Columns

استنبول یورپ اور ایشیا کو ملانے والا تاریخی شہر

استنبول یورپ اور ایشیا کو ملانے والا تاریخی شہر

نوید نقوی

ہم برصغیر کے مسلمان بہت جذباتی ہیں اور دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں ہم ان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عرب ہوں یا ترک اور یا پھر فارس والے ہماری قدر کرتے ہیں۔

جنگ عظیم اول ،خلافت عثمانیہ اور مسلمانان ہند

پاکستان بننے سے بہت پہلے 1918 تک ہونے والی چار سالہ جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کو شکست ہو چکی تھی اور ڈر تھا کہ برطانیہ اور اس کے اتحادی خلافت کے ٹکڑے کر دیں گے اس بات کو لے کر مسلمانان ہند کو بہت فکر لاحق ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایک عظیم الشان تحریک چلی جس میں ہزاروں ماؤں،بہنوں نے اپنے زیورات تک عطیہ کر دیے اور ہزاروں نوجوانوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں تاکہ خلافت بچ جانے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کی آخری خلافت کا خاتمہ کر دیا، اس کے نتیجے میں کئی چھوٹے چھوٹے ملک وجود میں لائے گئے۔

یورپ ترکوں کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح کو آج تک نہیں بھول سکا

دراصل یورپ قسطنطنیہ کی فتح کو جو ترکوں نے آج سے 500 سال پہلے حاصل کی تھی کبھی نہیں بھول سکا اور عثمانی خلافت کو ختم کر کے اپنے تئیں بدلہ لینے کی کوشش کی لیکن الحمدللہ ہمارا برادر اسلامی ملک ترکیہ آج بہت طاقتور اور ترقی کی نئی راہیں طے کر چکا ہے۔
ترکیہ کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے اور فوجی قوت کے لحاظ سے بھی یہ ملک کافی مضبوط ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والی آرمینیا اور آذربائجان کے درمیان ہونے والی جنگ میں آذربائجان نے ترک جنگی ڈرون استعمال کرتے ہوئے آرمینیا کو شکست فاش دی۔

پاکستان اور ترکی کے مضبوط برادرانہ تعلقات

بین الاقوامی سیاست میں پاکستان اور ترکیہ کو ایک پیج پر سمجھا جاتا ہے اور ہمیشہ ان دو ممالک کا موقف بھی ایک ہوتا ہے۔ کشمیر، فلسطین، شام ، یمن ، افغانستان، آرمینیا، آذربائجان مسئلے پر ان دو ممالک کی سرکاری پالیسی بھی ایک ہوتی ہے ان کی دوستی بہت سے ممالک کو کھٹکتی بھی ہے جن میں انڈیا سر فہرست ہے۔
حالیہ آنے والے ہولناک زلزلے میں ہزاروں شامی اور ترک شہریوں کی وفات پر پاکستان نے بڑھ چڑھ کر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کی ہے اور اس زلزلے میں کروڑوں ڈالرز کے نقصان پر پاکستانی عوام بھی شامی اور ترک بھائیوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

ترکی کا محل وقوع

ترکیہ کی سرحدیں 8 ممالک سے ملتی ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال مشرق میں جارجیا، مشرق میں آرمینیا، ایران اور آذربائیجان کا علاقہ نخچوان اور جنوب مشرق میں عراق اور شام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود، مغرب میں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ اور جنوب میں بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔

ترکیہ کا کل رقبہ 783,356 مربع کلومیٹر اور اس کی آبادی تقریباً 9 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ انقرہ اس کا دارالحکومت ہے لیکن اس کا پرانا دارالحکومت استنبول تھا اور آج ہم سیر بھی اسی تاریخی شہر کی کریں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے استنبول کی فتح کی خوش خبری

استنبول وہ بابرکت شہر ہے جس کی فتح کی خوشخبری خود ہمارے پیغمبر دے چکے ہیں۔ بازنطینی سلطنت کا یہ عظیم شہر کسی زمانے میں عیسائیت کا مرکز تھا پر اب یہ مسلمانوں کا مرکز ہے اور اس شہر میں عثمانی ترکوں کی طاقت کی نشانیاں قدم قدم پر عام ہیں۔ شہر استنبول کی جغرافیائی حیثیت دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتی ہےاس شہر نے تاریخ عالم کے جتنے نشیب و فراز دیکھے شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے شہر کو دیکھنا نصیب ہوئے ہوں۔

