ColumnsFeatures

کینیڈا کا اسلام دشمن نمبر ون اب اسلام کا شیدائی

کینیڈا کا اسلام دشمن نمبر ون اب اسلام کا شیدائی

ضیاء چترالی

”مجھے اسلام سے سخت نفرت تھی، بلکہ یوں سمجھئے کہ میں کینیڈا کا نمبر ون اسلام دشمن تھا۔ یہ مذہب مجھے بالکل زہر لگتا تھا۔ میرا تعلق ایک کٹر عیسائی مذہبی گھرانے سے ہے۔ میرے والد اور دادا اوپر تلے سب مذہبی پیشوا ہیں۔ بھائی کلیسا کے ٹرسٹی اور گھنٹا بجانے والے۔ لیکن میں ان سب سے زیادہ اسلام مخالف تھا۔ بچپن نے والد نے یہ بات دل میں بٹھا دی تھی کہ اسلام شیطانی مذہب ہے۔ جسے تلوار کے زور پر پھیلایا گیا۔ خونریری مسلمانوں کی فطرت میں شامل۔ ان کی بنیادی کتاب قرآن انہیں انسانوں کا خون بہانے اور دہشت گردی کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔

اسلام کی پاداش میں عزیز و اقارب نے تنہا چھوڑ دیا

ہم کینیڈا کے شہر سینٹ جونز (St. Johns) میں رہتے ہیں، جو ریاست Newfoundland کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ اب میں اسی اسلام کا دل و جاں سے شیدائی ہوں، جس کی نفرت میرے رگ و ریشے میں پیوست تھی۔ یہ انقلاب کیسے برپا ہوا؟ اس پر بات کرنے سے قبل آپ کو بتا دوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے سب کچھ کھودیا ہے۔ چونکہ کٹر مذہبی گھرانا ہے۔ اس لئے اہل خانہ، بلکہ عزیز و اقارب نے بھی مجھے چھوڑ دیا ہے۔ اب میں کسی سے نہیں مل سکتا۔“

قرآن کا ترجمہ پڑھ کر اسلام کی حقانیت دل میں اتر گئی

”میری اسلام دشمنی کو دوستی میں بدلنے کا معجزہ قرآن کریم کا ہے۔ دراصل جوان ہوکر میں نے سوچا کہ قرآن کا ترجمہ پڑھ کر تو دیکھوں کہ کیا وہ باتیں اس میں درج ہیں، جو مجھے میرے والد بتاتے ہیں۔ یقین جانئے شروع سے آخر تک سرسری نظر دوڑائی، مجھے ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ ہر چیز نارمل، بلکہ انسانی فطرت اور میرے افکار کے مطابق۔ دل میں کچھ خلش ضرور پیدا ہوئی، مگر اس کے باوجود بھی مسیحیت پر میرا ایمان چٹان کی طرح مضبوط تھا۔ تاہم مسیحؑ کی الوہیت (خدائی) کو ماننے کے باوجود اس پر میرا دل مطمئن نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ یہ خلش شک میں تبدیل ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ کلیسا میں ہمیں جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ درست اور منطقی نہیں ہے۔

حضرت عیسیٰ کو خدا ماننے کا عقیدہ دل میں کھٹکتا تھا

میرا دل کہتا تھا کہ مسیحؑ بھی دیگر انبیائے کرام کی طرح ایک نبی ہیں، خدا ہرگز نہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ شاید ہماری مذہبی کتاب میں تحریف ہوئی ہے۔ یہ ساری باتیں میں نے اپنے والد کے سامنے رکھیں۔ انہوں نے وہی گھسا پٹا جملہ دہرایا کہ اسلام شر ہی شر ہے۔ اس شیطانی مذہب کی کتب کے قریب بھی مت پھٹکو۔ اس کے بعد میں اپنی دادی کے پاس گیا، جو بڑی کٹر مسیحی ہیں۔ میں نے کہا کہ میرا دل نہیں مانتا کہ عیسیٰؑ خدا ہیں۔ وہ کہنے لگیں: نہیں، نہیں، نہیں…. تم کتاب مقدس کا ہی مطالعہ کرو، اسی میں تمہیں ہدایت ملے گی۔ لیکن وہ میرے سوالات کا کوئی جواب نہ دے سکیں۔

سورہ نساء میں حضرت عیسیٰ سے متعلق آیات پڑھ کر دنگ رہ گیا

اب میں نے خود سے تحقیق کا فیصلہ کرلیا اور قرآن کریم کا دوبارہ بہ نظر غائر مطالعہ شروع کردیا۔ اس سے ذہن کھلتا گیا۔ اس کے بعد میں ایک مقامی مسجد گیا اور اپنے سوالات امام صاحب کے سامنے رکھ دیئے۔ کافی تسلی بخش جوابات ملے۔ گھر والوں کو اس کا پتہ چلا تو مجھے سخت دھمکی دی گئی کہ تم نے ”دہشت گردوں“ کا مذہب اختیار کیا تو ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ میں نے اسلام پر ہونے والے تمام اعتراضات پر تحقیق شروع کر دی تو پتہ چلا کہ وہ سب باطل اور فضول ہیں۔ حالانکہ ابھی تک میں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ قرآن کریم کا مطالعہ جاری تھا۔ یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا:
ترجمہ: ”اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو قتل کیا، حالانکہ انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی، بلکہ ان (یہودیوں) کے لئے (عیسیٰ سے) ملتا جلتا (ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔“ (سورة النساء: 157)

