Picnic PointsSindh

سندھ کا مری گورکھ ہل

سندھ کا مری گورکھ ہل

نوید نقوی

مایوسی کے ماحول میں امید کی کرن

سیلاب کی تباہ کاریوں نے سندھ کے بیشتر حصے کو متاثر کیا ہے جس میں دادو ضلع بھی شامل ہے ، یہاں کے باسیوں کو کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے مایوسیوں کے اس ماحول میں امید کے دیے روشن کرتے ہوئے ہم آپ کو اسی ضلع کا ایک ایسا خوبصورت مقام دکھائیں گے جو اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔

سندھ کا وہ علاقہ جہاں درجہ حرارت نقظہ انجماد سے نیچے آتا ہے

یہ علاقہ سطح سمندر سے5600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔گرمیوں میں بھی یہاں کا درجہ حرارت 10 سے15 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جبکہ موسم سرما میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا جاتا ہے ۔

پاکستان میں سب جانتے ہیں کہ سندھ میں شدید گرمی پڑتی ہے اور گرمیوں میں درجہ حرارت ناقابل برداشت حد تک پہنچ جاتا ہے۔ انسان، حیوان‘ چرند ، پرند سب سائے کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گزشتہ کچھ سالوں سے سندھ سمیت پورے ملک کا درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے۔ اس سال بھی شدید گرمی کی لہر نے بدلتے موسموں کی طرف اشارہ کیا ہے ،اب بھی وقت ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کے آگے بند باندھا جاسکتاہے۔ ایک تدبیر کے طور پر پورے ملک میں ایمرجنسی بنیادوں پر شجر کاری مہم شروع کرنی چاہئے۔

سندھ کے ہر باسی کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ گرمیوں کے موسم میں شمالی علاقوں کی طرف سفر کرسکے اس لیے ہم آج سندھ کے ضلع داود میں ایک ٹھنڈے اور پرفضا مقام ’’ گورکھ ہل‘‘کی سیر کروائیں گے۔

ضلع دادو سندھ

گورکھ ہل کے تذکرے سے پہلے ضلع داود کا بھی مختصر تعارف ہوجائے ۔ دادو کو1931 میں ضلع بنایا گیا تھا۔2017 کی مردم شماری کے مطابق اس کی کل آبادی1550390نفوس پر مشتمل ہے۔ دادو سندھ کا 11 واں اور پاکستان کا52 واں بڑا شہر ہے۔ اس کی ڈویژن حیدر آباد ہے اور اس سے160 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس کی چار تحصیلیں ہیں جن میں دادو‘ خیر پور ناتھن شاہ‘ جوہی اور مہر شامل ہیں۔ ضلع کا کل رقبہ7866 مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے ساتھ جامشورو‘ نوشہرہ فیروز‘ شہید بے نظیر آباد اور قمبرشہداد کوٹ کے اضلاع لگتے ہیں۔
اس ضلع کی کل 52 یونی کونسلز ہیں۔ یہاں سندھی اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ شہری علاقوں میں اردو رابطے کی زبان ہے۔ اس ضلع کی سر حد بلوچستان کے ضلع خضدار سے بھی ملتی ہے۔

گورکھ ہل جہاں سردیوں میں برف باری ہوتی ہے

صوبہ سندھ میں برف باری اور گرمیوں میں ایک ٹھنڈے علاقے کا نام سن کر بہت سے لوگوں کو یقین نہیں آتا لیکن گورکھ ہل واقعی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سردیوں میں برف باری ہوتی ہے۔ اگر آپ مہم جوئی اور نئی جگہیں تلاش کرنے کے شوقین ہیں تو آپ کوگورکھ ہل کی طرف ضرور جانا چاہئے۔ یہ ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے جہاں تک بہت سے لوگوں کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے یہاں رش نہیں ہوتا اور آپ سکون سے قدرت کے شاہکاروں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

جس ہوٹل پر زیادہ ٹرک کھڑے نظر آئیں وہیں رک جائیے

کراچی ‘ حیدر آباد موٹر وے اور پھر انڈس ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے400 کلو میٹر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے کرکے آپ گورکھ ہل پہنچ سکتے ہیں ۔جب آپ پاکستان میں ہائی وے پرسفر کر رہے ہوں تو سڑک کنارے جس ہوٹل پر سب سے زیادہ ٹرک کھڑے نظر آجائیں آنکھ بند کرکے وہیں رک جائیں کیونکہ ڈرائیور حضرات اچھے کھانے کے معاملے میں ذرا بھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ایسے ہوٹلوں پر آپ کو کھانا اور چائے بھی اعلیٰ معیار کی مل جائے گی ۔

جامشورو سے سیہون کا دل فریب سفر

جامشورو سےسیہون کا راستہ دلفریب مناظر سے بھر پور ہے۔ دائیں طرف دریائے سندھ اور بائیں جانب بلند و بالا پہاڑیاں ایک جادوئی منظر پیش کرتے ہیں۔ سیہون سے پھر ضلع داود کے چھوٹے شہر واہی پاندھی کی طرف سفر کیا جاتا ہے۔ واہی پاندھی گورکھ ہل جانے کے لیے ایک طر ح کا بیس کیمپ ہے ۔ جہاں سے جیپ کے ذریعے گورکھ ہل پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں نئی نویلی چمکتی دمکتی گاڑیوں کے پر جلنے لگتے ہیں کیونکہ آگے سارا راستہ پتھریلا ہے اور سڑک کی سہولت ناپید ہے۔

