ColumnsEmotions & Behavior

بچوں کے وہ نفسیاتی مسائل جنہیں ہم نظر انداز کر دیتے ہیں

بچوں کے وہ نفسیاتی مسائل جنہیں ہم نظر انداز کر دیتے ہیں

جبران عباسی

بچپن میں ہمارے ایک کزن کئی دنوں تک خاموش اور سہمے سہمے رہتے۔ سبھی کا خیال تھا کہ وہ آسیب کا شکار ہیں۔ گردونواح کے سارے پیرووں کے پاس اور درباروں پر لے جایا گیا مگر وہ بہتر نہ ہو سکے۔

جب مرض بگڑا تو قریبی شہر کے ایک ڈاکٹر کے پاس ان کو لے جایا گیا جنہوں نے ان کو ایک ماہر نفسیات کے پاس ریفر کیا۔ ماہر نفسیات دیکھتے ہی سب سمجھ گئے اور چند ہی سیشنز میں وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔

دراصل ہمارے کزن کسی آسیب کا شکار نہیں تھے بلکہ وہ پوسٹ ٹراما کی نفسیاتی کیفیت سے گزر رہے تھے۔ وہ شدید صدمہ سے دوچار تھے۔

2005 کہ زلزلے میں ہمارا گاؤں مکمل تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے کے وقت وہ سکول میں تھے جہاں وہ معجزانہ طور پر تو محفوظ رہے مگر ان کو شدید ذہنی صدمہ پہنچا تھا۔ ہمارے علاقے کے ہزاروں بچے پوسٹ ٹراما کی مثالیں ہیں۔ ان میں ایک راقم بھی تھا جو خود اس صدمہ سے گزر چکا ہے۔

ہمارے بچے کو بخار ہو یا کوئی اور جسمانی درد تو ہم لازماً توجہ دیتے ہیں ، اس کا خیال رکھتے ہیں ، ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ مگر ہم کبھی بھی اپنے بچے کی ذہنی صحت کے متعلق جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔

ہمارے بچے کئی نفسیاتی کیفیات سے گزرتے ہیں مگر ہم ان سے لاعلم ہوتے ہیں۔ جسں بچہ کا ذہن نفسیاتی صدمات سے دوچار ہو اس بچہ میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے جو براہ راست اس کے کرئیر اور گروتھ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

آج کے اس مضمون میں ہم بچوں میں مقبول کچھ نفسیاتی کیفیات کا تذکرہ کریں گے اور ان کی ممکنہ علامات اور علاج کے متعلق آپ کو آگاہ کریں گے۔

بے چینی کی شکایت( anxiety disorder)

یہ ایک عام نفسیاتی کیفیت ہے جو اکثر بچوں پر وقتاً فوقتاً طاری رہتی ہے۔ اس کیفیت میں بچے بےچینی اور خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ جیسے سکول کا خوف، ہوم ورک نہ کرنے پر سزا کا خوف، ٹیچر کا خوف ، دوسرے بچوں کا خوف، اچھے نمبر نہ لینے کا خوف، اگر والد سخت مزاج ہیں تو ان کا خوف۔ یہ سارے خوف مل کر بچے کو بےچینی کا شکار کر دیتے ہیں۔

علامات: نیند پوری نہ کرنا، رات کو نیند میں چلنا، غصہ، چڑچڑاپن ،منفی خیالات کا اظہار کرنا، چھوٹی سی بات پر رو دینا، پیٹ درد یا بخار کا بہانہ کر کے سکول نہ جانے کی کوشش کرنا۔

علاج: سب سے پہلے بچے کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنائیں تاکہ وہ اپنا ہر خوف یا ہر بات آپ سے بآسانی شئیر کر سکے۔ معالج سے مشورہ ضروری ہے۔ تمام نفسیاتی کیفیات میں بچوں کو دوست بنائیں اور اگر ضرورت محسوس ہو بچوں کے نفسیاتی معالج سے رجوع کریں۔

2: توجہ کی کمی Attention deficit hyperactivity disorder

ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ پیار و توجہ یا پہلی اولاد کو ملتی ہے یا پھر سب سے آخری اولاد کو۔ درمیان کی اولادیں توجہ سے محروم رہتی ہیں یا وہ توجہ حاصل نہیں کر پاتیں جس کی وہ حقدار تھیں۔

چند ہی ہفتوں پہلے سوشل میڈیا پر ایک خودکشی کرنے والی ننھی سی جان کا آپ نے سنا ہو گا جس نے اپنے سکول کی چھت سے کود کر خود کشی کر لی۔ اس نے اپنے آخری نوٹ میں لکھا کہ اس کے والدین اپنی تمام تر توجہ اس کی دوسری بہن کو دیتے تھے۔ یوں ایک معصوم سی کلی عدم توجہ کی شکایت لئے کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی۔