یہ آیت پڑھی اور میں مبہوت ہوکر رہ گیا۔ میں تو ایسی ہی بات سننا چاہتا تھا۔ یہی تو میرا عقیدہ ہی یہ بن چکا تھا۔ گویا گوہر مقصود ہاتھ لگ چکا تھا۔ یہ آیت پڑھنے کے بعد اب قبول اسلام میں مزید تاخیر کا کوئی حیلہ بہانہ نہیں تھا۔ سیدھا مسجد پہنچا اور کلمہ شہادت پڑھ لیا۔ اب میرے سارے اشکالات اور ذہنی خلجانات دور ہو چکے تھے۔ جن باتوں پر میری عقل نے رہنمائی کی تھی، جن کو میں صدق دل سے مانتا تھا، وہ سب اسلام کے عین مطابق تھیں۔

گھر اور خاندان سے نکالے جانے کے بعد سر چھپانے کو بھی جگہ میسر نہ تھی

بہرحال اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے گھر سے نکالنے کی دھمکی پہلے ہی دی جا چکی تھی۔ مگر پھر بھی میں گھر گیا اور اپنے والدین کے سامنے اعلان کیا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ دونوں آگ بگولہ ہوگئے۔ میرے ہاتھ میں جائے نماز تھی، والد صاحب اسے جلانے لگے۔ میں جلدی سے اپنے کمرے میں جا کر قرآن کے نسخے کو چھپایا کہ اسے بھی نہ جلا دیں۔ میں گھر سے نکلا اور سیدھا بڑے بھائی کے گھر پہنچا، میرے دادا اور دادی انہی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کو موبائل پر والدین نے پہلے ہی میری ”گمراہی“ کی اطلاع دی تھی۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ان کا رویہ جارحانہ نہیں تھا۔ انہوں نے صرف یہ پوچھا کہ تم نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اب جاب کی جگہ پر نماز کیسے پڑھو گے؟

میں نے کہا میرے ذہن میں کئی سوالات تھے، ان کے تشفی بخش جواب اسلام نے دیدیئے، اس لئے میں نے اس دین کو قبول کرلیا۔ یہی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہیں سوالات سے بچنا چاہئے، بس کتاب مقدس میں جو کچھ ہے، اسے آنکھیں بند کرکے ماننا چاہئے، چاہے عقل میں آئے یا عقل اس کا انکار کرے، اسی صورت تم مسیحی بن سکتے ہو۔ میں نے کہا میں نے کتاب مقدس اس لئے پڑھی کہ صحیح مسیحی بنوں، لیکن اسی سے تو ان سوالات نے جنم لیا۔

یہ سن کر وہ طیش میں آگئے اور مجھے مارنے لگے۔ پھر دادا اور دادی پر چیختے ہوئے کہا کہ یہ ہے تمہاری تربیت اور تعلیم کا نتیجہ! میں نے دادا دادی کو نرمی سے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے مجھے جو تعلیم دی تھی، وہ غلط تھی، آپ نے مجھے جو راہ راست دکھانے کی کوشش کی تھی، وہ صرف گمراہی تھی۔ یہ سن کر میرا بھائی چیخ پڑا اور کہا کہ فوراً میرے گھر سے نکل جا۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اپنا بیگ اٹھایا اور گھر سے نکل پڑا ایک نامعلوم منزل کی جانب! اب سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ تو نہیں تھا، لیکن اپنے فیصلے پر میرا ضمیر بڑا مطمئن تھا۔

دوسروں کو بھی خود اسلام کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتا ہوں ، نو مسلم کے تاثرات

اب میں اپنے والدین، دادا دادی اور بھائیوں کیلئے دعائیں کرتا ہوں کہ مقلب القلوب ذات ان کے دل پھیر دے۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا، لیکن خیر! یہ چند روزہ زندگی ہے، جیسے کیسے گزر جائے گی۔ اصل زندگی تو آخرت کی ہے۔ دنیا تو محض ایک امتحان گاہ ہے، جس میں کچھ لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور کچھ ناکام۔ میں اس امتحان میں کامیابی چاہتا ہوں۔ یہی میرا مقصد حیات ہے۔ رب کا شکر کہ اس نے مجھے ہدایت سے نوازا اور مسلمان بنایا۔ اب مرتے دم تک میں مومن ہی رہوں گا۔ اسلام پر اب میرا ایمان سو فیصد ہے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ لوگوں کی باتوں میں آنے کے بجائے خود تحقیق کرنی چاہئے۔ بس تھوڑا وقت نکالئے۔ میں نے ایسا ہی کیا اور ہدایت پا گیا۔“ (حق تعالیٰ استقامت عطافرمائے)
(آپ کا نو مسلم بھائی: مسٹر ڈرو، سن پیدائش: 1988 سینٹ جونز سٹی، اسٹیٹ فاونڈ لینڈ، کینیڈا)

ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ،11 ملین لوگوں کو مسلمان کرنے والے عظیم داعی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button