Features

عراق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کی عمارت دریافت

عراق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کی عمارت دریافت

ضیاءچترالی

انبیائے کرام ؑ کی سرزمین کہلانے والے ملک ”عراق“ میں برطانوی ماہرین آثار قدیمہ نے دوران کھدائی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کی ایک عمارت دریافت کرلی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عمارت اس دور میں قلعے یا عبادت گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔

چار ہزار سالہ قدیم عمارت کا رقبہ فٹ بال گراؤنڈ جتنا ہے

عراق کے جنوب میں واقع قدیم ترین شہر ”اور“ میں دریافت ہونے والی عمارت 4 ہزار سال پرانی بتائی جارہی ہے اور اسی شہر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی اور آپ ؑ عرصہ تک اسی شہر میں رہائش پذیر رہے ہیں۔ دریافت شدہ عمارت کے احاطے سے قیمتی ترین تاریخی اشیا بھی برآمد ہوئی ہیں، عمارت کا رقبہ فٹ بال گراﺅنڈ جتنا ہے۔

برطانوی ماہرین کو “اور” شہر میں کھدائی کے دوران باقیات ملی ہیں

عراقی دارالحکومت بغداد سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ ”النہار“ کی رپورٹ کے مطابق، برطانوی ماہرین کی ایک ٹیم کافی عرصے سے عراق میں آثار قدیمہ کی کھوج لگانے میں مصروف ہے، اس ٹیم کا تعلق برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی سے ہے۔ گزشتہ دنوں برطانوی ماہرین کی اس ٹیم نے عراق کے جنوب میں واقع قدیم ترین شہر ”اور“ کے قریب ایک غیر آباد علاقے میں دوران کھدائی ایسی عمارت دریافت کی ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہے۔

عمارت قلعے یا معبد کے طور پر استعمال ہوتی تھی

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عمارت کم ازکم 4 ہزار سال پرانی ہے اور اسی زمانے میں عراق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی رہائش پذیر تھے اور بعد میں آپ نے فلسطین کی طرف ہجرت کی تھی۔ ماہرین کے مطابق، یہ عمارت اس زمانے میں قلعے یا کسی معبد کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور اس کا رقبہ ایک فٹ بال گراونڈ کے برابر ہے۔

دیوہیکل پتھروں سے تعمیر کی گئی بلڈنگ کا بنیادی ڈھانچہ برقرار

محقق ڈاکٹر اسیٹورٹ کیمبل کے مطابق 2 ہزار قبل مسیح میں اس سائز کی عمارت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس مقام سے کھدائی کے دوران ماہرین کو انتہائی تاریخی اور قیمتی اشیا بھی ملی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، دریافت ہونے والی عمارت تاریخی شہر ”اور“ سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ برطانوی ٹیم کے سربراہ ”جین مون“ کا کہنا ہے کہ عمارت کا بنیادی ڈھانچہ اپنی اصلی شکل میں برقرار ہے، کیونکہ اسے دیوہیکل پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا۔

سب سے چھوٹا پتھر 7 فٹ کا

عمارت میں استعمال ہونے والے چھوٹے سے چھوٹا پتھر بھی 7 فٹ سے کم کا نہیں ہے، جس سے اس کے معماروں کی جسمانی قوت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عمارت کی فصیل میں استعمال ہونے والے پتھر اس سے بھی بھاری بھرکم ہیں۔ جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ اس زمانے کی کوئی بہت ہی اہمیت کی حامل عمارت تھی۔

دریا فرات میں سیلاب کے باعث عمارت زیر زمین دفن ہوگئی تھی

رپورٹ کے مطابق، اس عمارت کے قریب سے ہی عراق کا مشہور دریا ”فرات“ بھی گزرتا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ یہ عظیم الشان عمارت دریائے فرات میں سیلاب آنے کے سبب زیر زمین دفن ہوگئی تھی، مگر ہزاروں سال گزرنے کے باوجود عمارت کی دیواروں پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ”اور“ شہر کئی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے، یہی شہر دو ہزار سال قبل مسیح میں چاند کو پوچنے والے فرقے کا مذہبی مرکز تھا، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دریافت ہونے والی عمارت اسی فرقے کی عبادت گاہ ہوگی۔

قلعہ ممکنہ طور پر نمرود کا ہوسکتا ہے ، ماہرین

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی اور نمرود نامی کافر بادشاہ کا دارالحکومت بھی یہی شہر تھا، اس لےے ممکنہ طور پر یہ نمرود کا کوئی قلعہ بھی ہوسکتا ہے، تاہم ماہرین اس حوالے سے مزید تحقیق کررہے ہیں۔ برطانوی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ جین مون کا کہنا ہے کہ تحقیق سے قبل کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔

احاطے سے انسانی ڈھانچے ،سونے کا بنا انسانی سر اور دیگر قیمتی اشیاء برآمد

رپورٹ کے مطابق، ماہرین کو اس عمارت کے احاطے سے انسانی ڈھانچے اور بیش قیمت خزانے بھی ملے ہیں، 16 انسانی ڈھانچوں کے ساتھ سونے کا بنا ہوا ایک انسانی سر بھی ملا ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید یہ قدیم بادشاہ ”توت“ کے مجسمے کا حصہ ہوسکتا ہے اور انسانی ڈھانچے شاہی خاندان کے افراد کے ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سونے اور چاندی و دیگر قیمتی دھاتوں سے بنے ہوئے آلات موسیقی بھی دریافت ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ”اور“ میں اب تک جتنی بھی تاریخی اشیا برآمد ہوئی ہیں ان میں سے حالیہ دریافت ہونے والی عمارت کو ماہرین کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے بھی امریکی اور یورپی ماہرین نے اس شہر سے قدیم ترین اشیا دریافت کی ہیں۔

معاہدے کے تحت برآمد شدہ نوادرات برطانوی شاہی میوزیم میں رکھے جائیں گے

النہار کی رپورٹ کے مطابق حالیہ دریافت ہونے والی تمام تاریخی اشیا کو برطانیہ کے شاہی میوزیم کی زینت بنایا جائے گا، عراق کی کٹھ پتلی حکومت کا اس حوالے سے برطانوی ماہرین سے پہلے ہی معاہدہ ہو چکا ہے، اس سے قبل بھی دریافت ہونے والی تاریخی اشیا کو ماہرین اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ عراق دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ طوفانِ نوح یہیں پر آیا تھا۔ اسی سرزمین پر سینکڑوں انبیائے کرام مبعوث کئے گئے، جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے مشہور ہیں۔ عراق سے ملنے والے آثارِ قدیمہ ثابت کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی یہاں کے لوگ باقاعدہ زبان، ثقافت اور مذہب رکھتے تھے۔ عراق کے شمال مشرق میں ”شانیدر“ کے غاروں سے 60 ہزار سال پرانے انسانی ڈھانچے برآمد ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے:

سیدنا موسی علیہ السلام کے معجزے کی سائنسی تصدیق

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button