سخت جان فور بائی فور واحد آپشن

ان راستوں پر صرف سخت جان فوربائی فور جیپ ہی چل سکتی ہے۔ یہ بھی کوئی عام جیپیں نہیں ہوتیں بلکہ تبدیلی کروا کر انہیں اس سفر کے لیے1000 سی سی سے1600 سی سی بنایا جاتا ہے۔ ان گاڑیوں کو چلانے والے ڈرائیور بھی معمولی لوگ نہیں بلکہ سالہا سال ان ہی پتھریلے راستوں پر گاڑیاں چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں ۔صرف یہ سر پھرے ڈرائیور ہی ان خطرناک راستوں پر ڈرائیونگ کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔

واہی پاندھی سے گورکھ ہل کا فاصلہ ہے تو صرف50 کلو میٹر لیکن اسے طے کرتے کرتے اڑھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ تمام راتہ سنگلاح پہاڑوں سے اٹا پڑا ہے۔ جولائی کے گرم موسم میں جب سورج آگ برساتا ہے تو اس کی تپش پہاڑوں سے ٹکرا کر چہرے کو جھلسا دیتی ہے ۔ جیپ34 کلو میٹر کا سفر طے کرکے آہستہ آہستہ بلندی کی طرف بڑھتی ہے تو درجہ حرارت میں کمی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ ان علاقوں میں زیادہ تر خانہ بدوش لوگ رہتے ہیں جو اپنا مال مویشی چرا کر گزارا کرتے ہیں۔ جب گورکھ ہل پہنچ جاتے ہیں تودرجہ حرارت میں کافی کمی ہوچکی ہوتی ہے اور موسم حیرت انگیز طور پر خوشگوار محسوس ہوتا ہے ۔

سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا قابل دید نظارہ

یہاں سورج ڈوبنے کا نظارہ کرنا حیرت انگیز خوشی کا احساس دلاتاہے۔ یہ ایک دلفریب منظر ہوتا ہے جب آپ پہاڑ کی بلندی سے یہ نظارہ کرتے ہیں تو ایک کے بعد ایک پہاڑی پر اندھیرا ہوتا نظر آتا ہے اور چند لمحوں بعد ستارے بھی اسی طرح نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پر آسمان خود سے انتہائی قریب معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ آپ ساری رات تارے گن کر گزار سکتے ہیں ۔گورکھ ہل میں غروب آفتاب کی طرح طلوع آفتاب کا منظر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔یہاں چڑیوں اور دیگر پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔

رہائش کےلئے بہتر انتخاب سرکاری ہوٹل

گورکھ ہل میں پرائیویٹ اور حکومت سندھ کے زیر انتظام ہوٹل موجود ہیں۔ کوشش کریں حکومت کے زیر انتظام ہوٹلوں میں رہائش اختیار کریں کیونکہ یہاں سندھ حکومت کی جانب سے گورکھ ہل ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنائی گئی ہے جو سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے اور اس کی کارکردگی کم وسائل کے باوجود شاندار ہے ۔یہاں اگر آپ رات کو بھی رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو گرم کپڑے لازمی ساتھ لائیں کیونکہ رات کے وقت درجہ حرارت کافی کم ہوجاتا ہے۔ یہاں آنے والوں کے لیے ہموار گزر گاہ بنائی گئی ہے اور حفاظت کے لیے ریلنگ بھی موجود ہے۔

بے نظیر ویو پوائنٹ

اس جگہ سے صوبہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ سامنے بلوچستان کے ضلع خضدار میں کیرتھر کے مٹیاسے‘ چٹیل پہاڑ نظر آتے ہیں اس جگہ کا نام سابق وزیراعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے منسوب ’’بے نظیر ویو پوائنٹ‘‘ رکھا گیا ہے۔

گورکھ ہل نام پڑنے کی وجہ

ہل اسٹیشن سطح سمندر سے5600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔گرمیوں میں بھی یہاں کا درجہ حرارت 10 سے15 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جبکہ موسم سرما میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا جاتا ہے ۔گورکھ ہل نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں یہاں بھیڑیے ہوا کرتے تھے جو مویشی کھا جایا کرتے تھے۔ کچھ روایات کے مطابق برسوں پہلے ایک سادھو سری گورکھ ناتھ اس علاقے میں رہا کرتے تھے اس طرح اس پہاڑ کا نام گورکھ پڑ گیا۔

سنسکرت کی روایت

سنسکرت کی ایک روایت بتاتی ہے کہ گورکھ کے معنی مویشیوں کو چرانے کے ہیں جبکہ سندھی زبان میں لفظ گورکھ کے معنی مشکل اور دشوار گزار کے ہیں۔نام کا مطلب کچھ بھی ہو ایک بات طے ہے کہ گورکھ ہل کا قدرتی حسن یہاں آنے والوں کی سانسیں روک دینے کے لیے کافی ہے۔ چاروں جانب دھند میں لپٹی پہاڑیوں اور خطرناک کھائیوں کا نظارہ انسان پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ اگر آپ بھی چلچلاتی گرمی سے جان چھڑا کے کسی ٹھنڈے سیاحتی مقام کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو گورکھ ہل اسٹیشن سے بہتر کوئی جگہ نہیں ۔ یہاں برف باری دیکھ کر آپ بھی رشتہ داروں اور دوستوں کو بتاسکتے ہیں کہ ہاں واقعی سندھ میں بھی برف باری ہوتی ہے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیے: 

وادی کمراٹ پاکستان کا سویٹزرلینڈ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button