Columns

پہلی بار ڈیجیٹل مردم شُماری ایک نئے دور کا آغاز ؟

پہلی بار ڈیجیٹل مردم شُماری ایک نئے دور کا آغاز ؟

نوید نقوی

میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں یہ سوچ کر کہ انسان چاہے اپنوں سے ناراض ہو یا خوش، اس کی زندگی مسائل کے انبار تلے پھنسی پڑی ہو یا ہر طرف اچھا ہی اچھا ہو، ایک بات طے ہے جب بھی وطن میں کوئی فائدے والا کام ہونے جا رہا ہو دل خوشی سے نہال ہوتا ہے اور اپنے ذاتی مسائل بھول کر وطن کی سر بلندی کی دعائیں نکلتی ہیں۔
پاکستان نے جب ایٹمی طاقت حاصل کی تھی میں غالباً اول یا دوم کلاس کا طالب علم تھا اور مجھے یاد نہیں ہے لیکن میں چشم تصور سے محسوس کر سکتا ہوں میرے بابا کا گھر والوں کو دعوت دینا کہ اب بھارت ہو یا کوئی دوسرا دشمن ہم پر وار نہیں کرے گا اگر کرے گا تو دگنا نقصان بھی اٹھائے گا۔

ساتویں مردم شُماری کا آغاز ہونے کو ہے

آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اور میں خود بھی اور میرے جیسے سفید پوش لائن میں لگ کر ایک زرعی ملک کے شہری ہونے کے باوجود آٹا لینے پر مجبور ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن اس دوران ایک ایسا کارنامہ سر انجام ہونے جا رہا ہے جس کا کریڈٹ موجودہ پی ڈی ایم سرکار یا گزشتہ پی ٹی آئی کی حکومت لینے کی کوشش کریں گی لیکن اس پر کافی عرصے سے کام جاری تھا۔ الحمدللہ پاکستان میں ساتویں مردم شماری کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور اس سے یہ ہوگا کہ ملک میں ایک تو انسانوں کی صحیح تعداد کا علم ہو جائے گا اور کوئی سیاسی جماعت ان نتائج کو ٹھکرا نہیں سکے گی دوسرا یہ ہوگا کہ پہلی بار مکمل اور جامع ڈیٹا حکومت کو میسر ہوگا جس سے ترقیاتی منصوبوں کو متعلقہ میدان میں شروع کیا جا سکے گا۔

اقتصادی مردم شُماری کی ضرورت

میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پہلی ڈیجیٹل مردم شُماری کا میں بھی حصہ ہوں اور شمار کنندہ کی حیثیت سے اپنے فرائض بخوبی سر انجام دوں گا۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ اس ڈیجیٹل مردم شُماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ٹھیک سے اپنے اعداد و شمار درج کروا کر اپنی قومی ذمہ داری ادا کریں۔ میرے دوست خبائب نقوی صاحب جو ایس ایس ٹی ہیں وہ کہتے ہیں پاکستان میں آج تک ایک بھی معاشی مردم شماری نہیں کروائی گئی۔ملک کی نشوونما، ترقی اور منصوبہ بندی کے لیے معاشی مردم شماری بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اس سے آپ کو پتا چلتا ہے کہ کن شعبوں میں حکومت کو روزگار بڑھانے میں مدد یا مزید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔
معاشی مردم شماری کسی بھی ملک کی معیشت کا ایک جامع پیمانہ ہے جو اس کی صنعتوں متفرق شعبوں اور منڈیوں کے بارے میں اعدادوشمار فراہم کرتی ہے۔
انڈیا میں اب تک سات بار اقتصادی مردم شماری کراوائی جا چکی ہے جبکہ پاکستان نے ابھی تک ایک بھی نہیں کراوائی تھی لیکن الحمدللہ اس مشکل حالت کے باوجود پاکستان 34 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کر کے یہ اہم قومی فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ادارہ شماریات پاکستان پہلی بار ایسا ڈیٹا جمع کرنے جا رہا ہے جس میں ملک میں موجود معذوری کی اقسام کے بارے میں تفصیلی معلومات جمع کی جائیں گی اور حکومت کو جامع پالیسی مرتب کرنے میں آسانی ہوگی۔ ایران اور مصر مسلمان ممالک میں پہلے ملک ہیں جو ڈیجیٹل مردم شُماری کا انعقاد کروا رہے ہیں انھوں نے اس طریقہ کار کے لیے کم از کم دو سال کی منصوبہ بندی کی اور لانچ کرنے سے پہلے کم از کم چار یا پانچ پائلٹس کا انعقاد کیا۔

