Columns

بچپن لوٹا دو

بچپن لوٹا دو

عبدالخالق ہمدرد

عیسوی سال 2022 کا کل آخری دن تھا اور اب رواج سا ہو چلا ہے کہ لوگ کچھ کریں یا نہ کریں، سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک دوسرے سے معافیاں مانگتے اور اچھے مشورے اور “جملے” طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ چلو اس دن فرصت کے کچھ لمحات میسر ہیں تو ایک معنوی قرض ہی چکا دیں۔ ویسے بھی قرض زیادہ دیر رہے تو بہت بھاری ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ قرض چکانا ایک فرض ہے۔

بچپن لوٹا دو

فیس بک کی عنایت

اس سال فیسبک پر ایک نئے دوست جناب ممتاز غزنی صاحب سے ملاقات ہوئی اور تعلق خاصا آگے بڑھ گیا۔ ان سے انس اور قربت کی وجہ یہ بنی کہ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور اپنی زبان سے بڑی محبت رکھتے ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ ایک علم دوست دیہاتی ہیں جو لاہور جیسے شہر میں رہتے ہوئے بھی اپنے گاؤں “پھاگوعہ” سے شاید اس سے زیادہ محبت رکھتے ہیں جتنی اس دیہاتی کو “پھولاوئی” سے ہے۔

غزنی نے صاحب کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے تھوراڑ کے گاؤں پھاگوعہ سے ہے۔ مجھے یہ سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ پھاگوعہ کی املا میں ع اور ہ کہاں سے آیا ہے لیکن جب وہاں کے لوگ اسی طرح لکھتے ہیں تو یہی درست ہوگا۔

تعارف اور ہوا کے دوش پر سلام دعا کے بعد غزنی صاحب کی جانب سے پہلا تحفہ تصویری صورت میں ان کی کتاب “بکھیاں دوہریاں” کی صورت میں ملا۔ یہ پونچھی پہاڑی زبان میں مزاحیہ کہانیوں کی ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اگرچہ مجھے ان کی زبان نہیں آتی لیکن ایبٹ آباد کی ہندکو کے ٹوٹے پھوٹے علم کے زور پر اس سے بہت مستفید اور محظوظ ہوا۔

اس کے بعد دوسری کتاب “بچپن لوٹا دو” کاغذی صورت میں موصول ہوئی۔ یہ کتاب دیکھ کر مجھے اول تو اس لئے حیرت ہوئی کہ کیا کوئی اپنے بچپن کو اس خوبصورتی سے بیان کر سکتا ہے، جس خوبصورتی اور باریک بینی سے غزنی صاحب نے کیا ہے؟ اس کے بعد جوں جوں کتاب پڑھتا گیا، اس کے سحر میں جکڑتا ہی چلا گیا۔
اس کتاب کا مواد ان کی مختلف تحریریں ہیں، اس لئے اس میں زمانی تسلسل تو نہیں لیکن ہر واقعہ اور ہر تحریر اپنی جگہ ایک مستقل رکن ہے۔ اس لئے آپ اسے کسی بھی جگہ سے پڑھیں، لطف آئے گا۔

“بچپن لوٹا دو” میں غزنی صاحب نے اپنے بچپن کے حالات ضمنی طور پر بیان کئے ہیں جبکہ اصل میں اس میں اپنے بچپن کے زمانے کے لوگوں، عزیزوں، رشتہ داروں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس زمانے کے پودوں، جانوروں، بازار، کھیلوں، رسم ورواج حتی کہ کیڑے مکوڑوں اور کھلونوں اور ٹافیوں تک کو تصاویر کے ساتھ محفوظ کر لیا ہے۔

کتاب کے ایک ایک لفظ سے ان کی اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے محبت اور الفت “ٹپکتی” محسوس ہوتی ہے اور پڑھتے ہوئے آپ اپنے آپ کو پھاگوعہ، سردی یا کسی اور گاؤں میں پاتے ہیں۔ میرے خیال میں کسی بھی تحریر کا کمال یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماحول کا حصہ بنا لے اور “بچپن لوٹا دو” یہ کام بخوبی کرتی ہے۔

غزنی صاحب نے اس کتاب میں جن لوگوں کے خاکے لکھے ہیں ان میں ان کی والدہ مرحومہ، والد مرحوم، ڈاکٹر نواب، ڈاکٹر چچا اور بہت سارے لوگ شامل ہیں۔ یہ سب لوگ اپنی عادات واطوار کے حساب سے ایک الگ دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس میں نرم خوئی، خوش روئی اور دوسروں کے لئے ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ البتہ اپنی والدہ کا تذکرہ انہوں نے جس انداز سے کیا یے، اس سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

