ColumnsFor Children

بچوں کی دلچسپ سائنسی ایجادات

بچوں کی دلچسپ سائنسی ایجادات

جبران عباسی

 

بچوں کی سائنسی ایجادات

بچوں کی سائنسی ایجادات:2001 میں نائجیریا میں زبردست قحط آیا جس کی زد میں چودہ سالہ ولیم کامکوامبا کا گاؤں مالاوی بھی آ گیا۔ ولیم کے گاؤں کے کنوئیں خشک ہو گئے، مال مویشی مرنے لگے۔  پینے کا پانی نایاب ہو گیا اور لوگ گاؤں چھوڑنے لگے۔ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی کم ہو گئی۔ ولیم کا خاندان بھی فاقہ کشی ہر مجبور ہو گیا۔
ولیم کو پہلے ہی سکول فیس ادا نہ کر پانے کی وجہ سے نکالا جا چکا تھا۔ مگر اسے کتابیں پڑھنے کا بےحد شوق تھا۔ گاؤں کی لائبریری سے اس کے ہاتھ ایک امریکی نصابی کتاب using energy لگی جس میں ہوا کی چکی windmill کی ڈرائنگ تھی۔ اس ہوا کی چکی سے بجلی پیدا کی جا سکتی تھی۔
ولیم کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کیوں نہ وہ بھی یہ ہوا کی چکی بنائے اور اس بجلی کا استعمال کر کے زیر زمین انتہائی کم سطح پر پانی اوپر کھینچے۔ انھیں کھیتوں اور پینے کےلئے صاف پانی مل جائے گا۔
مگر ولیم کےلئے سب سے بڑا چیلنج ان آلات کی کمی تھی جن سے ہوا کی چکی بنائی جا سکتی تھی۔ ولیم نے کمال مہارت سے اس کا حل بھی نکال لیا۔
ولیم نے لوہے کے کچرے سے ٹریکٹر کے پنکھے لئے، سائیکل سے موٹر اور پہیے نکالے اور کچھ تاریں اور کوائلز پرانے مشینوں سے نکالیں اور ایک درخت زمین پر گاڑ کر اپنی انجنئیرنگ شروع کر دی۔ اس نے تمام پرانا لوہا اور آلات ری سائیکل کیا اور اپنے استعمال کے قابل بنایا۔
تین ماہ کی لگاتار محنت اور نصابی کتاب کی مدد سے ولیم نے پہلی پن چکی تیار کی۔ یہ ہوا کی چرخی بجلی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اس سے چار بلب روشن ہوئے۔
ولیم کی اس کامیابی پر گاؤں کے لوگوں نے جو پہلے مزاق اڑا رہے تھے اب ولیم کے ساتھ ہو گئے۔ ولیْم نے چند ہی ہفتوں میں گاؤں والوں کی مدد سے دو مزید ہوائی چکیاں تیار کر لیں جن سے بجلی پیدا ہوئی اور زیر زمین پانی موٹر لگا کر کر باہر نکالا گیا اور خشک کھیتوں کی پیاس بجھا کر پھر سے انھیں کاشت کیا گیا۔ ولیم اپنے گاؤں کو بچانے میں کافی حد تک کامیاب ہوا۔
ولیم کے اس کارنامے پر ایک شہرہ آفاق ناول the boy who harnessed the wind بھی لکھا گیا ہے جس پر نیٹ فلیکس نے ایک فلم بھی بنائی ہے۔ یقیناً یہ ایک بہترین فلم ہے جس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ یہ فلم اپنے بچوں کو ضرور دیکھانی چاہیئے۔

قارئین! ہمیں بچے صرف کھیلتے کودتے ہی نظر آتے ہیں مگر ایسی انگنت مثالیں ہیں جب یہ بچے آگے بڑھے اور اپنی منفرد ایجادات سے دنیا کو حیران کر دیا ۔ آئیے اس مضمون میں ہم ولیم جیسے کچھ اور بچوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں جن کی انوکھی ایجادات نے کیسے سائنسی دنیا میں ہلچل مچائی اور انسانیت کی ترقی میں ان کا کردار اہم رہا۔

