Columns

شعور اور لاشعور ، ایک سکے کے دو رخ

شعور اور لاشعور ، ایک سکے کے دو رخ

سید عرفان احمد

زندگی کے کنٹرول سے نکلئےاور اسے کنٹرول کیجئے

کامیابی کا راز یہ ہے کہ اپنے شوق اور خوف کے تسلط میں جانے کی بجائے اسے اپنے لیے استعمال کرنا سیکھا جائے ۔ اگر آپ نے ایسا کر لیا تو آپ کی زندگی آپ کے کنٹرول میں ہے اگر نہیں تو زندگی آپ کو کنٹرول میں کیے ہوئے ہے (ٹونی روبنس)

انسانی دماغ وہ اوزار ہے جو آپ کی سوچ اور گمان سے کہیں زیادہ حیران کن اور قیمتی ہے ۔ یہ اللہ تعالی کی عطا کردہ آپ کے لیے کہنے دیجئے کہ ایمان و عافیت کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے ۔ یہ وہ واحد شے ہے جو آپ کو دنیا کے آٹھ ارب انسانوں سے ممتاز کرتی ہے ۔یہی وہ قوت ہے جو آپ کے مستقبل اور منزل کی تشکیل کرتی ہے ، اب تک کی گفتگو میں ہم دماغ اور ذہن کے بارے میں بات کر چکے ہیں، آپ کو یہ بھی پتہ چل چکا ہے کہ دماغ اگر لباس ہے تو اس کے اندر اصل جسم اور جان آپ کا ذہن ہے۔ نیز ذہن میں بھی شعوری ذہن کے نیچے لاشعوری ذہن پوشیدہ ہے جو آپ کے اہم ترین فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

لاشعور انسانی وجود کا اصل ذمے دار

گویا آپ کا لاشعور آپ کے وجود کا اصل ذمہ دار ہے ۔ یہ آپ کے دل کو بھڑکاتا ہے ،جسم کے تمام افعال کو باقاعدگی سے جاری رکھنے کے لیے ضروری حیاتی کیمیائی عوامل جاری رکھتا اور بیرونی دنیا سے حاصل ہونے والے تجربات وصول کرکے انہیں قابل فہم بناتا ہے۔

یہاں یہ بحث لا حاصل ہے ہے کہ شعور اور لاشعور میں سے سے کون سا زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ دونوں اپنے کاموں کے اعتبار سے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ دونوں مل کر کام کرتے ہیں ۔کہنے دیجئے کہ یہ ایک سکے کے دو رخ ہیں ۔کوئی سکہ ایک رخ کا نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہی ذہن ان دونوں انداز سے کام کرتا ہے تو انسان کی بقا ممکن ہوتی ہے ۔ یہ دونوں ایک ایسے مشترکہ نظام کے تحت ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں کہ وہ تنہا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے ۔چنانچہ پوری زندگی ہمارے دونوں ہی ذہن مشترکہ طور پر اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تو جا کر ہم کسی کام کے قابل ہوتے ہیں اور جسم کے تمام نظام کام کرتے ہیں۔

شعور اور لاشعور کی تربیت کی آسان مثال

مثال کے طور پر آپ نے جب کار چلانا سیکھا ہوگا تو جب ابتدا میں کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوں گے تو پوری توجہ اسٹئرنگ ، گیئر ، کلچ،اور بریک پر ہوگی۔ پورے انہماک سے رفتار کم یا زیادہ کرتے ہوں گے ۔سامنے اسکرین پر انتہائی توجہ رکھتے ہوں گے تاکہ سڑک کا ایک ایک گوشہ آپ کو نظر آتا رہے ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب آپ ڈرائیونگ کا ایک ایک کام پوری توجہ سے کر رہے تھے اور ہر کام شعوری سطح پر تھا۔ رفتہ رفتہ آپ کے یہ تمام اقدامات آپ کے لئے خود کار ہوتے چلے گئے ۔ آپ کا لاشعور ڈرائیونگ کے لیے ” پروگرامڈ” ہوگیا۔ آپ کو ان تمام کاموں کی تربیت ہوگئی جو کار چلانے کے دوران میں ضروری ہیں ۔

کوئی کام ہم بار بار کرتے ہیں تو وہ ہمارے لئے خود کار ہو جاتا ہے

در اصل جب آپ کوئی کام بار بار کرتے ہیں تولا شعور بار بار کی معلومات کو قبول کرلیتا ہے اور پھر اسی کے مطابق جسم کو اسے سرانجام دینے کے لیے تیار کرتا ہے اور اس کام کے بارے میں ضروری معلومات اپنے ہاں سے دماغ کو فراہم کرتا ہے تاکہ دماغ ان معلومات کی روشنی میں مخصوص اشارے (سگنل) متعلقہ جسمانی خلیات کو بھیج سکے ۔شعور اور لاشعور کی تربیت اور پھر کسی کام کے خود کار ہونے کی یہ ایک مثال ہے ۔اس سے آپ کو پتہ چل سکتا ہے کہ کیسے ہمارے لئے کوئی کام لا شعوری سطح پر خود کار ہو جاتا ہے ، پھر ہم وہ کرتے ہیں اور ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہوتی۔

حالت کاری(Conditioning)

یہ پورا طریقہ کار یا پروسس(Conditioning ) یا “حالت کاری” کہلاتا ہے ۔ ہمارے مخصوص خیالات اور عادات بھی حالت کاری کےاسی عمل سے گزرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں وہ ہماری سوچ کا ایک انداز یا ڈھپ(Thought Pattern ) بن جاتا ہے یا پھر ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم کب کسی اچھی یا زیادہ بری عادت کا شکار ہو چکے ہیں حتی کہ ہمارے روز مرہ کے زیادہ تر معمولات بھی ہمارے لاشعوری مرکز کا حصہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ گھڑی اگر بائیں ہاتھ میں باندھ دیتے چلے آئے ہیں تو ہر مرتبہ آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ کس ہاتھ میں گھڑی باندھی جائے بلکہ خود بخود گھڑی بائیں ہاتھ میں باندھ لیں گے اور آپ کو پتہ ہی نہیں چلے گا۔

لاشعور کے بارے میں ایک نقطہ یہ ضرور سمجھ لیجئے کہ اسے اچھے برے ، مثبت منفی کی بحث سے کوئی سروکار نہیں ہے ، یہ ہر عمل کو من و عن جذب کرلیتا ہے ۔ چنانچہ عادت اچھی ہو یا بری ، خیالات منفی ہوں یا مثبت ،دونوں ہی کو لا شعور اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت استعمال کرتے ہوئے نتائج دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

ذہن ،شعور اور لا شعور

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button