قسطنطنیہ اور حضرت ابو ایوب انصاری

استنبول کا قدیم نام قسطنطنیہ تھا۔ مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 676ء میں کیا۔ لیکن سات سال محاصرہ کرنے کے بعد بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جلیل القدر صحابی حضرت ابوایوب الانصاریؓ اس معرکے میں شریک تھے۔ اِسی دوران آپ کا اِنتقال ہو گیا اور یہیں استنبول میں دفن ہوئے، مسجد ابو ایوب سلطان کے قریب واقع حضرت ابوایوب الانصاریؓ کا مزار دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز ہے تاہم ترکی کے رہنے والوں کی عقیدت ناقابل بیان ہے۔ ترکی کے لوگ آپ کو ایوب سلطانؓ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
مسلمان سات سو سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آخری حملہ کرنے کے بعد 29 مئی 1453ء کو سلطان محمد فاتح نے 53 روزہ محاصرے کے بعد قسطنطنیہ کو فتح کرلیا۔ محاصرے کے دوران عثمانی افواج کی توپوں سےتھیوڈوسس ثانی کی قائم کردہ دیواروں کو زبردست نقصان پہنچا۔ اس طرح استنبول بروصہ اور ادرنہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کا تیسرا دارالحکومت بن گیا اور یہ شہر ماضی میں یونانی، رومی اور مسلمان سلطنتوں میں دارالحکومت جیسی اہم حیثیت کا حامل رہا ہے۔

قسطنطنیہ کی فتح سے 1400 سالہ رومن سلطنت کا خاتمہ اور عثمانی سلطنت کا دور عروج شروع ہوا

قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔

استنبول کی تاریخی اور جغرافیائی اہمیّت

جدید ترکی میں یہ ایک اہم تجارتی و ثقافتی مرکز کی وجہ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ استنبول دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو دو براعظموں ایشیاء اور یورپ کو ملاتا ہے۔ استنبول آبنائے باسفورس کے جنوبی علاقے میں دونوں جانب واقع ہے۔ یہ ایک جانب یورپ کے علاقے تھریس اور دوسری جانب ایشیا کے علاقے اناطولیہ تک پھیلا ہوا ہے اس طرح یہ دو براعظموں میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے۔
استنبول تاریخ عالم کا واحد شہر ہے جو تین عظیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے جن میں 330ء سے 395ء تک رومی سلطنت 395ء سے 1453ء تک بازنطینی سلطنت اور 1453ء سے 1923ء تک سلطنت عثمانیہ شامل ہیں۔ 1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد دارالحکومت انقرہ منتقل کردیا گیا۔

سات پہاڑیوں کا شہر

اس شہر کی ثقافت بھی یورپ اور ایشیا کی مشترکہ وراثت ہے۔ یہ ایک کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ یورپ کا دوسرا بڑا شہر بھی ہے۔ شہر کو سات پہاڑیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کا سب سے قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد قائم ہے۔

استنبول میں منی ترکیہ اور تاریخی مقامات کے ماڈل

استنبول میں دیکھنے کی ایک بہت ہی خوبصورت جگہ ’’ منی ترکیہ‘‘ یعنی چھوٹا ترکی ہے۔ جو مرمرا سمندر کے قریب ایک وسیع و عریض سبزہ زار میں قائم ایسی جگہ ہے جہاں پورے ملک کے تاریخی مقامات کے ماڈل ایک دلفریب اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں اور دیکھنے والا یوں محسوس کرتا ہے جیسے اس نے یہ تمام مقامات اصل میں دیکھ لئے ہوں۔ ہر ماڈل کے باہر ایک بٹن لگا ہوا ہے۔ جسے دبانے سے آڈیو ریکارڈنگ چل پڑتی ہے جو اس مقام کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پورا ترکی اس پارک میں سمٹ گیا ہو۔
خلافت عثمانیہ کے مختلف ادوار میں ترکی کے مختلف حصوں میں قائم ہونے والی تاریخی عمارات، لائبریریاں، دینی مدرسے اور مساجد کے ماڈل اسلام کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔

