Board ExamasColumns

امتحانی دباؤ کیسے بچوں کو ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے

امتحانی دباؤ کیسے بچوں کو ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے

جبران عباسی

 

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بورڈ امتحانات کا سلسلہ شروع ہے۔ لاکھوں بچے اور بچیاں ملک بھر سے ان امتحانات میں حصہ لے رہے ہیں اور اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کی ریس میں ہیں۔

ان بچوں کے سامنے کئی چینلجز ہیں۔ اول، بورڈ امتحانات، جس میں اچھے نمبر لینا انتہائی اہم ہے، دوم اپنے والدین، اساتذہ اور سوسائٹی کی توقعات، جو ان سے وابستہ ہیں اور سوم امتحانات کی تیاری، لمبے کورسز، مشکل مضامین ، کم وقت اور غیر یقینی نتائج کا ڈر۔

یوں اس وقت لاکھوں پاکستانی بچے ایگزام سٹریس کا شکار ہیں جو انھیں امتحانی ڈپریشن کی طرف لے جا رہا ہے۔

آج کے اس مضمون میں ہم سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ امتحانات کے دوران ہمارا بچوں کے ساتھ کیسا رویہ ہونا چاہیے، ہماری ان سے توقعات کتنی ہونی چاہیئں اور اگر آپ کا بچہ امتحانات کی وجہ سے ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کا شکار ہے تو کس طرح اس کو اس کیفیت سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔

امتحان کا دباؤ

یہ ایک عام نفسیاتی کیفیت ہے جو تقریباً 90 فیصد طلبا کو اپنے سالانہ امتحانات سے ایک ماہ پہلے شروع ہوتی ہے اور امتحانات ختم ہونے تک رہتی ہے۔ بظاہر یہ کوئی خطرناک نفسیاتی کیفیت نہیں ہے مگر اس کے اثرات مضر صحت ہیں۔

امتحانی دباؤ کے مضر اثرات

امتحانی دباؤ کا فوری نتیجہ یہ ہے کہ بچے اپنے پیپرز میں بہتر پرفارم نہیں کر پا رہے ہوتے۔ اکثر بچوں سے آپ نے سنا ہو گا کہ پیپر میں آنے والا سوال وہ یاد کر کے گئے تھے مگر کمرہ امتحان میں وہ ان کے ذہن سے نکل گیا۔ یہ امتحانی دباؤ کا ہی نتیجہ ہے۔
جسمانی طور پر بھی اس کے اثرات ہیں جیسے نیند کم آنا، سر درد، معدہ میں درد اور طبیعت کا بوجھل پن وغیرہ۔
امتحانی دباؤ کا شکار بچے خود کو الگ تھلگ کر لیتے ہیں جسے social distancing کہتے ہیں۔ حتی کہ دوستوں اور پسندیدہ گیمز بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
الغرض امتحانی دباؤ کسی بھی صورت بچے کےلئے صحت مند یا حوصلہ افزا نہیں ہے بلکہ یہ ان کو کم نمبروں کی طرف لے جاتا ہے۔

امتحانی دباؤ پیدا کیسے ہوتا ہے؟

اول تو خود امتحان ایک آزمائش ہے جس کا مطلب ہی بچوں کی گزشتہ کارگردگی کا احتساب ہے۔ پھر امتحان میں کامیابی اور ناکامی آپ کا اگلا سال حتی کہ آپ کا مستقبل طے کرتی ہے۔

دوم ان میں والدین، رشتہ داروں اور سکول کا رویہ سب سے اہم ہے۔ والدین کی ڈانٹ ڈپٹ، رشتہ داروں کے تقابلی جائزے اور سکول کا تناؤ بھرا امتحانی ماحول بچوں کو ڈپریشن میں مبتلا کر دیتا ہے۔

بچوں کے ذہنوں میں یہ نشین ہو جاتا ہے کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے مشکل دور ہے۔ انھیں نام نہاد توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔ اگر وہ کم نمبر لائے تو سوسائٹی ان کی کبھی ستائش نہیں کرے گی۔ وہ مستقبل میں ایک ناکام آدمی بنیں گے۔

ان سب عوامل سے بچوں میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں سے ایک exam depression ہے حتی کہ پرائیویٹ ادارے بھی خود شدید دباؤ میں ہوتے ہیں۔

خود تعلیمی ادارے ڈپریشن میں ہوتے ہیں

جب ادارے پر یہ دباؤ پڑتا ہے کہ وہ بچوں کے زیادہ سے زیادہ نمبرز لائے تو ادارہ کوالٹی ایجوکیشن پر کمپرومائز کرتا ہے، بچوں کو نصاب رٹانے میں مصروف کرتا ہے، ان کے رحجانات کا کبھی تحزیہ نہیں کرتا۔

نمبروں کی دوڑ میں ادارے بچوں کو شدید ذہنی کوفت سے دوچار کر دیتے ہیں جیسا کہ صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک کلاسسز ، ہوم ورک ، اگلے دن کےلئے ٹیسٹس۔ نتیجتاً بچوں کو کبھی تخلیقی سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

کئی ادارے بھاری رشوتیں تک دیتے ہیں جس سے بورڈ امتحانات میں ان کو خاص رعایت ملتی ہے اور وہ نقل جیسے موذی مرض کو فروغ دیتے ہیں۔