ادارہ شماریات پاکستان کو 2021 کے آخر میں ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے اپنی حتمی منظوری مل گئی تھی اور اس وقت سے اس نے صرف ایک پائلٹ کروایا ہے۔ لیکن جس طرح محکمے نے ہماری جدید بنیادوں پر ٹریننگ کروائی ہے انشاء اللہ تعالیٰ وقت پر یعنی 30 مارچ تک کام مکمل ہو جائے گا۔یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ جن افراد کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہوگا ان کو بھی اس مردم شُماری میں گنا جائے گا۔ اس مردم شماری کی خاص بات یہ ہے کہ کاغذ اور قلم کا استعمال مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے ٹیبلیٹس اور جدید ایپلیکیشنز کا استعمال کرتے ہوئے ملک بھر میں رہائشی اور معاشی اعداد و شمار جمع کئے جائیں گے۔

ڈیجیٹل مردم شُماری پر 34 ارب سے زائد لاگت آئے گی

اس سے پہلے شمار کنندگان کاغذی فارم بھرتے تھے اور اس میں کافی وقت ضائع ہو جاتا تھا۔ اس مردم شماری پر کل 34 ارب روپے سے زائد لاگت خرچ ہوگی اور یکم مارچ سے یکم اپریل تک یہ مشق ہوگی۔ بلاک مردم شماری کے لیے جغرافیائی اکائی ہے، جو 200-250 گھروں پر مشتمل ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 185,509 مردم شماری بلاکس ہیں۔

ایک لاکھ 26 ہزار نفری ڈیوٹی دے گی ،اتنے ہی ٹیبلٹس خریدے گئے ہیں

ان بلاکس میں کام کرنے کے لیے ادارہ شماریات پاکستان نے ایک لاکھ 26 ہزار شمار کنندگان بھرتی کیے ہیں اور اتنے ہی ٹیبلیٹس خریدے ہیں۔ ہر شمار کنندہ مردم شماری کے دو بلاکس سے معلومات جمع کرنے کا انچارج ہو گا۔

سنہ2017 کی مردم شُماری کے مطابق پاکستان کی آبادی پونے 21 کروڑ ہے

یاد رہے کہ پاکستان میں اب تک 1951، 1961، 1972، 1981، 1998 اور سنہ 2017 میں مردم شماری ہو چکی ہے۔سنہ 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً پونے 21 کروڑ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ ہے جس میں دیہی آبادی تقریباً سات کروڑ ہے جبکہ چار کروڑ یا تقریباً 37 فیصد لوگ شہروں میں مقیم ہیں۔

گزشتہ مردم شُماری کے مطابق ملک میں مردوں اور خواتین کا تناسب برابر ہے

سنہ 2017 کی مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی میں مرد اور خواتین کا تناسب تقریباً برابر ہے اور مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں صرف 51 لاکھ زیادہ ہے۔ اس وقت بھی پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور یہ ہمارے لیے خوشی کی بات تو یقیناً نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس صدی کے دوران آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ انڈیا، نائیجیریا اور پاکستان میں ہوگا۔

ہر شہری سے گھر کے کمروں اور رہائش پذیر افراد کی تعداد سمیت مختلف معلومات لی جائیں گی

