CollegeColumns

فورٹ ولیم کالج ،نو آبادیاتی ہندوستان کا پہلا تعلیمی

فورٹ ولیم کالج ،نو آبادیاتی ہندوستان کا پہلا تعلیمی ادارہ

جبران عباسی

اردو جو آج کم و بیش 60 کروڑ سے زائد لوگوں کی زبان ہے اس کی عمر قدرے کم ہے۔ اردو کا مبہم سا آغاز شاہجہان کے دور میں دہلی کے ایک شاہی محلے سے ہوا۔ اردو ایک مخلوط زبان ہے جو مقامی ہندی ، فارسی ، عربی اور ترکی جیسی عظیم زبانوں سے اخذ کی گئی ہے۔ اردو کبھی بھی مغلیہ عہد کی سرکاری زبان نہیں رہی ہے اور نہ ہی آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے علاوہ یہ کسی مغل شہنشاہ کی بولی رہی ہے۔
اگر فورٹ ولیم کالج نہ ہوتا شاید ہی کبھی اردو باقاعدہ زبان کا درجہ حاصل کر پاتی، شاید ہی اردو کی کوئی گرائمر ہوتی اور اردو نثر تشکیل پاتی۔ اردو کی مقبولیت میں شعرا کا کمال فن ہے مگر اردو کی قبولیت میں فورٹ ولیم کالج کی محنت کا رنگ ہے۔
فورٹ ولیم کالج جو محض افسروں کی تربیت کےلئے قائم ایک ادارہ تھا مگر اس نے ہندوستان کی تعلیم ، زبانوں اور ثقافتوں پر بڑا گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ فورٹ ولیم کالج کی اہمیت کو سمجھنے کےلئے اس کے پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔

سامراج کے پنجوں میں پھنسا ہندوستان: 1757 تا 1800

جنگ پلاسی (1757) کی فیصلہ کن جنگ میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو شکست دی اور ان کی جگہ ایک کٹھ پُتلی اور غدار میر جعفر کو بنگال کا گدی نشین کیا تو کسے معلوم تھا یہ انگریز سامراج کا آغاز ہے جس نے اگلی دو صدیوں تک ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں رکھنا ہے۔
سنہ 1765 میں جنگ بکسر کے بعد بنگال کی قسمت کا آخری فیصلہ ہوا۔ کمپنی بہادر نے بنگال، بہار اور اڑیسہ کے دیوانی اختیارات مغل شہنشاہ سے حاصل کر لیے یہ اختیارات عدالت ، ریونیو اتھارٹی ، بیوروکریسی اور فوج پر مشتمل تھے۔ یوں انگریزوں کو ان صوبوں کے انتظامات چلانے کےلئے ایڈمنسٹریشن اور منشی طبقہ کی ضرورت پڑی۔

برٹش انڈیا بیوروکریسی کا آغاز

1760-70 کی دہائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران نے اپنے اختیارات سے ناجائز فائدے اٹھائے اور مقامی حکمرانوں سے بھاری رشوتیں وصول کرنا شروع کر دیں۔ گورنر جنرل لارڈ کلائیو جس نے سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ میں شکست دی اس نے میر جعفر سے موجودہ مالیت کے حساب سے 25 کروڑ پاؤنڈ کی رشوت وصول کی۔
سنہ 1773 میں برطانوی پارلیمان میں ایسٹ انڈیا کمپنی ایکٹ منظور ہوا جسے regulating act بھی کہا جاتا ہے جس کے نیتجے میں برٹش انڈیا بیوروکریسی کا آغاز ہوا اور کمپنی کے زیر تسلط علاقوں کو ضلعوں میں تقسیم کر کے وہاں کلکٹر سسٹم کا اجرا کیا گیا۔
کلکتہ بنگال کا اہم شہر تھا اور کمپنی کی پریزیڈنسی وہاں قائم تھی خاصی اہمیت حاصل کر چکا تھا۔ کلکتہ کی فورٹ ولیم عمارت میں سپریم کورٹ قائم کی گئی جو تمام متنازعہ معاملات کے فیصلے کرتی تھی۔ کمپنی کے جج ، کلکٹر ، اعلی فوجی افسران لندن سے تربیت حاصل کر کے آتے تھے۔
لیکن ان افسران کا سب سے بڑا مسلہ مقامی ثقافت اور زبان سے آشنا نہ ہونا تھا جس کی وجہ سے منشی طبقہ کی بدعنوانیاں اپنے عروج پر تھیں۔

