ColumnsUniversity

پاکستان میں نوجوانوں کا طرز عمل ، تعلیمی اداروں اور معاشرے کی ذمے داریاں

پاکستان میں نوجوانوں کا طرز عمل ، تعلیمی اداروں اور معاشرے کی ذمے داریاں

نوید نقوی

طلباء کی جانب سے استادوں اور ساتھی طلباء پر تشدد کے افسوس ناک واقعات

لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے موبائل تک آزادانہ رسائی اور والدین کی غفلت کی وجہ سے ہماری جدید نسل اپنی ذمہ داریوں سے لا پرواہ ہو چکی ہے۔ کچھ ماہ پہلے رحیم یار خان میں نویں جماعت کے طالب علم نے اپنے استاد محترم پر تشدد کیا اور پھر شرمندہ ہونے کی بجائے وہ دھمکیاں بھی دیتا رہا کہ اگر کارروائی کی تو انتقام لوں گا اور اب لاہور میں جب ایک پرائیویٹ سکول کی طالبات نے اپنی ساتھی طالبہ پر تشدد کیا اور وہاں موجود دوسرے لوگوں نے بجائے اس کے کہ چھڑوانے کی کوشش کرتے انہوں نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویڈیو بنانا شروع کر دی اور قہقہے لگاتے رہے جیسے کوئی کھیل تماشا ہو رہا ہو۔

اشرافیہ کےلئے بنائے گئے مہنگے اسکولز کی تربیت کا حال

اس واقعے کا منفی پہلو صرف طالبات کا ایک ساتھی طالبہ پر تشدد کرنا ہی نہیں بلکہ واقعے کی جگہ پر وہاں موجود تماشہ دیکھنے والوں کا کردار بھی ہے جو اس پر خوش ہو رہے تھے اور وہ اس واقعے کو روکنے کے بجائے ویڈیو بنانے اور اپ لوڈ کرنے میں مشغول تھے۔
یہ لاہور کا سب سے مہنگا اور اشرافیہ کے پرائیویٹ سکول کا حال ہے جہاں بچوں کے والدین سے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بھاری فیسیں ہتھیائی جاتی ہیں اور انہی سکولوں سے پڑھے لکھے امیر زادے پاکستان میں کلیدی عہدوں پر تعینات ہو کر غریب عوام کے حقوق غصب کرتے ہیں اور آج میرے وطن کی جو نا گفتہ بہ حالت ہے، ہم معاشی اور سماجی طور پر جو تنزلی کا شکار ہیں ، تعلیم ہو یا کھیل ، سائنس ہو یا ادب ہم ہر میدان میں اپنے باقی ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہیں۔ اس میں ایک بڑا حصہ ان جاگیر داروں، سیاست دانوں ، بیورو کریٹوں اور جرنیلوں کی اولاد کا ہے۔

الارمنگ صورت حال

یہ ایک واقعہ ہمارے لیے الارمنگ نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان میں اس وقت ایسے واقعات کثرت سے ہو رہے ہیں کچھ سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ہماری نظروں میں آ جاتے ہیں باقی معاشرے کے بڑے حصے کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور طاقتور لوگ اپنی مرضی سے اگلے کو سیٹ کرتے ہیں ۔ تھانہ کچہری ان کی مٹھی میں ہوتا ہے اور ہمارے اقتدار کے بھوکے رہنما اپنی شدید غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنی کرسی کی فکر میں غلطاں ہیں۔

لاہور میں طالبہ پر تشدد کی وجہ

لاہور کے ایک نجی سکول میں تین نوعمر طالبات کی جانب سے اپنی ایک ساتھی طالبہ پر تشدد کے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے کئی دن بعد بھی اس پر خوب بحث جاری ہے۔ سنجیدہ مزاج لوگ اس پر فکر مند ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کے پاس کوئی منظم پالیسی بھی نہیں ہے کہ آئندہ ایسے واقعات سے کیسے نمٹا جائے۔متاثرہ طالبہ کے والد نے اس واقعے کے خلاف مقامی تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروائی ہے۔
ایف آئی آر میں انھوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی کو ساتھی طالبات نے منصوبہ بنا کر تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے چند روز قبل ایک طالبہ کے والد کو ایک ویڈیو بھیجی تھی جس میں طالبہ کی جانب سے منشیات کے استعمال کی بات کی گئی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس کی بنیاد پر اب اس طالبہ نے بدلہ لینے کے لیے دیگر دو طالبات کے ساتھ مل کر ان کی بیٹی کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد ان تین طالبات نے ایک مقامی عدالت سے رجوع کیا اور 50، 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ان کی عبوری ضمانت منظور کر لی گئی.
ہفتے کو لاہور کی ایک مقامی عدالت نے صوبائی دارالحکومت کے ایک پرائیویٹ سکول میں ایک طالبہ پر تشدد کرنے والی تین نوعمر طالبات کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔اس حوالے سے جج نے معاملے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے پولیس کو اس واقعے میں ملوث تینوں طالبات کو 30 جنوری تک گرفتار نہ کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

نوجوانوں کی اصطلاح و تربیت کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شروعات میں تو ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سے صارفین جذبات میں آ کر ان لڑکیوں کو کڑی سزائیں دینے کی بات کرتے رہے تاہم وقت کے ساتھ کچھ وکلا اور دیگر صارفین کی جانب سے اس بارے میں ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی تجویز دی گئی. اور معاشرے میں نوجوانوں کی اصلاح کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے پر زور دیا تاکہ ہماری نوجوان نسل میں اعلیٰ اخلاق پیدا کیے جا سکیں۔