سلطان فاتح محمد پل اور باسفورس پل

یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں کو ملانے والا پُل عظیم سلطان فاتح محمد (مہمت) کے نام سے منسوب ہے۔ استنبول میں ایک اور قابل دید پُل اتاترک پُل یا باسفورس پُل ہے جو جرمن اور انگریز معماروں کا تعمیر کردہ ہے۔ استنبول شہر کا طرز زندگی مجموعی طور پہ یورپی ثقافت سے میل کھاتا نظر آتا ہے مگر اس کے ایشیائی اور یورپی حصوں میں موجود تاریخی عمارتیں مختلف ادوار کے قصے سناتی نظر آتی ہیں۔ ان عمارتوں کی ایک ایک اینٹ اور پتھر سے تاریخ جھلکتی ہے۔

ایشیائی استنبول

ایشیائی استنبول میں مقامی بازاروں کے ساتھ ساتھ تاریخی طرز کے بازار سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ اس حصے پہ سلطنت عثمانیہ کا اثر یہاں موجود تاریخی مساجد، آبشاروں، فواروں، اور محلات سے عیاں ہے۔ باسفورس میں واقع قزقلاسی یعنی میڈن ٹاور اپنی خوبصورت طرز تعمیر اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے پُر کشش ہے۔ یورپی استنبول بھی اپنے دامن میں بہت سے ادوار میں تعمیر کی گئی عمارتیں سمیٹے ہوئے ہے۔

آیا صوفیہ کی تاریخی عمارت

آیا صوفیہ کی عمارت، جو کہ ابتدائی طور پہ ایک چرچ تھی، سلطنت عثمانیہ میں ایک اہم مسجد کے طور پہ استعمال کی جاتی رہی ہے۔ بزنٹائن طرز تعمیر کی اس شاہکار عمارت کا ڈیزائن سلطنت عثمانیہ کی بہت سی مساجد کے لیے نمونے کے طور پہ استعمال ہوا ہے۔
مسجد سلیمانی یعنی نیلی مسجد سلطنت عثمانیہ کے عظیم سلطان سلیمان کے نام سے منسوب ہے اور اس مسجد کے گنبد اور چھ ستون اپنی منفرد تعمیر کی وجہ سے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔

توپ کاپی محل

توپ کاپی محل ایک عرصے تک سلطنت عثمانیہ کے مرکزی محل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا ڈیزائن اور طرز تعمیر آج بھی شاندار ماضی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مندرجہ بالا عمارات کے علاوہ بہت سی دیگر تاریخی عمارات و مقامات اس شہر کی اہمیت کو دو چند کرتے ہیں۔ جدید ترکی کے اس جدید استنبول میں استقلال سٹریٹ کے آخری سرے پہ واقع تقسیم سکوائر کو شہر کے اہم تجارتی و ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا بھر سے آۓ سیاح ، طلبا اور مقامی افراد یہاں خریداری کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ یہ چوک ترک سیاست میں بھی کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

دو برا اعظموں کو ملانے والا شہر

استنبول دو براعظموں کو ملانے والاعظیم شہر ہے جو ماضی کی عظیم الشان سلطنتوں کے عروج و زوال کی داستانیں اور دو بر اعظموں کی ثقافتیں اپنے دامن میں سمیٹ کر دور جدید کے باسیوں کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔ اس شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ انسان کی اداسی دور کرکے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے، خوبصورت اور پرکشش ترک لوگ دنیا بھر میں خوبصورتی اور اعلیٰ اخلاق کے حوالے سے اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔ بین البراعظمی شہر استنبول یوں تو تعلیمی اداروں سے بھرا ہوا ہے اور ہر طرف سکول، کالج اور یونیورسٹیاں نظر آتی ہیں لیکن فاتح یونیورسٹی اس لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ یہاں جدیدعلوم کی تعلیم کچھ اس انداز میں دی جاتی ہے کہ بہت سے اہل مغرب بھی حصول تعلیم کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں آپ کو ہر قدم پر تاریخ بکھری پڑی ملتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ خاص طور پر یونانی اس عظیم الشان شہر کے مسلمانوں کے ہاتھ میں جانے کو نہیں بھول سکے ہیں جس دن یہ شہر فتح ہوا اس تاریخ کو آج بھی یونانی منحوس سمجھتے ہیں نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے کے لیے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں خیر یورپ والے جو سوچیں یا سمجھیں ہماری خوشی اس بات میں ہے کہ یہ شہر بھی اور ملک بھی یورپ کے ہم پلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

سوڈان کا ساحلی شہر جو سیاحت کے علاوہ جاسوسوں کا بھی مرکز رہا ہے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button