مدرسہ عالیہ کلکتہ کا قیام

مدرسہ عالیہ کلکتہ
مدرسہ عالیہ کلکتہ

انگریزوں کو مقامیوں اور اپنے درمیان حائل فاصلہ کم کرنا تھا اسی لئے انھوں نے چند ایسے ادارے قائم کئے جہاں انگریز افسران کو مقامی رسوم و رواج، مقامی زبان اور مذاہب کے بارے میں معلومات دی جاتی تھیں۔
انہی اداروں میں کلکتہ کا مدرسہ عالیہ سب سے نمایاں تھا جسے 1780 میں گورنر جنرل نے قائم کیا تھا۔ اس مدرسے میں انگریزوں کی تربیت کی جاتی تھی اور ان کو مقامی زبان سکھائی جاتی تھی۔
سنہ 1784 میں کلکتہ سپریم کورٹ کے جج سر ولیم جونز کے مشورے سے “ایشیاٹک سوسائٹی” کا اجرا کیا گیا۔ جس کا مقصد ہندوستان کی تاریخ اور سماج کا مطالعہ کرنا تھا تاکہ یہاں کے لوگوں کے سماجی، نسلی، علاقائی پس منظر، تعصبات اور تضادات کی آگاہی ہو اور ان کا استعمال کر کے ہندوستانی معاشرے پر اپنے قبضے کو توسیع دی جائے۔
سنہ 1790 تک ان تمام اقدامات کے اثرات ظاہر ہونے لگے اور انگریز یہ اخذ کرنے لگے کہ ہندوستان میں مذہب کے علاوہ زبانوں کی بنیاد پر بھی فالٹ لائنز موجود ہے۔

ہندوستان کی اپنی زبانیں

ہندوستان کی قدیم ترین زبان سنسکرت تھی، تاہم بول چال میں ہندی زبان عام فہم تھی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ ہندی زبان میں بھی تقسیم تھی ایک وہ ہندی زبان تھی جسے ہندو بولتے اور جس کا ماخذ سنسکرت اور پراکرت تھیں جبکہ دوسری ہندی زبان مسلمان بولتے تھے جس کا ماخذ غیر ملکی زبانیں مثلاً فارسی ، عربی ، ترکی اور دیسی زبانیں تھیں۔ تب تک یہ زبان اردو نہ کہلاتی تھی بلکہ ریختہ کے نام سے جانی جاتی تھی۔
سنہ 1790 کی دہائی میں ایک انگریز سرجن گلکرسٹ نے بھی اپنا مدرسہ قائم کیا جس میں مقامی زبانیں سکھائیں جاتی تھیں، بعدازاں انھوں نے مقامی ہندی زبانوں کی گرائمرز بھی تیار کیں اور وہی فورٹ ولیم کالج کے پہلے پرنسپل تھے۔

اورینٹل ازم(orientalism)

سترہویں صدی کے اختتام تک انگریز مقامی ثقافتوں اور زبانوں کے بارے میں بنیادی معلومات رکھنے لگے اور اب اورینٹل ازم کا نظریہ پنپنے لگا۔
اس نظریے کے مطابق مقامی ثقافت، رسومات ، تاریخ اور جغرافیہ کو باقاعدہ تعلیم و ادب کا حصہ بنایا جائے اور اس کے اوپر مزید تحقیقات کی جائیں اگرچہ شروع میں اس کا مقصد مشرقی تہذیب کو مغربی تہذیبوں سے کمتر ثابت کر کے عیسائی تعلیمات کو فروغ دیا جانا تھا۔
مگر بعد میں جب مشرقی علوم ، تاریخ اور ادب کا مطالعہ کیا گیا تو اس کا اثر الٹا ہوا اور انگریز یہ ماننے پر مجبور ہو گے عیسائی تعلیمات سے کہیں زیادہ بہتر ایشیائی و ہندوستانی ثقافتیں اور مذاہب ہیں۔

فورٹ ولیم کالج کے قیام کی وجوہات

چھوٹے مدارس کلکتہ میں کام کر رہے تھے مگر اب کسی ایسے کالج کی ضرورت تھی جو انگریزوں کی مقامی بیوروکریسی کی ضروریات کو پورا کرے، منشیوں کی تربیت کرے، انگریز افسران کو مقامی زبانوں سے آشنا کرے، تحقیق و تحریر کی جائے اور سب سے اہم عیسائی مذہب کو فروغ دینے کےلئے لٹریچر اور ذہن سازی کی جائے۔ ایک ایسا مکمل تعلیمی ادارہ جو تعلیم و تربیت کے ساتھ عیسائی تعلیمات کو فروغ دے۔

