں میں جکڑی ہوئی ، مہنگائی آسمان کو چھوتی ہوئی اور ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اگر پاکستان میں ووکیشنل ایجوکیشن کو اہمیت دی جاتی ہے تو نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ گلوبل مارکیٹ میں بلیو کالر اوورسیز ورکرز ہوتا اور ماہانہ ایک سے دو ہزار ڈالر تک کماتا۔

یورپ میں ووکیشنل ایجوکیشن

ووکیشنل ایجوکیشن کو یورپ میں سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ صرف برطانیہ میں 165 یونیورسٹیاں اور 900 ٹریننگ سینٹر ووکیشنل ایجوکیشن کےلئے فعال ہیں۔

ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن کو روزگار کی شرح بڑھانے میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص یورپی یونین TVET پروگرام پر کثیر سرمایہ کاری کر کے اپنی لیبر فورس کو مستحکم کر رہا ہے۔

ووکیشنل ایجوکیشن پروگرام کے اہم فوائد

بظاہر گریجویشن پروگرامز کو نوجوان زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس کی بنیادی وجہ وائٹ سکالرز ملازمت کے بڑے مواقع ملنا ہیں۔ مگر اعداد و شمار دیکھیں تو موجودہ دنیا میں 63 کروڑ کے لگ بھگ انسان وائٹ کالر جابز کر رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف صرف امریکہ میں چودہ کروڑ سے زائد افراد بلیو کالر جابز کر رہے ہیں۔

بالفرض ایک نئی فیکٹری کھل رہی ہے وہاں وائٹ کالر جابز کی شرح اوسطاً بمشکل 10 سے 15 فیصد ہو گی مگر وہاں بلیو کالر جابز کی ضرورت 80 فیصد سے زائد رہے گی۔

بلیو کالر جابز کی مانگ دنیا میں ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے ، اس وقت صرف آسڑیلیا کو 34 فیصد بلیو کالر اوورسیز ورکر کی ضرورت ہے۔

بلیو کالر جابز ہمیشہ محفوظ رہیں گی

ہم سب جانتے ہیں آرٹیفیشل انٹیلیجنس آنے والے چند سالوں میں اپنے عروج پر ہو گی، ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک 30 فیصد وائٹ کالر جابز آرٹی فیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائیں گی۔

بلیو کالر بمقابلہ وائٹ کالر

اگر ہم صرف پاکستان کو دیکھیں تو یہاں بیروزگار گریجویٹ کی تعداد لاکھوں میں ہے، یہ وہ گریجویٹس ہیں جو اعلی تنخواہوں پر بیوروکریسی ، بزنس مینجمنٹ ، ڈاکٹرز ، انجنیرز یا دوسرے منافع بخش شعبوں میں جانے کے خواہش مند ہیں۔

اسی کے مقابلے میں وہ نوجوان جو میٹرک یا ایف اے کرنے کے بعد بعد چھ ماہ یا سال کا کورس کر کے چھوٹی ملازمتوں میں مصروف ہو گئے اب اپنے سٹارٹ آپس کی طرف جا رہے ہیں۔

ایک گریجویٹ 25 سال کی عمر میں ایک قابل قبول ملازمت پر پہنچتا ہے مگر دوسری طرف وہ نوجوان جس نے 18 سال کے بعد پڑھائی کو چھوڑ کر ہنر سیکھا 25 سال کی عمر میں اپنے کاروبار کا آغاز کر چکا ہوتا ہے۔

اگرچہ وائٹ کالر پروفیشنل پالیسی ساز کا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اہم پالیسیز بناتے ہیں ، انڈسٹری کے فروغ کے لیے نئی راہیں ہموار کرتے ہیں۔مگر وہیں بلیو کالر ان پالیسیز کے فروغ کےلئے بےلوث محنت کرتے ہیں۔ فیکٹری ورکر سے لے کر ٹیکنیشنز تک اپنی اہم زمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں۔

دنیا بلیو کالر پر انحصار کر رہی ہے

زراعت اور انڈسٹری یہ دو اہم ترین صنعتیں ہیں جن پر پوری دنیا کی معیشت کا انحصار ہے اور ان انڈسٹریز کا براہ راست انحصار سکلڈ لیبرز پر ہے۔
افریقہ، ایشیا اور یورپ یہ تین براعظم ہیں جو گلوبل مارکیٹ کو لیبر فراہم کرتے ہیں۔

