Columns

آسٹریلیا،دنیا کے سب سے چھوٹے برا اعظم پر مشتمل ملک

آسٹریلیا،دنیا کے سب سے چھوٹے برا اعظم پر مشتمل ملک

نوید نقوی

دنیا کی سب سے ویران سڑک، جہاں روحیں ناچتی ہیں

آئیے اس بار آسٹریلیا کا رخ کرتے ہیں اور اس عظیم جزیرہ نما براعظم کی ایک ایسی سڑک پر سفر کرتے ہیں جس کو دنیا کی سب سے ویران سڑک کا اعزاز حاصل ہے،کہتے ہیں اس سفر کے دوران روحیں ناچتی نظر آتی ہیں اور اپنی طرف بلاتی ہیں جو بھی اس سڑک سے اتر کر صحرا میں جانے کی غلطی کرتا ہے اس کا پھر زندہ بچنا محال ہوتا ہے اور وہ صحرا کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔

دولت مشترکہ آسٹریلیا (Commonwealth of Australia) جنوبی نصف کُرے کا ایک ملک ہے جو دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم پر مشتمل ہے۔ اس میں تسمانیہ کا بڑا جزیرہ اور بحر جنوبی، بحر ہند اور بحر الکاہل کے کئی چھوٹے بڑے جزائر شامل ہیں۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں انڈونیشیا، مشرقی تیمور اور پاپوا نیو گنی شمال کی طرف، سولومن جزائر، وانواتو اور نیو سیلیڈونیا شمال مشرق کی طرف اور نیوزی لینڈ جنوب مشرق کی طرف موجود ہے۔

پاکستانیوں کی بڑی تعداد بستی ہے

آسٹریلیا کا کل رقبہ7692024 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی24511800 (مارچ2017) نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کی سرکاری زبان انگریزی ہےاس کا دارالحکومت کینبرا ہے ۔سڈنی، میلبورن،برسبین ایڈیلیڈ، پرتھ بڑے شہر ہیں آسٹریلوی ڈالر اس کی کرنسی ہےاس ملک میں اردو بولنے والے بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے ہے۔

آسٹریلیا دنیا کے کم آبادی والے ممالک میں سے ایک ہے۔ آسٹریلیا کی آبادی دنیا کی آبادی کا 0.33فیصد ہے۔ اس کی 92فیصد آبادی سفید فام افراد پر مشتمل ہے۔ آسٹریلیا کے اصل باشندے ایبورجین کہلاتے ہیں جو اس وقت 3.3فیصد ہے۔ ملک کی 80% آبادی ملک کے جنوب مشرقی حصے میں رہتی ہے۔

زیادہ تر آبادی ساحلی علاقوں میں ،اندرونی علاقے آج بھی ویران ہیں

آؤٹ بیک وے

یہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی ساحلی علاقوں میں آباد ہے اور اندرونی علاقے آج بھی ویران ہیں یا وہاں بہت کم آبادی ہے۔ اب بنیادی معلومات کے بعد دنیا کی سب سے زیادہ ویران سڑک پر اپنا سفر شروع کرتے ہیں ، مغربی آسٹریلیا میں لیورٹن سے دور دراز واقع کوینزلینڈ کے علاقے وِنٹن کو جانے والی 2700 کلومیٹر لمبی ’آؤٹ بیک وے‘ ایک تِرچھی سڑک ہے جو دوسری شاہراہوں کے مقابلے میں کئی ہفتوں کا سفر بچاتی ہے۔
جب بھی کوئی روڈ ٹرین (لمبے ٹرک) لیورٹن سے گزرتی ہے تو قصبے میں زندگی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ ورنہ یہاں سناٹے کا راج رہتا ہے۔ پکی سڑک مضافاتی حدود کو چھونے سے پہلے ہی سرخ ریت میں گُم ہو جاتی ہے۔

’آؤٹ بیک وے‘ لیورٹن سے شروع ہوتی ہے۔ یہ قصبہ وُنگوتھا اور ٹجولکانٹی قبائل کی آبائی زمینوں پر قائم کیا گیا تھا۔ مغربی آسٹریلیا میں اس سڑک کو گریٹ سینٹر روڈ بھی کہتے ہیں۔ یہ بر اعظم کے بیچ سے گزرتی ہے اور دنیا کی عظیم شاہراہوں میں شمار ہوتی ہے۔ 1950 میں بننے والی یہ سڑک اپنے وقت کا بڑا کارنامہ سمجھی جاتی تھی۔

لیورٹن آسٹریلیا کے دو سب سے بڑے صحراؤں وِکٹوریا اور گریٹ سینڈی کے کنارے پر واقع ہے۔
کوئی 70 برس بعد یہاں کھڑے ہو کر نظر آتا ہے کہ سفر کے دوران کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا: گریٹ بیونڈ وِزیٹر سینٹر، ایکسپلورر ہال آف فیم، اور نا ختم ہونے والے صحرائی مناظر۔ اور سفر شروع کرنے سے پہلے یہ نا ممکن ہے کہ اپنی مہم کی شدت کا اندازہ نہ ہو۔
آؤٹ بیک وے شمالی آسٹریلیا کو مغربی آسٹریلیا سے ملاتی ہے اور ملک کے قلب سے گزرتے ہوئے سب سے ڈائریکٹ روٹ ہے۔