فورٹ ولیم کالج کا قیام

فورٹ ولیم کالج
فورٹ ولیم کالج

سنہ 1800 میں گورنر جنرل لارڈ ولزلی کی ہدایت پر کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس کالج کا افتتاح 10 جولائی 1800 کو کیا گیا مگر لارڈ ولزلی کی ہدایت پر اس کا سرکاری افتتاح 4 مئی 1800 سے تصور کیا گیا کیونکہ ٹھیک اسی دن ایک سال پہلے 1799 میں سرنگا پٹنم کی آخری لڑائی میں سلطان ٹیپو شہید ہوئے تھے۔ فورٹ ولیم کالج کی پہلی کلاس 24 نومبر 1800 کو ہوئی تھی۔

فورٹ ولیم کالج کی ابتدائی مشکلات

یہ کالج گورنر جنرل لارڈ ولزلی نے اپنی منشاء کے مطابق قائم کیا اور اس کے لئے لندن میں موجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر آف بورڈز سے منظوری نہ لی۔ کمپنی ہیڈ کوارٹر نے کالج کو بند کرنے کا حکم دے دیا اور 1806 میں برطانیہ ہی میں ایسٹ انڈیا کالج قائم کر دیا جہاں انگریزوں کو ہندوستانی اطوار و طریقوں کی تربیت دے کر انھیں ہندوستان میں راج کرنے بھیج دیا جاتا۔ لندن میں موجود ڈائریکٹرز کا خیال تھا فورٹ ولیم کالج سے انگریزوں کے دلوں میں مقامیوں کےلئے عزت بڑھے گی جس سے ان کے مفادات کو خطرہ ہو گا۔
لیکن لارڈ ولزلی نے بھی فورٹ ولیم کالج بند نہ ہونے دیا اور یہاں مشرقی زبانوں کے شعبہ جات قائم کر دیے جن میں مقامی زبانوں پر تحقیق و تحریر شروع ہوئی۔
فورٹ ولیم کالج میں سب سے پہلے تین زبانوں کے شعبے اور دارالترجمہ قائم ہوئے۔ عربی زبان، فارسی زبان اور ہندوستانی زبان۔
ان تینوں زبانوں کےلئے الگ الگ دارالترجمے قائم کئے گے۔ ان تینوں زبانوں کی مشہور و نمایاں کتابوں کو انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ ترجمے انگریز افسران کے زیر مطالعہ رہتے جس سے ان کے علم اور تجربہ میں بےپناہ اضافہ ہوتا تھا۔ بعدازاں مزید مقامی زبانوں کے شعبہ جات بھی قائم کئے گے جن میں پراکرت اور تامل قابل ذکر ہیں۔

فورٹ ولیم کالج اور اورینٹل ازم

فورٹ ولیم کالج میں اس عہد کے بہترین یورپی سکالرز مقرر کئے گے جن کا مقامی ثقافتوں کے بارے میں علمی و تحقیقی کام آج بھی سند کی حیثیت رکھتا ہے۔
یورپی مستشرق H T colebrook انھی سکالرز میں سے ایک تھے جنہیں سنسکرت کا پہلا یورپی سکالر ہونے کا اعزاز ہے۔ کالج کے پرنسپل جان گلکرسٹ نے دیوناگری زبان میں ہندی زبان کی پہلی گرائمر کتاب تصنیف کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح جان بیلی نے عربی اور فارسی زبان میں کتابیں تحریر کیں اور اسلامی قوانین کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا۔ ممتاز مترجم ولیم کرے نے 37 مختلف زبانوں کا ترجمہ کیا اور بنگالی زبان کی ڈکشنری بنائی۔ 1801 سے 1831 تک ولیم مسلسل تیس برس بنگالی ڈکشنری پر کام کرتے رہے۔
ان سکالرز کی بدولت فورٹ ولیم کالج کی اہمیت میں بےپناہ اضافہ ہوا کیونکہ ان مستشرقین نے ایشیائی زبانوں کو یورپ میں متعارف کروایا اور یورپی زبانوں کو ایشیاء میں متعارف کروایا۔ ہندوستان کا لٹریچر اور قدیم کتابیں جب یورپ میں ترجمہ ہو کر پہنچیں تو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں اور دنیا ہندوستان کی علمی عظمت اور یہاں کے تاریخی کرداروں سے آشنا ہوئی۔

مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

اردو ہندی الگ شناخت

ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” ہمیشہ سے کامیاب رہی ہے۔ جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ ہندوستان کی دو بڑی قوموں کی زبانیں الگ ہیں اور یہ فالٹ لائن بن سکتی ہیں۔ یوں فورٹ ولیم کالج میں اردو کی ترویج واشاعت کا کام شروع ہوا۔
فورٹ ولیم کالج سے پہلے اردو کا کوئی باقاعدہ رسم الخط نہیں تھا بلکہ سرکاری زبان بھی فارسی تھی۔ فورٹ ولیم کالج میں اردو گرائمر تشکیل دی گئی، اردو رسم الخط ایجاد کیا گیا جو فارسی طرز پر تھا جبکہ ہندی کا رسم الخط قدیم طرز دیوناگری میں پہلے سے موجود تھا۔ ہندی زبان کو مزید سہل بنانے کےلئے پنڈت لائے گے جنہوں نے قدیم علوم کا آسان ہندی ترجمہ کیا۔

