Columns

بنگلہ دیشی وزیراعظم مودی قصاب کے نقش قدم پر

بنگلہ دیشی وزیراعظم مودی قصاب کے نقش قدم پر

نوید نقوی

16 دسمبر کو سکول میں جب اسمبلی کے وقت سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور اور تحریک طالبان پاکستان کے مظالم سے بچوں کو آگاہ کر رہا تھا تب ایک بچے نے مجھ سے یہ سوال کر کے حیران کر دیا کہ سر اس سانحے کے علاوہ اور ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ہمارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ؟
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور بچوں کو بتایا کہ جب 14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہوا تو اس کے دو حصے تھے ایک مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور دوسرا مغربی پاکستان، لیکن ہماری نا اہلی اور دشمن کی سازشوں کی وجہ سے ہمارے بنگالی بھائی ہم سے بد ظن ہو گئے اور اس طرح ہمارا مشرقی بازو 16 دسمبر 1971 کو ہم سے جدا کر دیا گیا جس کا ہمیں بے انتہا افسوس ہے کیونکہ اگر پاکستان ایک ہوتا تو ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کا دو طرف سے گھیرا تنگ کر سکتے تھے ۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن نے بھارت کا آلہ کار بن کر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں لانے کے لیے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی سازش کی۔ پاکستان کا دو لخت ہونا ایک ایسا سانحہ ہے جس سے ہمیں سبق سیکھتے ہوئے باقی پاکستان کی تمام اکائیوں کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھنا چاہیئے، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں جو سازشیں ہو رہی ہیں ہر اکائی کے حقوق کا خیال رکھنا طاقتور طبقات کا فرض ہے۔

کیا طاقت کے مراکز سانحات سے کچھ سیکھنے کو تیار ہیں ؟

بچوں کو تو آگاہی مل گئی لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار بھی ان دو بڑے سانحات سے کچھ سیکھنے کو تیار ہیں یا نہیں ؟ اور آج تک ایسے سانحات کے سد باب کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔لیکن یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی حکومت چاہے سول ہو یا فوجی ہماری شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ بنگالی بھائیوں سے ہمارے خوش گوار تجارتی و دفاعی تعلقات ہوں اس کے لیے ہم نے تجارت ہو یا دفاع بنگلہ دیش کو ہر قسم کے تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی اور بنگالی بھائیوں کی طرف سے بھی مثبت پیش رفت ہوئی لیکن بد قسمتی سے بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت ایک ایسی خاتون کے ہاتھ میں ہے جو بھارت کو خوش کرنے کے لیے بہت آگے جا چکی ہیں وہ مکمل طور پر مودی قصاب کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اس کی ساکھ کو خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہیں۔

شیخ حسینہ واجد پاکستان دشمنی والد سے بھی دو قدم آگے

بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کی دختر شیخ حسینہ واجد پاکستان کے ساتھ دشمنی اور نفرت میں اپنے والد کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔اپنے آقا بھارت کو خوش رکھنے کی کوشش میں وہ پاکستان کو مستقل کچو کے لگاتی رہتی ہے۔اپنی بھارت نواز پالیسوں سے وہ خود اپنے ملک کی ساکھ گرارہی ہیں۔

1971 کی جنگ کے حوالے سے بھارتی وزیر کا بڑا اعتراف

سنہ 1971 کی پاک بھارت جنگ پاکستان پہ اس لئے مسلط کی گئی تھی کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرکے بنگلہ دیش بنایا جائے۔ بھارتی فوج اور اسکی خفیہ ایجنسی را نے مکتی باہنی نامی ایک دہشت گرد گوریلا تنظیم تیار کی تھی جس میں بھارتی فوج کے اہلکار بھیس بدل کر پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ میں مصروف عمل تھے۔ اس تنظیم کے بھیس میں بھارتی کمانڈوز نے بنگالی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا قتل کیا اور اس کا الزام پاک فوج پر لگایا گیا۔ اس امر کا بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ بطور راشٹر یہ سوائم سیوک سنگھ آر ایس ایس (RSS)اہلکار انہوں نے خود بنگالیوں کے شانہ بشانہ بنگلہ دیش کے قیام کی خاطر گوریلا جنگ میں حصہ لیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نے یہ اعتراف کر کے تسلیم کیا کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع یہ ملک ضائع نہیں کرتا اور ازل سے یہ پاکستان کا دشمن ہے۔