بچوں کی سائنسی ایجادات

بریل سسٹم

بچوں کی سائنسی ایجادات کی فہرت میں دوسرا نام بریل سسٹم کا آتا ہے،یہ نابینا افراد کےلئے مطالعہ کا ایک کارآمد نظام ہے۔ بریل سسٹم پر لکھی گئی کتابیں الفاظ نہیں بلکہ ابھرے ہوئے نقطوں پر مشتمل ہوتی ہیں جسے نابینا افراد محسوس کر کے ڈی کوڈ کرتے ہیں اور مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ سسٹم لوئیس بریل نے بارہ برس کی عمر میں ایجاد کیا تھا۔
تین برس کی عمر میں لوئس کی اپنی بینائی چھن گئی تھی۔ اسے پڑھنے میں شدید دقت پیش آئی۔ بارہ برس کی عمر میں اسے فرانسیسی خفیہ ایجنسی کے ایک خفیہ خاموش پیغام رسانی کے پیٹرن کے بارے میں معلومات ملیں۔
لوئس نے اسی پیٹرن کو نابینا افراد کی ضرورت کے مطابق تبدیل کیا اور بریلی سسٹم کی بنیاد رکھی۔ آج کی تاریخ میں کروڑوں کتابیں بریلی سسٹم کی مدد سے لکھی جا چکی ہیں اور نابینا افراد ان کتابوں کی مدد سے تعلیم حاصل کرنے اور اپنا کیرئیر کامیاب بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

پہلی برفانی گاڑی

کینیڈا کے بیشتر حصے میں شدید برف باری ہوتی ہے اور وہاں سڑکیں بند ہو جاتی ہیں۔ ایک صدی پہلے یہ بہت بڑا مسلہ تھا۔
جوزف آرمنڈ نامی ایک پندرہ سالا لڑکے نے اس مسلے کا حل نکالنے کا تہیہ کر لیا اور 1922 میں ایک فورڈ ٹائروں والی کار کو چین لگا کے اسے سنو موبائل بنانے کی کوشش کی۔ ان کی یہ گاڑی اگرچہ صرف آدھ میل ہی چل سکی مگر وہ انھیں ایک بڑا سبق دے گئی۔
1926 میں انھوں نے دوبارہ کوشش کی اور پہلے سے بہتر سنو گاڑی تیار کی۔ اس وقت ان کی عمر محض 19 برس تھی۔ 1934 میں وہ اپنے بیمار بیٹے کو اس گاڑی پر برف باری کے دوران ہسپتال منتقل کر رہے تھے مگر وہ ناکام ہوئے اور ان کے بیٹے کی موت واقع ہو گئی۔
1935 میں انھوں نے اس سے بھی بہتر B7 سنو موبائل لانچ کی۔ یہاں تک کہ 1959 میں انھوں نے sky-doo سنو موبائل پیش کی جس نے پوری دنیا میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ سکائی ڈو موجودہ وقت میں بھی snow vehicle انڈسٹری میں اربوں ڈالر کی مالیت کی گاڑیاں ہر سال فروخت کرتی ہے۔

بچوں کی سائنسی ایجادات

ٹیلی ویژن

فیلو ٹیلر فرنس ورتھ کو الیکٹرانک ٹیلی ویژن کی ایجاد کا سہرا جاتا ہے۔ جنہوں نے پندرہ برس کی عمر میں ایلکٹرانک ٹیلی ویژن کا خاکہ تیار کر لیا تھا اور اکیس برس کی عمر میں پہلا ٹیلی ویژن ایجاد کیا تھا۔
ٹیلر 1906 میں امریکی ریاست اوٹاوا میں پیدا ہوا۔ اسے بچپن سے ہی سائنسی ایجادات میں دلچپسی تھی۔ 1922 میں اپنے ہائی سکول کے دوران اس نے کیمسٹری کے استاد کے پاس ایک خاکہ پیش کیا جس میں آئیڈیا تھا کہ کیسے ویکیوم ٹیوب کی مدد سے چلتی پھرتی تصویریں پیش کی جا سکتی ہیں۔
1926 میں بائیس سال کی عمر میں کچھ دوستوں سے ادھار لے کر اس نے اپنے خاکے پر کام کرنا شروع کر دیا اور 1927 میں وہ دنیا کا پہلا الیکٹرانک ٹیلی ویژن تیار کرنے میں کامیاب ہوا جس میں تصویروں کو انتہائی تیزی کے ساتھ گھرمتے دیکھایا گیا اور وڈیو فلم کا کنسپٹ وجود میں آیا۔ فلیو جب مرا تو اس کے نام 300 کے قریب ایجادات تھیں۔