افریقہ اور ایشیا کےمحنت کار سب سے سستے سمجھے جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کا غیر ہنر مند ہونا ہے جبکہ یورپ کے محنت کار سب سے مہنگے مگر اپنی قابلیت میں سب سے اعلی تصور کئے جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کے “سکل کورسز” پر اربوں ڈالر کا خرچ کرنا ہے۔

پاکستان کے نوجوان صلاحیت اور لگن میں کسی بھی قوم سے کم نہیں ہیں ، پاکستان کی آئی ٹی برآمدات اس وقت 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ یاد رہے یہ آئی ٹی ایکسپورٹس ایک ایسے ملک کی ہیں جہاں دن میں 5 سے 10 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہونا عام بات ہے۔

کیا پاکستان میں ووکیشنل ایجوکیشن کامیاب ہو سکتا ہے؟

پاکستان میں اس وقت لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جنھیں اگر چھ ماہ کے مختصر دورانیے کے کورسز کروائیں جائیں تو وہ اچھا خاصا ریونیو پیدا کر سکتے ہیں۔ہمارا ہر صوبہ ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز کےلئے موزوں ہے۔

پنجاب کی بات کی جائے تو ایگریکلچر اور کیٹل انڈسٹری اربوں ڈالر کی مالیت کا حجم رکھتی ہے۔ اگر اس انڈسٹری میں ہنر مند ورکرز کو متعارف کروایا جائے تو پاکستان نہ صرف خودکفیل ہو جائے بلکہ لاکھوں بجھتے چولہے پھر سے جل اٹھیں۔

سندھ کی دستکاری کی مصنوعات اپنے کلچر اور خوبصورتی کی وجہ سے گلوبل مارکیٹ میں خاصی مانگ رکھتی ہیں ، ہنر مند دستکاروں کی کمی ہے، سندھی دستکاریوں کی مانگ میں ہمیشہ اضافہ رہتا ہے۔

بلوچستان میں مائن لیبر اور ہارڈ اسکل لیبر ہیں جو انتہائی غربت میں رہتے ہیں ، اگر ان نوجوانوں کو معدنیات کے شعبے میں مختصر دورانیے کے کورسز کروائیں جائیں تو ان کی زندگی پہلے سے کہیں بہتر ہو سکتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں اسلحہ سازی ، کاشت کاری اور دستکاری کی موروثی صنعتیں زوال پذیر ہیں جنھیں ہنر مند افراد کے ذریعے پھر سے زندہ کر کے گلوبل ایکسپورٹ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کا پوٹینشل اربوں ڈالر کا ہے مگر وہاں پروفیشنل مہمان نوازی اور ہوٹل انڈسٹری کی کمی ہے۔ اگرچہ مقامی کمیونٹی انتہائی مہمان نواز ہے اگر وہاں مہمان نوازی کو کمرشل سطح پر کورسسز کے ذریعے متعارف کروایا جائے تو ہر سال لاکھوں سیاح وہاں کا رخ کر سکتے ہیں۔

ووکیشنل ایجوکیشن محدود نہیں ہے

ووکیشنل ایجوکیشن صرف الیکٹریشن ، پلمبر ، مکینک ، کمپیوٹر آپریٹر اور ٹیکنیشنز تک محدود نہیں ہے اس کے سکوپ میں انتہائی وسعت ہے ، صرف فن لینڈ میں 120 ایسی سکلز ہیں جن پر مختصر اور دو سال کے دورانیے کے کورسز کروائے جاتے ہیں اور ان سکلز کی وجہ سے اربوں ڈالر کی انڈسٹری وجود میں آئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے پاکستان بھی ووکیشنل ایجوکیشن پروگرام کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھے اپنے نوجوانوں کو مستحکم روزگار فراہم کرنے کےلئے ان کی فنی تربیت کرے۔

یہ بھی پڑھئیے:عملی کام سے پہلے ذہنی تیاری ضروری کیوں؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button