University

سر سید احمد خان کا علی گڑھ کالج

سر سید احمد خان کا علی گڑھ کالج

جبران عباسی

ہندوستان کی تیسری سب سے بہترین یونیورسٹی علی گڑھ یونیورسٹی ہے جو انڈیا ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا مشترکہ تعلیمی ورثہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو جدید سائنسی علوم سے روشناس کرانے اور ان کو نوآبادیاتی دور کی برٹش انڈین بیوروکریسی سے منسلک کرنے میں علی گڑھ یونیورسٹی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

سرسید ،دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان

علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا نے ہندوستان کی تحریک آزادی اور قیام پاکستان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سر سید کو دو قومی نظریہ کا موجد سمجھا جاتا ہے۔

جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا استحصال

21 ستمبر 1857 کو ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے خود کو مقبرہ ہمایوں پر انگریزوں کے حوالے کر دیا اور یوں مسلمانوں کا ہندوستان پر سے 800 سالہ اقتدار کا ہمیشہ کےلئے خاتمہ ہو گیا۔

آزادی کی یہ جنگ ہندوؤں اور مسلمانوں نے برابر لڑی تھی مگر انگریزوں کی ظلم کی تان سب سے زیادہ مسلمانوں پر ٹوٹی۔ شہر بےمثال دہلی کو لوٹ لیا گیا ، دہلی کے شرفا کو توپوں کے آگے باندھ کر اڑا دیا گیا۔ مغل شہزادوں کے سر کاٹ کر طشتری میں بہادر شاہ ظفر کو پیش کئے گے اور ان کو برما جلاوطن کر دیا گیا۔

1860 کی دہائی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے ہندوستان کا اقتدار سنبھالا تو نئے ادارے اور محکمے قائم کئے گے جن میں مسلمانوں کی ملازمتوں پر غیر اعلانیہ پابندی تھی۔ مسلمانوں کو ملازمتیں نہ ملنے کی دوسری وجہ مسلمانوں کے ہاں شرح خواندگی کا کم ہونا تھا۔

اسی پس منظر میں ایک نوجوان مسلمان افسر نے یہ عزم کیا کہ وہ ہندوستان کے لٹے پٹے مسلمانوں کو سائنسی و جدید علوم سے آراستہ کرے گا اور ان پر انگریزی ملازمت کے بند دروازے بحال کرے گا، تاج برطانیہ سے بگڑے رشتے کو استوار کرے گا اور مسلمانوں کو زبوں حالی سے خوشحالی کی طرف لے جائے گا۔

سر سید احمد خان اور جنگ آزادی 1857

1857 کی جنگ آزادی کے اوائل دنوں میں انگریزوں پر شدید حملے کئے گئے تھے۔ بجنور میں انگریزوں کا قتل عام ہوا مگر وہاں کے ایک مسلمان افسر اپنی جان پر کھیل کر کچھ انگریز خاندانوں کی جان بچانے میں ضرور کامیاب ہوئے۔

جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ان کو صدرالصدور کے عہدے سے نوازا اور وہ اسی حثیت میں انگریز ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور سر کا خطاب حاصل کیا۔ یہ شخص سر سید احمد خان تھے جنہیں جدید ہندی مسلمانوں کا بانی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف بر صغیر کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سر سید احمد خان کے جنگ آزادی کے دوران کردار اور انگریزوں سے ان کی قربت کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتا ہے ۔

سید احمد خان: سماجی و علمی پس منظر

سر سید احمد خان دہلی کے ایک معزز خاندان میں میر متقی کے ہاں 1817 میں پیدا ہوئے۔ سر سید کا خاندان صدیوں سے مغل دربار میں اعلی فرائض سر انجام دیتا آیا تھا۔ سر سید احمد کے دادا دو مرتبہ مغل شہنشاہ کے وزیراعظم رہ چکے تھے۔ سر سید کے والد بھی بادشاہ اکبر دوم کے وزیر تھے اور آپ نے دہلی میں سب سے پہلا پرنٹنگ پریس کھولا اور ایک روزنامچہ جاری کیا۔