کرسمس لائٹس

برقی قمقمے اور رنگ برنگی روشنیاں لگانا اب ہر خوشی کی تقریبات اور فیسٹول کا گویا ایک اہم حصہ قرار پا چکا ہے اور یہ اربوں ڈالر کی صنعت بن چکی ہے۔ 1880 میں تھامس ایڈیسن نے بلب ایجاد کیا اور ٹھیک دو برس بعد اہڈروڈ ایچ جانسن اور اس کے دوستوں نے یہ رنگ برنگی کرسمس لائٹیں ایجاد کر دیں تھی۔ بارہ سالہ جانسن نے کرسمس کے موقع پر کرسمس ٹری کے ساتھ ہاتھوں سے تیار کردہ تاروں کو لٹکایا اور سادہ بلبوں پر سفید اور نیلے رنگ کر کے انھیں تاروں سے منسلک کر دیا۔ لوگوں کو یہ خوشگوار تجربہ لگا۔
ان کا یہ آئیڈیا امریکی صدر کلیو لینڈ کو بھی بےحد پسند آیا اور 1895 میں انھوں نے وائٹ ہاوس کے کرسمس ٹری کو بھی برقی قمقموں سے سجانے کا انتظام کرایا۔ جس کے بعد کرسمس لائٹس کرسمس ایونٹ کا لازمی جزو بن گئیں۔

بچوں کی سائنسی ایجادات

واٹر سکائینگ

پانی میں تیراکی تو زمانہ قدیم سے ہے مگر لہروں کے ساتھ اڑنا اٹھارہ سالہ سیموئیلسن کا انوکھا کارنامہ تھا جسے دنیا بھر میں شہرت ملی۔ دونوں پاؤں کے ساتھ لکڑی کے چھوٹے سے تختے باندھ کر لہروں پر کھڑے ہو کر آگے بڑھتے جانا خاصا دشوار اور لطف سے بھرپور کام ہے۔ سیموئیلسن کی خواہش تھی کہ سنو سکائی کی طرح وہ بھی کچھ انوکھا ایجاد کریں۔ انھوں نے پرانی کشتی سے دو تختے نکالے۔
لکڑی کو نرم کر کے کیتلی میں ابال کر ان کے کنارے اوپر موڑ دیے، اور پہلی بار مینیسوٹا اور وسکونسن کے درمیان ایک جھیل پر اسکیئنگ شروع کی۔ ان کا یہ کھیل اتنا مقبول ہوا کہ واٹر سکائینگ کی ملین ڈالر انڈسٹری اب قائم ہے۔

بریل پرنٹر

ہم آپ کو لوئیس بریل کی کہانی بتا چکے ہیں جنہوں نے اپنے بچپن میں ہی بریل سسٹم ایجاد کیا جس کی مدد سے نابینا لوگ مطالعہ کر سکتے تھے۔ بریلی سسٹم میں ہاتھ سے تصانیف تحریر کی جاتی ہیں۔
بریلی کتابوں کی اشاعت کےلئے پرنٹر بھی بنائے گئے مگر وہ انتہائی مہنگے تھے۔ اس مشکل کا حل بارہ سالہ بھارتی نژاد امریکی بچے شبنم بینرجی نے اپنا ایک منفرد پرنٹر ایجاد کر کے پیش کیا جو بریلی سسٹم کے تحت کتابوں کی اشاعت کر سکتا تھا اور یہ انتہائی سستا ہے۔

اڑھائی ملین ڈالر کا خزانہ

ہم اسے ایجادات کے زمرے میں تو نہیں گن سکتے مگر یہ ایک زبردست دریافت تھی۔ تین سالہ جیمز ہیٹ اپنے باغیچے میں والد کے میٹل ڈیٹیکٹر کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ڈیٹیکٹر نے بولنا شروع کر دیا جس سے جیمز کے والد متوجہ ہوئے اور انھوں نے وہاں کھودنا شروع کر دیا صرف آٹھ انچ کی کھدائی پر سونے کی چیزیں نکلنا شروع ہو گئیں جن کی مالیت اڑھائی ملین ڈالر لگائی گئی۔ ہوں جیمز نے اپنے والد کو لاکھوں پاونڈ کا مالک بنا دیا۔
ایسی درجنوں چھوٹی اور بڑی ایجادات بچوں کے نام ہیں تو آج کے اس مضمون سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کچھ کرنے کےلئے ہمیں اپنی عمر کی نہیں بلکہ جذبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمر کے ابتدائی سالوں میں بھی ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور اپنا نام و شہرت قائم کر سکتے ہیں۔

 

امتحانی دباؤ کیسے بچوں کو ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے

بچوں کی سائنسی ایجادات

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button