عالمی برادری بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت کا وزیراعظم بذات خود ایک قاتل اور دہشت گرد ہے جس کے دامن پر گجرات میں مسلمانوں کے ناحق خون کے چھینٹے ہیں اس دہشت گرد کی مذموم کارروائیاں کرنے کی وجہ سے امریکہ نے بھی اس پر پابندی عائد کررکھی تھی کیونکہ یہ اس وقت جب 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی یہ گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔

جنرل ضیاء الرحمن کی پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش

شیخ مجیب الرحمن کو انہی کی فوج کے افسران نے بغاوت کر کے قتل کردیا تھا کہ شیخ مجیب کی بھارت نواز پالیسیوں سے بنگلہ دیش کو شدید نقصان ہورہاتھا اور نوزائیدہ ملک بھارت کا ایجنٹ بنتا جارہا تھا۔ بعد میں آنے والے بنگلہ دیش کے صدر جنرل ضیاء الرحمن نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور سارک(SAARC)تنظیم کی بنیاد رکھی۔بھارت نے ان کو بھی قتل کروادیا لیکن عام انتخابات میں کامیاب ہو کر ان کی بیوہ بیگم خالدہ ضیاء وزیراعظم بن گئیں۔ انہوں نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جسکے نتیجے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات معمول پہ آگئے۔

خالدہ ضیاء کی پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش اور بھارتی ریشہ دوانی

خالدہ ضیاء نے پاکستانی تاجروں اور سر مایہ کاروں کو خصوصی مراعات دیں جسکے نتیجے میں پاکستانی سرمایہ کاروں نے بنگلہ دیش میں فیکٹریاں قائم کیں اور دونوں ملکوں کی معیشت کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھایا اور اس دو طرفہ گرم جوشی سے دونوں بھائیوں کے تعلقات معمول پر آ گئے تھے۔بھارت کو بنگلہ دیش اور پاکستان کی یہ قربت ایک آنکھ نہ بھائی اور اس کو خطرہ پیدا ہوا اگر پاکستان اور بنگلہ دیش نے کوئی دفاعی معاہدہ کر لیا تو اس کی بقا مشکل میں پڑ جائے گی۔ چین ، پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر بھارت کا کچومر نکال دیں گے اس لیے انتخابات میں دھاندلی کراکے شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کا وزیراعظم مقرر کردیا۔

1974 کا سہ فریقی معاہدے میں ماضی بھلانے اور نیا آغاز کا عزم

شیخ حسینہ واجدجو بھارت کی محبت میں سرشار ہیں، نے پاکستانی تاجروں اورسرمایہ کاروں کو شدید مالی نقصان پہنچا کر بنگلہ دیش چھوڑنے پہ مجبور کیا۔ بیگم خالدہ ضیا کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر قید کیا گیا اور ان کو قید کے دوران شدید تکلیف پہنچائی گئی، بہت سے ایسے بزرگوں کو پھانسی دی گئی جو 1971 میں پاکستان کے ساتھ رہنے کے حامی تھے اور انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ ان کے والد نے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے اپریل 1974ء کے سہ فریقی معاہدے میں ’ماضی کو بھلا کر ایک نیا آغاز کرنے‘ کے عزم کا اظہار کیا تھا ۔

شیخ مجیب نے فروری 1974ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی سال جون میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت دونوں ممالک کی قیادت کے ارادے بالکل واضح تھے، وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بحال کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد سے کئی پاکستانی حکمران بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں اور ماضی کی تلخیاں بھلادینے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں لیکن لگتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے لیے یہ کام مشکل ہے۔جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے لیے اچھے جذبات رکھتا ہے۔

حسینہ واجد کی 25 مارچ کو بنگالیوں کی نسل کشی کا دن منانے کی تیاری

اب شیخ حسینہ واجد کی جانب سے تازہ ترین شرارت یہ آئی ہے کہ وہ 25 مارچ کو بنگالیوں کی نسل کشی کے دن کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ امریکی کانگریس میں اس حوالے سے قرارداد پیش کروائی جا رہی ہے۔ اس معاملے کو عالمی برادری کے سامنے اس انداز سے پیش کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے کہ جس سے پاکستان کی ساکھ کو غیر معمولی طور پر نقصان پہنچے۔