سر سید کی والدہ عزیزالنسا کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ مذہبی رحجان رکھتی تھیں اور انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اسلام کی مکمل مذہبی تعلیم دی ۔ یہی وجہ ہے سر سید سائنسی انداز فکر اپنا کر بھی کبھی اسلام سے دور نہ ہوئے۔

اس زمانے میں اگرچہ باقاعدہ سکول صرف انگریز علاقوں جیسے کلکتہ وغیرہ میں تھے تاہم دہلی کے شرفاء اپنی اولادوں کو گھر پر ہی بنیادی تعلیم فراہم کرتے تھے۔

سید احمد خاں نے بھی اردو ، فارسی ، فلکیات ، حساب ، گرائمر اور دینیات کی تعلیم گھر میں حاصل کی۔

سر سید طب کے شعبے میں اپنا نام کمانا چاہتے تھے مگر والد کے جلد انتقال کی وجہ سے سر سید کا خاندان معاشی پریشانیوں کا شکار ہو گیا۔

یوں ان کو طب کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک نائب کلرک کی حثیت سے ملازمت حاصل کرنا پڑی۔ اگرچہ ان کو بہادر شاہ ظفر کے دربار سے بھی ایک پیشکش آ چکی تھی لیکن نوجوان سید احمد کو باور تھا کہ مغلیہ دربار کے پاس اب گنتی کی سانسیں ہیں۔ انگریز سامراج دہلی کے دروازوں تک پہنچ آیا ہے۔

نائب کلرک سے صدرالصدور

سر سید احمد خان نے 1838 میں آگرہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاں نائب کلرک سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ نائب کلرک کی حثیت سے آپ نے فتح پور سیکری میں بھی خدمات انجام دیں۔

جلد ہی آپ کی ذہانت اور فہم شناسی انگریزوں کے ہاں کھل گئی اور آپ کو چیف امین بنا کر پہلے دہلی اور پھر بجنور میں تعینات کیا گیا۔

جب 1857 کے ہنگامے پھوٹے تو آپ بجنور میں تعینات تھے۔ آپ نے کئی انگریز مرد ، خواتین اور بچوں کی جانیں بچائیں۔ جنگ آزادی کے خاتمے کے بعد آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور کا عہدہ دیا گیا اور چھوٹے کیسسز سننے کا اختیار بھی ۔ اس عہدے کے ساتھ آپ نے مراد آباد ، غازی پور اور بنارس میں کام کیا اور وہیں سے آپ نے سر کے خطاب کے ساتھ ریٹائرمنٹ لی۔

سر سید مغل دربار کے آخری ادوار کا قریب سے مشاہدہ کر چکے تھے اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مغلوں کے زوال کی وجہ ناقص انتظامی صلاحیت ، بصیرت سے محروم وزرا، بادشاہ کی خوشامد پسندی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔

دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی میں میرٹ پر تعیناتیاں ہوتیں ، تعلیم یافتہ لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعلیٰ عہدے حاصل کرتے اور سخت ڈسپلن کے تحت کام کیا جاتا تھا۔

سر سید احمد خان جان چکے تھے اگر مسلمانوں کو جدید نوآبادیاتی دور میں مرکزی دھارے میں برقرار رکھنا ہے تو ان کو سائنسی انداز فکر اپنانا ہو گا۔

اسی سوچ کے ساتھ آپ نے دوران سروس ہی کچھ ادارے اور سوسائٹیز قائم کرنا شروع کی تھیں۔ جو درج ذیل ہیں۔

مراد آباد سکول

1859 میں سر سید نے مراد آباد جہاں وہ تعینات تھے مراد آباد پنچایتی مدرسہ کا آغاز کیا۔ یہ ہندوستان کا پہلا اسکول تھا جو مقامی لوگوں نے خود شروع کیا اور جہاں انگریزی اور سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے کی تعمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

انگلش ہائی سکول: 1863

جب سر سید غازی پور میں صدرالصدور تعنیات ہوئے تو وہاں کی کمیونٹی کے لئے پہلا انگلش ہائی سکول کھولا۔