بچپن لوٹا دو

گاؤں کی ساری مائیں ایسی ہوتی تھیں

اپنی والدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے، رقمطراز ہیں: “اماں بہت خوش اخلاق اور سخی تھیں۔ پڑوس میں بھی کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوئیں۔ میری اماں کیا، گاؤں کی ساری مائیں ہی ایسی تھیں۔ گاؤں کی ہر ماں، گاؤں کے ہر لڑکے اور لڑکی کو اپنا بیٹا اور بیٹی سمجھتی تھی اور گاؤں کا ہر لڑکا دوسرے کی والدہ کی اتنی ہی عزت کرتا تھا، جتنی وہ اپنی والدہ کی کرتا تھا۔ یہ مائیں محبت، الفت اور شفقت کی سفیر تھیں۔ ساری محبت، الفت اور شفقت جاتے ہوئے ساتھ لے گئیں۔”

کتاب میں جگہ جگہ دیہاتی ماحول کو بیان کرنے کے لئے پونچھی کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس کا اعتراف غزنی صاحب نے مقدمے میں خود بھی کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی ایسا عیب بھی نہیں کیونکہ ایک تو ہر ماحول کو بیان کرنے میں مقامی زبان سب سے فصیح ہوتی ہے اور دوسرے اس ماحول کو اس باریک بینی سے بیان کرنے کے لیے اردو کا ذخیرہ الفاظ مہیا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایک دیہاتی ہونے کے ناطے میں اس مشکل کو سمجھ سکتا ہوں کیونکہ چند ماہ قبل دیہات کے ایک لفظ کی تلاش میں مجھے کئی دن لگے۔

اردو تحریروں میں بے جا انگریزی الفاظ کے استعمال سے اجتناب ضروری ہے

اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ انگریزی کے الفاظ بھی آگئے ہیں۔ اس بارے میں میرا ناقص خیال یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس اردو کا متبادل لفظ موجود ہو تو اس سے اجتناب اچھا ہے کیونکہ لکھنے والے لوگوں کا کام صرف اتنا نہیں کہ وہ اپنے ما فی الضمیر کو بیان کریں، بلکہ یہ بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں اپنی زبان کو محفوظ کر کے اگلی نسلوں تک منتقل کریں۔ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آج ہم اپنی گفت گو اور تحریر میں جا اور بیجا طور پر انگریزی بولتے اور لکھتے چلے جاتے ہیں، حالانکہ ان الفاظ کا اردو متبادل موجود ہوتا ہے۔

بچپن لوٹا دو

دیہاتی ماحول کا انسائیکلوپیڈیا

بہر حال، “بچپن لوٹا دو” پر تبصرے کا قرض چکاتے ہوئے، میں جملہ قارئین سے کہوں گا کہ یہ کتاب اگر پڑھنی نہ بھی ہو تو خرید ضرور لیں کیونکہ یہ دیہاتی ماحول کا دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) ہے۔ اگر آپ اسے پڑھنا نہ بھی چاہیں تو اس میں دبیز چکنے کاغذ پر چھپی تصاویر کو دیکھ کر محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کی کتابیں بہت کم لکھی گئی ہیں۔

آج میں گھر کی چھت پر انگور کی خزاں رسیدہ بیل کے پاس بیٹھ کر “بچپن لوٹا دو” کی ورق گردانی کرنے لگا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ ہمارا بچپن بھی انگور کے ان بھورے پتوں کی طرح ہے جو شاخ سے گرے، کچھ وقت زمین پر رہے، کچھ دیر ہوا ان کو دائیں بائیں اڑاتے پھری اور نہ جانے اس کے بعد وہ اسی فضا میں کہیں کھو گئے، لیکن ممتاز غزنی نے ان میں سے کچھ پتوں کو “بچپن لوٹا دو” کی جادوئی زنبیل میں محفوظ کر کے رکھ دیا ہے کہ اگر کوئی چاہے تو اس میں جھانک کر اس کی بہت سی جھلکیاں دیکھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

دینی تقریبات اور محافل میں لاؤڈ اسپیکر کا نا مناسب استعمال

بچپن لوٹا دو

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button