Columns

پاکستان میں پیناڈول کی پیداوار بند ، متبادل کیا؟

پاکستان میں پیناڈول کی پیداوار بند ، متبادل کیا؟

تحریر ؛نوید نقوی

یہ پرسوں کی بات ہے میری والدہ محترمہ کو ہلکا بخار تھا میرے فورس کرنے کے باوجود انہوں نے ڈاکٹر کو دکھانے سے انکار کرتے ہوئے حکم دیا بس پیناڈول لے کر آجاؤ مجھے آرام آ جائے گا پھر کیا تھا پورے شہر کے میڈیکل اسٹورز پر پتہ کرنے کے باوجود پیناڈول ملنے کا نام بھی نہیں لے رہی تھی ادھر والدہ صاحبہ کی ڈانٹ الگ کہ دوائی لینے تک کے قابل نہیں ہو، مجبوراً اپنے دوستوں سے مدد لی اور ایک پیکٹ لینے میں کامیاب ہوا۔

پچھلے سال نومبر میں بھی پیناڈول کی قلت پیدا ہوگئی تھی

پاکستان میں پیناڈول کی قلت نئی بات نہیں۔ اس سے قبل گذشتہ سال نومبر میں بھی اس کی قلت سامنے آئی تھی جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ڈریپ کی مداخلت کے بعد ہی دستیابی یقینی بنائی جا سکی تھی، پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی میں تعطل پیدا ہوتا رہتا ہے اور اس وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ بھی ہمارے ملک کو اعزاز حاصل ہے یہاں جس چیز کی کھپت زیادہ ہوتی ہے یار لوگ( بلکہ یوں لکھوں غدار لوگ) فوری اس کو غائب کر دیتے ہیں جب عوام اور متعلقہ محکمے بلبلا اٹھتے ہیں تب دگنی چوگنی قیمت پر مارکیٹ میں وہی چیز دستیاب ہوتی ہے، اور یہی لوگ احسان بھی جتا رہے ہوتے ہیں کہ انسانی ہمدردی کے تحت ہم نے اتنا بطور امداد تقسیم بھی کی ہیں۔

حکومت نے پیناڈول کو ضروری ادویات کی فہرست میں شامل رکھا ہے

پاکستان میں کسی زمانے میں پیراسٹامول شیر والی گولی کا استعمال عام تھا اس کی پیداوار بند ہونے کے بعد پیناڈول بہت معروف ہوئی۔ اور اب یہ حالت ہے کہ پاکستانی عوام عام طور پر خود سے ہلکے بخار وغیرہ کی صورت میں پیناڈول ٹیبلٹس یا سیرپ کا استعمال کرتے ہیں اور طبیعت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹرز سے رجوع کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی میڈیکل کی رو سے درست نہیں ہے کہ خود سے کوئی دوائی استعمال کی جائے۔ اس کے باوجود ہر گھر میں پیناڈول موجود ہوتی ہے۔پاکستان میں پیناڈول کے بطور بخار کی دوائی کے استعمال کا رجحان عام ہے اور لوگ بخار ہونے پر خود ہی پیناڈول استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔سر درد، بخار، گلے میں خراش سے لے کر جسم میں درد کے لیے پہلا علاج اسی کو ہی مانا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی پیراسیٹامول بشمول پیناڈول کو ضروری ادویات کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

لاگت بڑھ گئی پرانی قیمت کے حساب سے تیاری ممکن نہیں ،بنانے والی کمپنی کا موقف

پاکستان میں پیناڈول کی گولی اور سیرپ ایک ملٹی نیشنل کمپنی گلیکسو سمتھ کلائن (جی ایس کے)تیار کرتی ہے جس نے حکومت پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ اب اس کے لیے پیناڈول کی دوا کی پیداوار ممکن نہیں، اس لیے کمپنی کی جانب سے اسے بند کر دیا گیا ہے۔ملٹی نیشنل کمپنی ’جی ایس کے‘ نے حکومت پاکستان کو لکھے گئے خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ پیناڈول کی پیداوار میں کمپنی کو نقصان کا سامنا ہے کیونکہ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے اس کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور اب اس کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ اسے پرانی قیمت پر بیچے۔

دوا ساز کمپنی حکومتی پرائس ایڈجسٹمنٹ کو خام مال کے بڑھتے نرخوں سے مطابق نہیں سمجھتی

کمپنی کے مطابق اگرچہ اسے اس سال اگست کے مہینے میں مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے کچھ پرائس ایڈجسٹمنٹ کرنے دی گئی تاہم یہ اضافہ اس دوا کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی زیادہ قیمتوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔کمپنی کے مطابق وفاقی حکومت کی پرائس ڈرگ کمیٹی نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش کی تھی تاہم وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری نہیں دی۔