ہندوستان میں کتب بینی کا فروغ

فورٹ ولیم کالج سے پہلے ہندوستان میں کتب بینی کا شوق صرف امرا تک محدود تھا لیکن فورٹ ولیم کالج کی شائع کردہ کتابیں پورے ہندوستان میں ذوق و شوق سے مطالعہ کی جانے لگیں۔ کولکتہ کے عیسائی مشن پریس فورٹ ولیم کالج کے مسودات کی اشاعت کرتا تھا۔
کلکتہ پرنٹنگ پریس نے 25 زبانوں میں بائبل شائع کی۔ اس کے علاؤہ فورٹ ولیم کالج کے مسودات کی اشاعت بھی اسی کی ذمہ داری تھی۔

فورٹ ولیم کالج نے ہندوستان کو عظیم دماغ دیے

ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جو فورٹ ولیم کالج کا حصہ رہے اور بعد میں ہندوستان کے نمایاں سوشل ریفارمرز کی حیثیت سے ابھرے۔

ایشور چندرا ودیا ساگر

آپ فورٹ ولیم کالج میں سنسکرت ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اعلی تھے اور اٹھارویں صدی کے ممتاز سماجی رہنما گزرے ہیں۔ انھوں نے ہندوؤں میں رائج ستی کی ظالمانہ رسم اور بچوں کی شادی کے خلاف تحریک چلائی اور 1856 میں انگریزوں سے بیوہ میرج ایکٹ منظور کروایا۔

فورٹ ولیم کالج اور اردو

اردو ناولوں اور نثر کا آغاز بھی فورٹ ولیم کالج سے ہوا ہے۔ اردو کی ترویج و اشاعت میں فورٹ ولیم کالج کا کلیدی کردار رہا ہے۔

میر امن لطف

آپ کالج میں تدریسی خدمات انجام دیتے تھے اور آپ کو جدید اُردو نثر کے بانیوں میں سے قرار دیا جاتا ہے۔

حیدر بخش حیدری

فورٹ ولیم کالج میں آپ منشی تھے۔ آپ نے اردو کے اولین ناول لکھے جن میں طوطا کہانی اور آرائش محفل کو بےپناہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔

میر بہادر علی حسینی

آپ میر منشی تھے اور اپنی تصانیف سے خوب شہرت پائی ہے۔ ان کی مشہور اردو کتابیں نثر بے نظیر ، سحر البیان ، اخلاق ہندی اور تاریخ آسام شامل ہے۔
ان دانشوروں کے علاوہ میر شیر علی افسوس ، مظہر علی ولا ، مرزا کاظم علی جوان ، خلیل خان اشک اور نیہال چند لاہوری بھی فورٹ ولیم کالج سے منسلک رہے اور ان سب نے اردو زبان کےلئے وسیع خدمات انجام دیں۔
فورٹ ولیم کالج 1801 سے 1854 تک تدریسی فرائض انجام دیتا رہا ، اس کالج میں عام لوگ داخل نہیں ہو سکتے تھے یہ صرف انگریز افسران اور انگریز طبقہ کےلئے مخصوص تھا البتہ فیکلٹی میں ہندوستان دانشور نمایاں عہدوں پر فائز تھے۔ 1854 میں ایسٹ انڈیا کالج سے پرانی رقابت کے سبب یہ کالج بند کر دیا گیا مگر اس کالج کے اثرات اگلے دو صدیوں تک قائم رہے۔

فورٹ ولیم کالج کے اثرات

فورٹ ولیم کالج نے اردو کو فروغ دیا ، اورینٹل ازم کے نظریہ کو پروان چڑھایا اور ہندوستان میں ایک پڑھے لکھے مقامی طبقات کو متعارف کیا۔ ان طبقات میں ایک طبقہ سرکاری بابووں کا تھا جو انگریز سامراج کے وفادار تھے اور دوسرا طبقہ سوشل ریفارمرسٹ کا تھا جنہوں نے ہندوستانی معاشرے کی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کیں۔ فورٹ ولیم کالج نے اردو ہندی تنازعے کو جنم دیا جو آگے چل کر دو قومی نظریہ کی بنیاد بنااور دو قومی نے پاکستان اور ہندوستان کو جنم دیا جو اب بھی لسانی و مذہبی تضادات کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

میٹا ورس ہمارا مستقبل

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button