اقوام متحدہ نے کہا کہ سنہ 2050 تک عالمی آبادی میں متوقع اضافے کا نصف سے زیادہ حصہ آٹھ ممالک میں ہو گا جو انڈیا، کانگو، مصر، ایتھوپیا، نائجیریا، پاکستان، فلپائن اور تنزانیہ ہیں۔ موجودہ ڈیجیٹل مردم شماری میں شمار کنندگان ہر پاکستانی شہری سے ان کے رہن سہن، عمر اور جنس کے علاوہ دیگر معلومات لیں گے مثلاً ان کے گھر میں کمروں کی تعداد، بنیادی سہولیات، رہائش پذیر لوگوں کی تعداد وغیرہ کے بارے میں تفصیلات پوچھی جائیں گی۔ دیگر معلومات اس شخص کی تعلیم، ملازمت، مذہب اور اگر کوئی معذوری ہے تو اس کے بارے میں ہوں گی۔

آن لائن فارم پر کرنے کے بعد QR کوڈ جاری کیا جائے گا تصدیق کے لئے کوڈ کا اسکین کرانا ہوگا

یہاں ادارہ شماریات کے آئی ٹی ماہرین کو شاباش نہ دینا بھی ان کی حق تلفی ہوگی انہوں نے اس بار ایسا سسٹم بنایا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خود شماری کر لیں تو اس بار یہ سہولت بھی میسر ہے۔وہ پاکستانی شہری جو چاہتے ہیں کہ فیلڈ شمار کنندگان ان کے گھر نہ آئیں وہ اپنی تفصیلات درج کرانے کے لیے اپنے موبائل نمبروں کا استعمال کرتے ہوئے ادارہ شماریات کے بنائے ایک ویب پورٹل میں لاگ ان کر سکتے ہیں۔ ایک بار جب مذکورہ فرد مردم شماری کا فارم مکمل کر کے جمع کروا دے گا تو اسے ایک کیو آر (QR) کوڈ جاری کیا جائے گا۔
پھر جب کوئی فیلڈ شمار کنندہ اس کے گھر جاتا ہے تو اسے محض اس کوڈ کو سکین کروانا ہو گا تاکہ ڈیٹا کی تصدیق کا عمل شروع کیا جا سکے۔ ایک بار جب پی بی ایس اس ڈیٹا کی تصدیق کر لے گا تو اس شخص اور اس کے گھر والوں کا مردم شماری میں شمار ہو جائے گا۔

ادارہ شماریات کی جانب سے اسلام آباد میں مرکزی کنٹرول روم قائم

ادارہ شماریات پاکستان نے اسلام آباد میں کورونا وائرس وبا کے عروج کے دوران قائم کیے گئے NCOC کی طرز پر ایک مرکزی کنٹرول روم بھی قائم کیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی علاقے میں رابطے کے مسائل کی بنا پر ٹیبیلٹس آف لائن بھی ہوں تو بھی مردم شماری کی معلومات جمع کی جائیں گی جنھیں بعد میں مرکزی کنٹرول روم کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اب آن لائن ڈیٹا جمع کرنے کا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ کاغذ قلم کے روایتی استعمال سے برسوں لگ جاتے تھے اور ڈیٹا لیک بھی ہو جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت یہ کام جلد ہو جائے گا اور پاکستان کا شمار بھی ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جو ڈیجیٹل مردم شماری کروا رہے ہیں۔ آئیے مل کر اس قومی فریضے کو سر انجام دیں تاکہ ہمارا وطن بھی نئے دور میں داخل ہو سکے۔ عوام کا فرض ہے کہ درست اعداد و شمار درج کروائیں تاکہ حکومت کو پالیسی مرتب کرنے میں آسانی ہو۔ اب ایم کیو ایم ہو یا کوئی بھی سیاسی جماعت ان نتائج پر اعتراض نہیں کر سکے گی کیونکہ اب خود شماری کا آپشن دے کر یہ اعتراض ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

پاکستان میں نوجوانوں کا طرز عمل ، تعلیمی اداروں اور معاشرے کی ذمے داریاں

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button