جے ایس کے نے گزشتہ بارہ مہینوں میں 50 کروڑ گولیاں تیار کیں

کمپنی کے مطابق اس نے گزشتہ بارہ ماہ میں چار ارب پچاس کروڑ پیناڈول اور پیناڈول ایکسٹرا کی گولیاں تیار کیں اور انھیں مارکیٹ میں فراہم کیا۔ اس کے مطابق اس نے کورونا، ڈینگی کی وبا اور دوسری آفات میں اپنی ذمہ داری پوری کی تاہم اب اس کے لیے اس دوا کی تیاری ممکن نہیں رہی۔

واضح رہے کہ پیناڈول کی پیداوار بند ہونے کے اعلان سے پہلے اس کی مارکیٹ میں دستیابی کم ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا اور اس کی ذخیر ہ اندوزی کی شکایات بھی سامنے آئیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں گوداموں پر چھاپے مارے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں پیناڈول موجود پائی گئیں کتنوں کو سزا دی گئی یہ تو اللہ جانتا ہےلیکن اب یہ ہمارے ملک میں اب دستیاب نہیں ہوگی۔

ڈالر کی قیمت ، بحری جہازوں کے کرایوں میں اضافہ خام مال کی قیمتیں بڑھنے کے بنیادی اسباب

پیناڈول کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت میں اضافے کی وجوہات میں پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہےاس کے علاوہ بحری جہازوں کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے اور اس کی وجہ سے پیناڈول کی پیداواری لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔
اس سب کے باوجود پیناڈول بنانے والی کمپنی نے حکومت کے سامنے کیس بھی رکھا کہ اسے اس دوا کی تیاری میں مشکلات کا سامنا ہے تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا جس کے بعد جی ایس کے نے اس کی پیداوار بند کرنے کا اعلان کیا۔پاکستان میں ادویات کی قیمتیں وفاقی حکومت مقرر کرتی ہے اور پہلے ان کی قیمتوں میں ردو بدل کا اختیار وفاقی سیکرٹری صحت کے پاس ہوتا تھا تاہم چند سال پہلے یہ اختیار وفاقی کابینہ کو دے دیا گیا۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں کے علاوہ ادویات سازی کے شعبے کے افراد پر مشتمل پرائس ڈرگ کمیٹی ادویات کی قیمتوں میں ردوبدل کی سفارشات وفاقی کابینہ کو بھیجتی ہے۔

دوا ساز کمپنی پیناڈول کے نرخ بڑھانے کے لئے حربہ تو استعمال نہیں کر رہی ؟

اس کمیٹی کی جانب سے پیناڈول کی قیمت بڑھانے کی تجویز وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی تھی تاہم وفاقی حکومت نے اسے منظور نہیں کیا۔اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے آیا کمپنی واقعی حق بیانی کر رہی ہے یا قیمت بڑھانے کے لیے یہ حربہ استعمال کر رہی ہے کیونکہ پاکستان میں اس دوا کی ڈیمانڈ بہت ہے اور عام فرد سمجھتا ہے کہ بخار کی دوا صرف پیناڈول ہے جس کا شاید کمپنی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

فارما سیوٹیکل کمپنیاں پاکستان میں خیراتی مقصد کے تحت کام نہیں کرتیں بلکہ کاروبار کرتی ہیں اور ان کا مقصد اپنا منافع پکا کرنا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو باقی کمپنیاں بھی اپنی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بھی خام مال درآمد کرتی ہیں اور اس اصول کے تحت ان کو بھی اپنی پیداوار بند کر دینی چاہیے تھی لیکن الٹا وہ اس کمپنی کی جگہ لینے کے لیے اپنی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہیں ۔

عوام کو سمجھنا ہوگا کہ بخار کی دیگر دوائیں بھی ہیں

عوام کو بھی چاہیئے کہ یہ بات سمجھیں کہ بخار کی دوائی صرف پیناڈول نہیں ہے اس کے علاوہ اور دوائیاں بھی پیناڈول والا کام کرتی ہیں ان دواؤں میں ڈسٹڑول، کالپول، اسپرین کافی معروف ہیں۔ تاہم اسپرین کے سائیڈ افیکٹس بھی آتے ہیں۔تمام بڑے ڈاکٹرز اس بات پر متفق ہیں کہ پیناڈول کی دوا ایک ہاؤس ہولڈ نام بن چکی ہے اس لیے اکثر لوگ بخار کی صورت میں اس کا استعمال کرتے ہیں تاہم بخار کے دوا کے طور پر اور بہت سی دوائیں موجود ہیں۔

لوگوں کے ذہنوں میں برانڈ نیم چھایا ہوا ہے اگر ڈاکٹر کسی دوسری کمپنی کی دوا لکھ بھی دے تو مریض کا ذہن اس کو قبول نہیں کرتا ہے حالانکہ ایک ہی فارمولا ہے اور اس کی قیمت بھی قدرے کم ہے اس لیے لوگوں میں یہ شعور لانے کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس سلسلے میں عوام کو آگاہی فراہم کرے تاکہ کسی بھی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ بھی پڑھیئے:

اسلام آباد ایک خوبصورت دارلحکومت

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button