پاک فوج پر بنگالیوں کے قتل عام کا الزام ، کتنی حقیقت کتنا افسانہ ؟

شیخ حسینہ نے پاکستان کے خلاف ایک اور الزام لگایا ہے کہ سنہ 1971 میں پاک فوج نے 30لاکھ بنگالی انتہائی سفاکی سے قتل کئے۔ پاکستان اور اسکی فوج اس ظلم اور بربریت کی معافی مانگے اور ہر جانہ ادا کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی گوریلا تنظیم مکتی با ہنی جس میں بھارتی کمانڈوز بھی شامل تھے، نے پاک فوج کی چھائونیوں پہ حملہ کرکے پاکستانی فوج اورانکی فیملی کے ممبران کو اذیت دے کر شہید کیا۔ غیر بنگالی جو پاکستان ہجرت کرکے مشرقی پاکستان میں آبسے تھے جن میں اکثریت بہاریوں کی تھی اور مغربی پاکستان کے حکومتی ارکان جو مشرقی پاکستان میں تعینات تھے پہ ان دہشت گردوں نے شب خون مار کر انہیں بے دردی سے قتل کیا، ان کی عورتوں کے ساتھ زیادتی کی اور پھرلاشوں کواجتماعی قبر میں دفن کردیا خود کو بنگالیوں کی نظر میں مظلوم ثابت کرنے کے لیے رات کی تاریکیوں میں بنگالیوں کو قتل کرتے اور اس کا الزام پاکستانی فوج پر لگا دیتے۔

پاک فوج نے جب مکتی باہنی کے گوریلوں اور بھارتی فوج کے خلاف آپریشن کیا تو گھمسان کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کو باغیوں کے چنگل سے چھڑا یا جس میں مکتی باہنی کے ہاتھوں متعدد بنگالی بھی ہلاک ہوئے۔ شیخ حسینہ واجد اب غیر بنگالیوں کی اجتماعی قبریں میڈیا کو دکھا کربنگالیوں کی قبریں بنا کر پیش کررہی ہیں اور الزام پاکستان کے سردھر رہی ہیں۔

مکتی باہنی کے ہاتھوں غیر بنگالیوں کا قتل عام

بھارت کی برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد میں ایک اہم نام سبھاش چندر بوس کا ہے جنہیں ’ نیتاجی‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ انہوں نے بھارت کو آزاد کرانے کی خاطر ’قومی بھارتی فوج‘Indian National Army تشکیل دی تھی۔ برطانیہ نے انکو 1945 میں طیارے کے حادثے میں ہلاک کروادیا تھا۔ ان کی بھتیجی شرمیلہ بوس برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں حالات حاضرہ کی پروفیسر ہیں اور اپنی مایہ ناز کتاب ’ڈیڈ ریکننگ’ Memories of Bangladesh War :Dead Reckoning میں بہت تحقیق کے بعد اس نتیجے پہ پہنچی ہیں کہ پاک فوج مشرقی پاکستان میں دلیری سے لڑی لیکن مکتی باہنی والوں نے خود مغربی پاکستانی اور غیر بنگالیوں کاقتل عام کیا اور اسے چھپایا۔شرمیلہ بوس خود بنگالی نثراد ہیں اور ان کی تحقیق مستند ہے اور حقیقت سے آگاہی ہوتی ہے۔

غیر جانب دار بنگالیوں دانش وروں کا اعتراف

متعدد بنگالی محققین نے اپنی تحریروں سے شیخ حسینہ واجد کے سنگین جھوٹ کو بے نقاب کیا ہے جس میں سابق بنگالی وزیر غلام محی الدین بھی شامل ہیں۔ہمیں بھی پاکستان میں سنہ 1971 کی پاک ۔ بھارت جنگ پہ سیمینار منعقد کرانے چاہئیں تاکہ ہم موجودہ اور آیندہ آنے والی نسلوں کے سامنے بھارتی اور شیخ حسینہ واجد کے جھوٹ کو بے نقاب کریں، اور اپنے ملک کو مزید مستحکم کریں اور اس ہولناک سانحہ سے سبق حاصل کریں اور کوشش کریں کہ ہم ایسی غلطی نہ دہرائیں جس سے دشمن فائدہ اٹھائے ۔ بھارت ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں بھی سازشیں کر رہا ہے کہ وہ ہم سے علیحدہ ہوجائے ۔ اس سلسلے میں ہمارے اداروں نے تمام ثبوت بھی اقوام متحدہ اور دیگر عالمی رہنماؤں کو پیش کر دیے ہیں ہمیں یہ سازش ناکام بنانے کی خاطر جدوجہد کرنی چاہئے۔ اور پاکستان کی مضبوطی اور استحکام کے لیے مل کر کام کرنا چاہیئے۔ ہمیں مکمل طور پر چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ ہمارا دشمن بزدل ہے اور منافقت اس کی قومی پالیسی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور دسمبر کے انسو

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button