سائنٹفک سوسائٹی: 1864

1864 میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد غازی پور میں رکھی جس کا بنیادی مقصد انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ 1866 میں سائنٹفک سوسائٹی کو علی گڑھ منتقل کر دیا گیا جہاں سے سائنٹفک سوسائٹی نے علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ شائع کیا۔

سر سید کا دورہ انگلستان اور نئے نظریات کے ساتھ واپسی

سر سید احمد خان 1869 کو اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ بنارس سے انگلستان پہنچے اور 17 مہینے وہاں قیام کیا جب واپس لوٹے تو ہندوستان کا کیمبرج بنانے کا خواب لے کر آئے۔

سر سید احمد کو انگلستان میں برٹش آرڈر کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کے بعد وہ پورے یورپ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ انھوں نے آکسفورڈ ، کیمبرج اور دیگر یورپین یونیورسٹیوں کے دورے کئے اور اپنی ساری خود نوشت ڈائری میں لکھتے گئے جو بعد ازاں سفر نامہ انگلستان کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

علی گڑھ تحریک کا آغاز

1871 میں انگلستان سے واپسی پر سر سید احمد خان نے سب سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی طرف راغب کرنا تھا اور ان کی شرح خواندگی ہندوؤں کے برابر کرنا تھا کیونکہ 1867 کی بنارس کی ہندی تحریک سے سر سید کو معلوم ہو چکا تھا ہندوؤں کےلئے مسلمان اب ناقابل برداشت ہیں اور وہ اب ہر انگریزی شعبہ زندگی میں مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ کر اٹھ سو سال کا حساب چکتا کرنا چاہتے ہیں۔

کمیٹی آف ایجوکیشنل پروگریس آف مسلم کے تحت ایک اور کمیٹی “فنڈ کمیٹی فار مسلم کالج” کا اجرا کیا گیا۔ اس کمیٹی کا مقصد ہندوستان بھر سے فنڈ جمع کر کے علی گڑھ میں ایک کالج بنانے کا منصوبہ تھا۔

محمڈن اینگلو اورینٹل سکول: 1875

سر سید نے ملک گیر دورے کئے اور انڈیا کے پہلے مسلم کالج کےلئے چندے جمع کرنا شروع کر دیا۔ یہ کٹھن مرحلہ تھا لیکن سر سید نے ہمت نہ ہاری۔

جب فنڈ جمع ہو گئے تو سر سید نے سب سے پہلے 1875 میں علی گڑھ میں ایک ماڈل ہائی سکول کا اجرا کیا تاکہ کالج کےلئے طلبا کی کھیپ تیار کی جا سکے۔ اس اسکول کو محمڈن اینگلو اورینٹل سکول کے نام سے جانا جاتا ہے جو آج علی گڑھ یونیورسٹی ہے۔

محمڈن اینگلو اورینٹل کالج: 1877

اس سال اسکول کو اپ گریڈ کر کے کالج کا درجہ دے گیا۔ اس کالج کا افتتاح اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ لٹن نے خود کیا تھا۔ یہ پورے ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کےلئے پہلا کالج تھا۔
علی گڑھ کالج میں طلبا مقیم ہوتے تھے اور وہاں سے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔

علی گڑھ کالج کا جھکاؤ شروع میں انگریز حکومت کی طرف تھا کیونکہ سر سید احمد خان خود انگریزوں کے اچھے دوست سمجھے جاتے تھے ، سر سید نے انگریزوں کو علی گڑھ کالج کی اہم نشستوں پر تعینات بھی کر رکھا تھا تاکہ مسلم نوجوانوں اور انگریزوں میں دوریاں ختم کی جا سکیں۔

علی گڑھ کالج کی علمی خدمات

علی گڑھ کالج سے فارغ التحصیل طلبا انڈین سول سروس کے سب سے مشکل ترین تحریری امتحان میں حصہ لیتے اور برٹش انڈین بیوروکریسی کا حصہ بنتے تھے۔

