Features

حرم کا کبوتر 134 سال کی عمر میں چل بسا

حرم کا کبوتر 134 سال کی عمر میں چل بسا

ضیاء چترالی

شیخ عوض معوض کی بیت اللہ سے محبت کی عجیب داستان

دنیا بھر کے مسلمان کعبہ مشرفہ اور مسجد حرام سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ خدا کے اس پاک گھر کی زیارت کیلئے مشرق ومغرب سے مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔ مگر خانہ کعبہ اور مسجد حرام کے ساتھ محبت و عقیدت کا جو اظہار ایک سعودی معمر شخص نے کیا، اس کی مثال تاریخ میں ملنا ناممکن ہے۔

گزشتہ 100 برس سے مسلسل مسجد حرام میں باجماعت نمازیں پڑھتے رہے ،صرف ایک دفعہ ناغہ ہوا

”عوض معوض الصبحی“ نامی حرم پاک کا یہ عاشق گزشتہ روز انتقال کرگیا۔ اس کی عمر ایک سو چونتیس سال سے زائد تھی۔ وہ گزشتہ سو برس سے مسجد حرام میں باجماعت نمازیں پڑھتے رہے۔ اس دوران صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ”عوض الصبحی“ مسجد حرام میں باجماعت نمازیں نہ پڑھ سکے۔ یہ اس وقت (1979ء) کی بات ہے، جب حرم شریف پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ اس دوران چند روز تک حرم شریف میں باجماعت نمازوں کا اہتمام ہی نہیں ہو سکا تھا۔ اس کے علاوہ عوض الصبحی نے کبھی حرم شریف کی باجماعت نماز ترک نہ کی۔

عمر بھر حدود حرم سے باہر نہ نکلنے کی وجہ سے “حمامۃ الحرم” کا لقب دیا گیا

واضح رہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا اجر ایک لاکھوں نمازوں کے برابر ہے۔ نیکیوں کے خوگر اس بزرگ نے کتنا اجروثواب کمایا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس وقت مسجد حرام میں داخل ہوئے تھے، جب ان کی عمر صرف 16 برس تھی۔ اس کے بعد وہ حرم شریف کے ہو کر رہ گئے۔ اس دوران وہ ایک بار بھی مسجد حرام کی حدود سے باہر نہیں نکلے۔ اس لئے مکہ مکرمہ میں انہیں ”حمامة الحرم“ یعنی حرم شریف کے کبوتر کا نام دیا گیا۔

نماز کے بعد دیوانہ وار کعبے کے گرد چکر لگانا معمول تھا ، آخری عمر میں لاٹھی کے سہارے طوافِ کرتے

مکہ مکرمہ سے شائع ہونے والے اخبار ”مکہ نیوز“ کے مطابق عوض الصبحی اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ہر نماز میں مسجد حرام کی پہلی صف میں موجود ہوتے۔ وہ اپنے اس معمول پر گزشتہ سو برس سے عمل پیرا تھے۔ نماز کے بعد وہ دیوانہ وار مختلف دعائیں پڑھتے ہوئے کعبہ شریف کے گرد چکر لگانا شروع کردیتے تھے۔ پہلے وہ بغیر کسی سہارے کے خود طواف کیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں وہ بہت کمزور ہوگئے تھے۔ مگر کمزوری کے باوجود بغیر وہیل چیئر کے صرف لاٹھی کے سہارے اپنے رب کے مقدس گھر کا چکر لگاتے رہتے۔ ان کی کمر بھی بہت زیادہ جھک گئی تھی۔

آبائی تعلق سعودی علاقے “القاحہ” سے تھا ،ایک صدی قبل مکہ مکرمہ آئے تھے

”حرم شریف کے کبوتر“ کا قصہ بڑا عجیب ہے۔ ان کا تعلق سعودی علاقے القاحہ سے ہے۔ وہ تقریباً ایک صدی پہلے مکہ مکرمہ منتقل ہوئے۔ ان کے دل میں کعبہ شریف کی بے حد محبت تھی۔ مکہ میں قیام کے دوران شروع میں وہ روزانہ حرم شریف جاتے اور تمام نمازیں وہاں باجماعت ادا کر کے صرف فجر کے بعد گھر واپس آتے۔ تقریباً 12 برس تک ان کا یہ معمول رہا۔ بعد میں حق تعالیٰ نے اپنے گھر کے ساتھ ان کی محبت کی قدردانی کرتے ہوئے حرم شریف میں ان کے مستقل قیام کا انتظام فرما دیا۔

شروع میں بن لادن گروپ کے ملازم کے طور پر حرم میں کام کیا ،بعد میں دربان کی ملازمت ملی

ہوا یوں کہ اس دوران مسجد حرام کی تعمیر شروع ہوئی تو وہ اس میں کام کرنے لگ گئے۔ جب تک وہ اس تعمیراتی کمپنی (بن لادن گروپ) کے ساتھ منسلک رہے، وہ حرم شریف کے اندر ہی کام کرتے رہے۔ اس سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی حق تعالیٰ نے انہیں حرم شریف میں ”بواب“ یعنی دربان کی ملازمت سے نوازا۔ وہ مسجد حرام کے دروازوں پر ڈیوٹی سرانجام دینے لگے۔ ضعیف العمری میں وہ اس ملازمت سے ریٹائرڈ گئے تھے۔ مگر دونوں ملازمتوں کی پنشن انہیں ملتی تھی، جس سے ان کا اچھا گزارہ چل رہا ہے۔

دو عیدوں کے علاوہ پورا سال روزہ رکھنے ،رات کو عبادت کرنے کا معمول تھا

عوض الصبحی گزشتہ 111 برس سے مسجد حرام میں مقیم تھے۔ اس دوران وہ صرف ایک بار بیمار ہوئے اور انہیں اسپتال لے جایا گیا، جس سے وہ مسجد حرام کی چند نمازوں سے محروم ہوگئے۔ ان کے بیٹے عویض الصبحی کا کہنا ہے کہ جب سے میں نے اپنے والد کو دیکھا ہے وہ ہمیشہ (عیدین کے علاوہ) دن کو روزہ اور رات کو عبادت کرتے۔ صرف چند گھنٹے ہی آرام کرتے۔ ان کی 24 گھنٹے کی زندگی آخرت کی فکر میں گزرتی۔ دنیا میں ان کا کوئی دوست نہیں تھا اور نہ وہ کسی سے دنیوی باتیں کرتے تھے۔

زندگی کا سب سے بڑا سانحہ 1979 کی بغاوت کو قرار دیتے تھے جس میں پانچ سو حجاج شہید ہوئے تھے

حرم شریف میں اس طویل قیام کے دوران عوض الصبحی نے تمام حالات و واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ بتاتے تھے کہ سب سے بڑا سانحہ وہی تھا، جب 1979ء کے آخری دنوں میں باغیوں نے مسجد حرام پر قبضہ کیا تھا۔ اس دوران تقریباً پانچ سو حجاج کرام شہید ہوئے تھے۔ پھر فوج کے کمانڈوز نے آپریشن کر کے تمام باغیوں کو گرفتار کر لیا اور بعد میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ وہ کہا کرتے کہ میں نے تمام سعودی بادشاہوں بلکہ شریف مکہ کا دور بھی دیکھا ہے۔ اسی دور میں وہ حرم شریف کے مجاور بنے تھے۔ حق تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔

یہ بھی پڑھیں

اسلامو فوبیا اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button