اکثر والدین کہتے ہیں ہم اولاد میں کوئی فرق نہیں کرتے لیکن ان کا طرز عمل مختلف ہوتا ہے۔ اگر آپ یہ غلطی کر رہے ہیں تو فوراً اسے بند کریں اور اپنی اولاد کو برابر وسائل ، توجہ ، پیار یہاں تک کہ ڈانٹ دیں۔

علامات: بچے کا اکثر خیالوں میں گم رہنا، چیزیں گما دینا، توجہ حاصل کرنے کےلئے زیادہ باتونی ہونا، خود کو مقبول بنانے کےلئے غیر ضروری رسک لینا، نامناسب رویہ۔

ایسے بچے توجہ حاصل کرنے کےلئے بعض اوقات منفی کام بھی کرتے ہیں جیسے منشیات کا استعمال وغیرہ۔

علاج: اس بیماری کا علاج اس کی وجوہات ہی میں شامل ہے۔ یعنی ایسے بچوں کو توجہ دیں ، ان کو برابر وسائل اور پیار دیں۔

3: آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر Autism spectrum disorder

اس نفسیاتی کیفیت میں بچے کی ذہنی صحت اور دماغ کی گروتھ رک جاتی ہے۔ بچے کوئی بھی چیز سیکھ نہیں پاتے ہیں۔ وہ کمیونیکشن، لرننگ، سوشلائزیشن یعنی زندگی کے مرکزی دھارے سے کٹ جاتے ہیں۔ انھیں ہم مجذوب بچے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان بچوں کی نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت انتہائی کمزور ہوتی ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں انھیں نالائق بچہ کہا جاتا ہے۔

علامات و وجوہات:

بچے سکول میں پرفارم نہیں کر پاتے ہیں ، نئے دوست نہیں بناتے ہیں، جھوٹ بولنے لگتے ہیں ، تنہا رہنے لگتے ہیں، بول چال میں مسائل آتے ہیں، مسائل کا حل نہیں تلاش کر سکتے ہیں۔

اس نفسیاتی کیفیت کی سب سے بڑی وجہ جینیاتی خامی ہے۔ یعنی والدین سے بچوں میں بذریعہ جینز یہ خامی آتی ہے۔

علاج: اس نفسیاتی کیفیت کو مکمل ختم تو نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے اثرات کو ممکنہ حد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ عموماً دو سال کے بچوں میں ڈاکٹر بآسانی اس بیماری کا پتہ لگا لیتے ہیں کیونکہ اس بیماری میں دماغ کی اپنی گروتھ بھی کم ہوتی ہے۔ اس کا علاج مختلف تھراپیز سے ہوتا ہے مثلاً سب سے پہلے بچے کا رویہ بہتر بنایا جاتا ہے، اس کے بعد speech & language تھراپی کے ذریعے اس کو بول چال سکھائی جاتی ہے۔ پھر مخصوص نصاب تعلیم سکھایا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں اسے سوشلائزیشن کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ مشکل اور پیچیدہ نظام ہے۔ تاہم بچے ان سیشنز کے ذریعے کافی حد تک اس نفسیاتی کیفیت سے باہر نکل آتے ہیں۔

ڈپریشن

یہ بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی ایک عام مسلہ بن گیا ہے۔ بڑے جب ڈپریشن میں ہوتے ہیں تو ان کا چہرہ ان کا افسانہ سنا دیتا ہے۔ مگر بچوں کے کیس میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے بھی ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ڈپریشن میں بچوں کی پرفامنس متاثر ہوتی ہے اور وہ بڑی نفسیاتی کیفیت anxiety disorder کا شکار ہو سکتے ہیں۔

علامات: ہر وقت غصہ میں رہنا، مسلسل مایوسی کا اظہار کرتے رہنا، نئے دوست بنانے سے گریز کرنا، بہت زیادہ حساس ہو جانا، زیادہ نیند کرنا ، ہر وقت درد کی شکایت کرنا، شرمندہ شرمندہ رہنا، خودکشی یا موت کے بارے میں اظہار خیال کرنا ، سکول کی پرفامنس میں گراوٹ۔

امریکہ کے ایک سروے کے مطابق ان کے ہاں 40 میں سے ایک بچہ لازمی ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے۔ لڑکیوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔

علاج: جن بچوں کے والدین آپس میں لڑتے رہتے ہیں ان بچوں میں ڈپریشن کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ بالخصوص طلاق یافتہ والدین کی اولاد اکثر ڈپریشن کا شکار ہو کر بری لت کا شکار ہوتی ہے۔ اپنے گھر کا ماحول خوشگوار بنائیں۔ ڈپریشن کا علاج سائیکولوجیکل تھراپیز سے بھی ممکن ہے۔ سائیکالوجسٹ بچوں کی کونسلنگ کرتے ہیں اور ڈپریشن کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان وجوہات کو ختم کرنے کے بعد بچے خود بخود اس کیفیت سے باہر نکل آتے ہیں۔

بچوں کا جارحانہ رویہ: conduct disorder

اس نفسیاتی کیفیت کا شکار بچے جارحانہ مزاج اختیار کر لیتے ہیں۔ اکثر سکول اور محلے سے ان سے لڑنے کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔ یہ بچے خود کو اخلاقی ضابطوں سے آزاد سمجھتے ہیں۔ عام طور پر ہم ان بچوں کو لاپرواہ، بدتمیز یا گھر سے غیر تربیت یافتہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رہے بچے کی بدتمیزی میں بھی نفسیاتی کیفیت ایک اہم محرک ہے۔

علامات: قوانین و ضابطوں کی خلاف ورزی کرنا، سکول سے بھاگ جانا، جس عمل سے منع کیا جائے وہی عمل کرنا، دوسرے بچوں کو زچ کرنا، جھوٹ بولنا ، چوری شروع کر دینا یا جان بوجھ کر لوگوں کو نقصان پہنچانا۔

وجوہات: اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جینیاتی طور پر بھی کچھ بچے اس ڈس آرڈر کا شکار ہو جاتے ہیں ، کچھ بچوں کی دماغی نشوونما سست ہو جاتی ہے اور کیمیکل ری ایکشن سے بھی یہ ممکن ہے، غریب علاقوں کے بچوں میں یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ بچے سے اکثر ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں تو بھی یہ ممکن ہے اور سب سے اہم اگر آپ کا بچہ بری صحبت اختیار کر لیتا ہے یا کسی نشے کا عادی ہو جاتا ہے تب بھی اس کے مزاج میں چڑچڑاپن اور عادت میں باغیانہ روش آ جاتی ہے۔

علاج: اس نفسیاتی کیفیت کا خاتمہ یقیناً ممکن ہے۔ اس کےلئے مختلف لیول پر تھراپیز کی جاتی ہیں۔ اعصابی تھراپی میں سکھایا جاتا ہے کہ کیسے مشکل صورتحال کو غصے کے ساتھ نہیں بلکہ صبر کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ فیملی تھراپی میں والدین اور بچوں کا رشتہ بہتر بنایا جاتا ہے۔

سیکھنے کی مشکلات: Learning disabilities

” آپ کا بچہ ویسے تو ذہین ہے مگر توجہ کم دیتا ہے” ۔ کبھی نہ کبھی آپ کو یہ جملہ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں سننا پڑا ہو گا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے آپ کا بچہ نالائق ہے اور وہ بالکل بھی توجہ نہیں دیتا ہے۔

جن بچوں کے نمبر کم آتے ہیں ، ہم انھیں کند ذہن سمجھتے ہیں ہو سکتا ہے وہ چلڈرن لرننگ ڈس ایبلٹی کا شکار ہوں۔

علامات: اس نفسیاتی کیفیت کا شکار بچے اکثر میتھ اور سائنس کے مضامین میں کمزور ہوتے ہیں۔ بنیادی کنسپٹ سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ رٹہ لگانے کے باوجود یاد نہیں کر پاتے ہیں ، میتھ کے پیٹرن ان کی سمجھ سے بالاتر رہتے ہیں۔

اقسام:

Dyslexia

اس میں بچے سبق کی پڑھائی نہیں کر پاتے ہیں۔

Dyscalculia

اس میں بچے میتھ سمجھ نہیں پاتے ہیں۔

Dysgraphia

اس میں بچے لکھائی میں کمزور ہوتے ہیں۔

علاج: ایسے بچے خصوصی توجہ کا مستحق ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ تشخیص کرنا لازمی ہے کہ وہ کن کن تعلیمی مہارتوں میں کمزور ہیں۔ پھر ان پر زیادہ فوکس کیا جا سکتا ہے۔ ان کو انتہائی بنیادی کنسپٹ سمجھانے پر وقت لگایا جائے۔ بار بار مشق کروائی جائے۔ سب سے اہم دماغی صلاحیت تیز کرنے والی ایکٹوٹیز کی جائیں۔

امید ہے یہ مضمون آپ کو اپنے بچے کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے میں بہتر معاونت دے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

بچوں کی یادداشت کوکیسے بہتر بنائیں؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button