علی گڑھ کالج میں اردو کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ انگریزی کتابوں کا ترجمہ کرنے کےلئے اردو کا انتخاب کیا جاتا تھا یہی وجہ ہے اردو آج پاکستان میں ایک درسی زبان ہے۔ اردو کی گرائمر کی جدید تشکیل میں علی گڑھ کالج کے پروفیسروں کی محنت قابل تحسین ہے۔

دو قومی نظریہ

جس نظریے کے قائل سر علامہ محمد اقبال تھے اور جس نظریے کی بنیاد پر قائد اعظم نے تحریک پاکستان کی طویل جہدوجہد کی یہ دو قومی نظریہ بھی علی گڑھ کالج کی اختراع تھی۔

بنارس میں جب سر سید ہندو مسلم اتحاد کی فضا قائم کر رہے تھے تو اردو ہندی تنازعہ نے جنم لیا ۔ بنارس کے ہندو اردو کی جگہ ہندی کو عدالتی زبان بنانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ سر سید احمد خان اس اتحاد سے مایوس ہو گئے۔ علی گڑھ میں انھوں نے مسلمانوں کی جداگانہ شخصیت اور انگریزوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات استوار کرنے کی شدید کوششیں کیں۔ ہندو علی گڑھ کالج کو مسلمانوں کا ادارہ شمار کرتے تھے۔ علی گڑھ سے ہی فارغ التحصیل طلبا تحریک پاکستان کے رہنما بنے اور دو قومی نظریے کا پرچار کیا۔

علی گڑھ کالج کے فارغ التحصیل طلبا نے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا اور علی گڑھ کے خیالات و افکار کو ہندوستان کی مرکزی سیاست میں لے کر آئے۔

آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس: 1886

اس کانفرس میں سر سید احمد خان نے بارہ نکاتی پروگرام پیش کیا تھا جس کا مقصد مسلمانوں کی الگ جداگانہ شخصیت کو منوانا ، جدید علوم سے منسلک کرنا اور جمہوری نظام کو ہندوستان میں رائج کرنا تھا۔ اس کانفرس کےاجلاس باقاعدگی سے اور منظم طور پر ہوتے تھے۔ یہ کانفرنس انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے خلاف تھی۔ اسی کانفرنس کا ایک اجلاس 1906 ڈھاکہ میں ہوا جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے آگے چل کر ہندوستان میں الگ وطن پاکستان کےلئے جہدوجہد کی۔

سر سید کا قلمی کام

اسباب بغاوت ہند

1857 کی جنگ آزادی کے محرکات پر آپ نے ایک کتاب لکھی جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ان پالیسیوں پر تنقید کی گئی جو بغاوت ہند کا سبب بنی تھیں۔ یہ کتاب انگریزوں کے ہاں کافی مقبول ہوئی ہے۔

آثار الصنادید

اس کتاب میں دہلی شہر کے تاریخی مقامات کی مکمل تاریخ ، جغرافیہ اور دیگر معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

تہذیب اخلاق

سر سید نے 1870 میں رسالہ تہذیب الاخلاق بھی جاری کیا تھا۔ یہ رسالہ ہندوستان بھر میں مقبول تھا۔

سر سید احمد خان 1898 میں مختصر علالت کے بعد وفات پا گئے تھے مگر آپ کا تعلیمی ورثہ ڈیڑھ صدی سے ان کے وابستگان کو فیض یاب کر رہا ہے۔

علی گڑھ یونیورسٹی 1819

سال 1819 میں علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا اور یہاں کئی شعبہ جات میں گریجویشن کروانا شروع کر دی گئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی آج 1155 ایکٹر کے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ صرف 20 ہاسٹل ہیں ، 39367 طلبا یہاں زیر تعلیم ہیں ، 13 فیکلٹیز ، 117 شعبے قائم ہیں۔ صرف ایک لاکھ ستر ہزار المنائی ہیں یعنی فارغ التحصیل طلبا کی یادگار تنظیمیں ہیں۔

علی گڑھ رینکنگ میں آج پورے انڈیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں داخلہ لینا سب سے مشکل ترین ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

جامعہ الازہر،دنیا کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button