اسکول انتظامیہ نے اب تک معافی نہیں مانگی

صارفین کی بڑی تعداد جہاں اس ویڈیو کو شیئر کر کے اس واقعے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے.پر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس واقعے پر غفلت کی مرتکب سکول کی انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لینے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ایک طالبہ کی جان خطرے میں تھی. ابھی تک اس سکول کی طرف سے اس واقعے پر کوئی معافی نہیں مانگی گئی اور نہ ہی میں نے یہ دیکھا کہ طلبہ کی ذہنی اور جسمانی صحت سے متعلق کوئی حفاظتی انتظامات اٹھانا اس سکول کے کلچر کا حصہ ہو. ملک بھر کے بڑے تعلیمی اداروں میں نشے تک رسائی آسان ہے اور ان تعلیمی اداروں کا ماحول دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہے۔

تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا خطرناک رجحان

یہ بھی یاد رہے کہ لگ بھگ چار ماہ قبل یعنی ستمبر 2022 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت ایک اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے پرویز الہی کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی خرید اور فروخت کی پاداش میں کم از کم دو برس قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید جیسی سزائیں جلد ہی متعارف کرائی جائیں گی۔اس اجلاس میں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی متعارف کرانے پر اتفاق ہوا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کو یقنی بنایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران یہ بھی بتایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کے لیے ایک آزاد ادارہ اور اینٹی نارکوٹکس پولیس سٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

والدین بچوں سے دوستی رکھیں ڈر کا ماحول ختم کریں

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات قانون سازی سے حل کیے جا سکتے ہیں؟ سوشل میڈیا پر ایسے صارفین بھی موجود ہیں جنھوں نے اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے کچھ عملی تجاویز بھی دی ہیں۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہ رہے ہیں کہ اس کو ہم صرف ایک خبر کے طور پر نہیں لے سکتے اور نہ ہی ہم اسے اس طرح جانے دے سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ اپنے بچوں سے بات کریں، ان کی توجہ حاصل کریں اور شفقت سے ان کی نگہبانی کریں۔ والدین کو اپنے بچوں سے ڈر کا تعلق رکھنے کے بجائے دوستی کا رشتہ استوار کرنا چاہیے تاکہ وہ اس پر بات کر سکیں۔ ان کے مطابق یہ تو کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ بچوں سے دوستی رکھیں اور اگر وہ کسی معاشرتی دباؤ کی وجہ سے منشیات کے استعمال جیسے مسائل کا شکار ہیں تو پھر اسے شرم کا مقام نہ بنائیں بلکہ انھیں اعتماد دیں کہ وہ یہ سب بلاخوف شیئر کر سکیں ہمیں پتہ ہو ان کے دوست کون ہیں اور ان کے والدین کیا کرتے ہیں موبائل پر وہ کس کس سے رابطے میں ہیں ہمیں چاہیئے کہ اپنے بچوں کا تحفظ کریں اور انھیں دنیا کا سامنا کرنے کے لیے مضبوط بنائیں۔

نئی نسل کی بہتر تربیت کے لئے گھر ، اسکول اور معاشرے میں اصلاحی رویے اپنانا ہوں گے

گھر، سکول اور معاشرے میں اصلاحی رویے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں طالبات اس وجہ سے بھی اپنے مسائل پر بات نہیں کرتی ہیں کہ اگر گھر والوں کو پتہ چل گیا تو پھر وہ جلدی ان کی شادی کروا دیں گے یا دیگر پابندیاں عائد کریں گے۔ اب جبکہ یہ ویڈیو پاکستان اور انڈیا تک میں وائرل ہو چکی ہے تو ان طالبات کے نام بھی خفیہ رکھنے چاہییں کیوںکہ اس سے ان کی زندگیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔

سوک ایجوکیشن کا فقدان

لاہور واقعہ پورے معاشرے کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جو سب سے بڑی کمی محسوس کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں سوک ایجوکیشن کا تصور نہیں ہے۔سوک ایجوکشن کے ذریعے بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ آئین اور قانون کیا ہے اور اس پر عملدرآمد معاشرے کے آگے بڑھنے کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے۔ اختلاف کیسے کرنا ہے، معاشرتی ذمہ داریاں کیا ہیں، کسی کی بات بری لگے تو کیا کرنا ہے۔ یہ ان سکولوں کا کام بنتا ہے جو والدین سے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں کہ وہ بچوں کو سوشلائز کریں اور مختلف موضوعات اور مسائل پر بحث کا آغاز کریں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مسئلہ قانون کا نہیں بلکہ قانون کی عملداری کا ہے اور اگر اس میں کوئی خامی ہے تو پھر سکول کی انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ قانون کے مطابق کسی تعلیمی ادارے کی حدود میں سگریٹ اور پان کی دکان بھی نہیں کُھل سکتی تو ایسے میں اگر سکول کے اندر تک منشیات پہنچ جائے تو پھر ایسے میں ہمارا مستقبل اندھیرے میں جانے کا خدشہ ہے۔ تعلیمی اداروں کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت اور تحفظ پر بھی کام کریں۔ ہماری اشرافیہ کا فرض بنتا ہے کہ اندھے ہو کر دولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی اولادوں کو بھی وقت دیں کیونکہ ان ہی بچوں میں سے اکثر کل بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے۔ اور خدا نہ کرے میرے وطن کے مستقبل سے کھیلیں گے اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی نسلوں کی صحیح معنوں میں تربیت کریں یہ ہمارا نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ دینی فرض بھی ہے۔

یہ بھی پڑھئیے

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبریں اور معیشت کے استحکام کا چیلنج

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button