ہزاروں میل مسافت کو سمیٹنے والی سڑک

مغربی آسٹریلیا میں لیورٹن سے دور دراز واقع کوینزلینڈ کے علاقے وِنٹن کو جانے والی 2700 کلومیٹر لمبی یہ سڑک ملک کے قدیمی باشندوں کی کئی آبادیوں، اور الگ تھلگ قائم نیشنل پارکوں کے پاس سے گزرتی ہے۔ راستے میں آرام اور کھانے پینے کے لیے جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ بالآخر یہ پرت کو کائرنس سے ایک ترچھی لائن میں ملا کر ایک ایسا شارٹ کٹ روٹ فراہم کرتی ہے جس سے ہزاروں میل (اور کئی ہفتوں پر محیط) اس سفر سے نجات مل جاتی ہے جو ساحل کے ساتھ بنی ہوئی پکی سڑک پر چلنے سے درپیش ہوتا ہے۔

اس شاہراہِ پر سفر کرنے سے آسٹریلیا کے دور دراز واقع علاقوں کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔جہاں پکی سڑک ختم ہوتی ہے، وہاں سڑک کو تعمیر کرنے والے عملے اور ساز و سامان کی موجودگی اس شاہراہ کے مستقبل کا پتا دیتی ہے۔ شاید جلد ہی پوری آوٹ بیک وے پکی ہو جائے۔ اس وقت صرف 1200 کلو میٹر کا ٹکڑا ہی بچا ہی جس پر فور وھیل ڈرائیو ہی میں سفر بہتر ہے۔ بارشوں کے بعد اس حصے پر سفر نا مکمن ہو جاتا ہے۔ پکا ہونے پر یہ رکاوٹ تو دور ہو جائے گی مگر یہ سفر اپنی جاذبیت کھو دے گا۔ یہ سڑک، اور شاید صحرا بھی، ایک عظیم اور دائمی تبدیلی کی دہلیز پر کھڑے ہے۔

صحرائے گبسن

لیورٹن چھوڑنے کے تقریباً 350 کلو میٹر بعد یہ شاہراہ آسٹریلیا کے ایک اور عظیم صحرا گِبسن کے پاس سے گزرتی ہے۔ ایک ایسی ویران جگہ پر ذہن میں اس خیال کا آنا فطری ہے کہ اگر سڑک سے اتر کر صحرا نوردی کا ارادہ کیا جائے تو کیسا رہے گا۔ اس کا جواب صحرا کے نام سے مل جاتا ہے۔ سنہ 1874 میں ایکسپلورر ارنسٹ جائلز نے اپنی مہم میں شامل آخری اونٹ پر ایلفرڈ گِبسن نامی ایک نوجوان کو مدد کی تلاش میں بھیجا تھا۔ جائلز تو کسی طرح بچ گئے مگر گِبسن کو پھر کسی نے نہیں دیکھا۔

ہوائی چکیوں کی گڑ گڑاہٹ میں غروب ہوتے آفتاب کا نظارہ

اس روٹ پر واقع کیٹا ٹجوٹا کا علاقہ ماضی میں ’دا اولگاس‘ کہلاتا تھا۔پکی سڑکیں صحرائی سفر کے آغاز کی بجائے اختتام پر زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ ایک پورے بر اعظم کو عبور کر لینے کا جوش باؤلیا کے قصبے تک ساتھ رہتاہے یہاں کے مشروبات گھروں اور زندگی کی آسائشوں کے بیچ ہوائی چکیوں کی گڑگڑاہٹ میں غروب آفتاب کا نظارہ باؤلیا کے صحیح معنوں میں دور افتادہ قصبہ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہاں زندگی کا دھیماپن اس حقیقت سے عیاں ہے کہ مقامی لوگ گپ شپ کے لیے اپنی گاڑیاں مرکزی سڑک کے بیچ روک لیتے ہیں۔

سیاحوں کو خبردار کرتے سائن بورڈز

یہاں سے باؤلیا اور وِنٹن کو ملانے والی سڑک کا آغاز ہوتا ہے جو صحرائی نشیب و فراز میں بل کھاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ اس سفر کی آخری منزل وِنٹن ہوتی ہے جہاں افق پر اونچی عمارتیں نمودار ہوتی ہے۔ یہ علامت ہے کہ آگے گہما گہمی سے بھر پور زندگی پائی جاتی ہے۔ یہاں زیادہ تر آنے والے سیاح صحرا نوردی کرنے کی اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو سفر شروع کرنے سے پہلے اور اس سڑک کے کنارے واقع سائین بورڈز کے ذریعے خبردار کیا جاتا ہے کہ اپنے اس شوق کو سختی سے دبا لیں ورنہ کسی بھی حادثے کے نتیجے میں ذمہ دار خود ہوں گے، یہ ایک دلچسپ سفر ہوتا ہے اور آسٹریلیا کا وہ حصہ دیکھنے کو ملتا ہے جو ابھی تک ویران پڑا ہے اور شاید آنے والی کئی دہائیوں تک ویران ہی رہے ۔

یہ بھی پڑھیئے:

پیناڈول کا متبادل کیا؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button