ہمیں نمبروں کی ریس سے پہلے خود کو ذہنی طور پر نکالنا ہو گا، پھر اپنے بچوں کو نکالنا ہو گا، پھر سسٹم سے نمبروں کی ریس نکالنی ہو گی۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے ہاں ذہانت کا معیار اے گریڈ یا پوزیشنیں نہیں بلکہ اعلی صلاحیت اور قابلیت اور ایجادات ہوں گی۔

یوں بچے ذہنی دباؤ سے آزاد ہوں گے اور کچھ تخلیقی سوچ ، صلاحیت اور نظریہ قائم کر پائیں گے۔

امتحانی دباؤ کم کرنے کے لئے کیا کریں ؟

وہ بچے جو سارا سال باقاعدگی سے ایک شیڈول بنا کر پڑھتے ہیں امتحان کی تیاری ان کےلئے قطعاً مشکل نہیں ہوتی ہے۔ وہ اہم اسباق ، مشقی سوالات ، اور ٹاپک پہلے سے تیار کر چکے ہوتے ہیں تاہم وہ بچے جو سال کے پہلے چار پانچ ماہ ضائع کر دیتے ہیں وہ امتحان کی تیاریوں میں ذہنی طور پر کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کوشش کریں کہ آپ کا بچہ اپنے پہلے تعلیمی ماہ سے ہی امتحان کی تیاری شروع کر دے۔ روزانہ کا ایک ٹاپک اور صرف دو یا تین سبجیکٹ۔ یہ اس کی امتحانی تیاری کےلئے کافی ہیں۔

مختصر تعلیمی دورانیہ اور طویل نصاب

ایک تعلیمی سال عموماً 10 ماہ کا ہوتا ہے۔ سرکاری سکولوں کا دورانیہ تقریباً 07 ماہ پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ پرائیویٹ ادارے اسے ساڑھے آٹھ ماہ تک لے جاتے ہیں۔

پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کورسز کو پانچ سے چھ ماہ کے اندر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ امتحان کی تیاری کا وقت مل سکے۔ ساتھ ساتھ بچوں کے ٹیسٹ بھی لئے جاتے ہیں۔

پاکستان میں چونکہ نصابی کتب غیر ضروری مواد کے حامل ہیں اس لئے بچوں کو اس مواد کو رٹانے میں وقت لگتا ہے لہذا تعلیمی ادارے بیک وقت بچوں کو ہوم ورک ، ٹیسٹ کی تیاری ، امتحان کی تیاری کروا رہے ہوتے ہیں اور نئے اسباق بھی ساتھ ساتھ پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ بچے ذہنی طور پر بہت مصروف ہوتے ہیں۔ وہ اس فرسودہ ایجوکیشن سسٹم میں جیسے جکڑے ہوئے ہوں۔

ایسی صورت میں اپنے بچے پر سے اضافی دباؤ ہٹائیں۔ کوشش کریں صرف ان مضامین کی ٹیوشن لگائیں جس کی انھیں بےحد ضرورت ہے۔ سکول کو بھی چاہیے غیر ضروری ہوم ورک نہ دیں۔

بدلتا امتحانی نظام

پاکستان میں کئی بورڈز نے SLO بیسڈ امتحانات لینا شروع کر دیے ہیں۔ یہ مختصر اور کنسپٹ بیسڈ سوالات ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی اچھا اقدام ہے۔ بچے ان غیر روایتی سوالات کے جوابات صرف اپنے analysis اور learning کی مدد سے ہی دے سکتے ہیں۔

اس سے نقل کے رحجانات کم ہوں گے، رٹہ غیر ضروری ہو جائے گا، مستقبل میں سمارٹ نصاب بنے گا اور سب سے اہم بچے سماجی دباؤ کے بغیر اپنی مرضی کے مضامین میں جا سکیں گے جہاں وہ بہتر پرفارم کر سکیں گے۔

امتحان کی تیاری کیسے کریں؟

) تعلیمی سال کے آغاز سے ہی روزانہ کے شیڈول کے مطابق کم از کم دو مضامین کے صرف دو ٹاپک تیار کریں

) ہر مضمون برابر نمبر اور برابر توجہ کا حقدار ہے۔ مشکل مظامین کو زیادہ وقت دیں مگر آسان مضامین کو بھی تیار کریں

رٹہ لگانے کے بجائے کنسپٹ سمجھنے کی کوشش کریں۔ رٹی گئی معلومات بھول جاتی ہیں۔
) مناسب عنوانات کی تیاری رکھیں۔ ماضی کے پرچہ جات اور گیس پیپرز سے بھی مدد لیں۔

) صرف مشکل مضامین کی ٹیوشن لیں۔ وقت بچا کر سیلف سٹڈی کو وقت دیں

) اپنی ذہنی صحت پر خاص توجہ دیں۔

) نقل سے ہمیشہ خود کو دور رکھیں۔ یہ آپ کی صلاحیت کو زنگ آلود کر دے گی۔

 

یہ بھی پڑھیں

اپنے کمزور ذہن بچوں کو ذہین کیسے بنائیں؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button