Columns

عرب امارات اور شیخ زاید کی رہائش گاہ

عبد الخالق ہمدرد

العین ایک چھوٹا صاف ستھرا اور مرتب شہر

گزشتہ سے پیوستہ —
واپس شاہراہ العین پر آ جاتے ہیں۔ العین ایک چھوٹا سا شہر ہے لیکن ہے یہ بھی دبئی اور ابو ظبی کی طرح صاف ستھرا اور مرتب، البتہ یہاں وہ فلک بوس عمارتیں نظر نہیں آتیں جن کا رواج دبئی اور ابو ظبی میں ہے۔ شہر کی سڑکوں پر شجر کاری بھی بہت اچھی طرح کی گئی ہے۔ میں ہر جگہ شجر کاری کا تذکرہ اس لئے کئے جا رہا ہوں کہ ہمارے ہاں سب کچھ دستیاب ہونے کے باوجود کوئی ترتیب نہیں۔

جبکہ امارات کے صحرا ہونے کے باوجود نباتات اگانے کا یہ اہتمام ہے۔ درخت اور پودے ایک صحتمند معاشرے کی ضرورت ہیں کیونکہ یہ آب وہوا کو صاف اور قابل استعمال رکھنے کی قدرتی مشین ہیں۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لئے شجرکاری سے بہتر، آسان، سستا اور دیرپا طریقہ کوئی نہیں۔

العین پہنچنے سے قبل حقانی صاحب کے دوست مولانا عبد الرشید صاحب سے رابطہ ہو گیا۔ ان کی جگہ شہر کے ایک کونے میں تھی۔ وہاں سے آگے صنعتی علاقہ شروع ہو رہا تھا۔ یہاں سیمنٹ کے علاوہ کئی اور چیزوں کے کارخانے بھی ہیں۔ اس علاقے کا بازار ہمارے بازاروں سے کافی ملتا جلتا ہے کہ اسی طرح دکانوں کی قطاریں ہیں اور سامان بھی پڑا نظر آتا ہے لیکن سڑک اور فٹ پاتھ پر قبضے کی یہاں بھی اجازت نہیں۔

عبد الرشید صاحب کے ہاں ہم ذرا پہلے اور وہ تھوڑی دیر بعد پہنچے۔ ہمارا سفر اختتام پذیر ہوا تو ڈرائیور نے گاڑی روک دی مگر اس کے پاس ریزگاری نہیں تھی۔ کہنے لگا کہ اب گاڑی سٹارٹ کروں گا تو آپ کو مزید پیسے دینا پڑیں گے۔ اس لئے آپ ادھر رکیں میں ریزگاری لے کے آتا ہوں۔ اس کی واپسی سے پہلے عبد الرشید صاحب پہنچ گئے۔

میں نے ان کو ماجرا بتایا تو کہنے لگے اس طرح پیسے نہیں دینے چاہئیں (کیونکہ بعض ڈرائیور بھاگ بھی جاتے ہیں)۔ میں نے کہا ان شاء اللہ اچھا ہوگا۔ اتنے میں ڈرائیور بھی پہنچ گیا لیکن اس کے ہاتھ میں وہی نوٹ تھا جو میں نے دیا تھا۔ اب عبد الرشید صاحب نے ریزگاری کا بندوبست کر کے ہم دونوں کے لئے آسانی پیدا کر دی اور ڈرائیور گلے مل کر واپس چل دیا۔ یہ ایک اچھے ڈرائیور کے ساتھ اچھا سفر تھا۔

مولانا عبد الرشید صاحب یہاں کئی برسوں سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے تپاک سے استقبال کیا اور فوراً کھانے کی بات کی لیکن ساتھ ہی عصر کی اذان کا وقت بھی ہو گیا۔ چونکہ یہاں عصر کی نماز اول وقت میں پڑھی جاتی ہے، اور کھانے میں دیر ہو ہی چکی تھی، اس لئے میں نے کہا کہ نماز کے بعد کھائیں گے۔ یہاں ایک اچھی بات یہ ہے کہ ائمہ حضرات نماز پڑھاتے وقت لباس کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پاکستانی امام بھی نماز کے لئے مکمل عربی لباس پہنتے ہیں اور کچھ لوگ تو اس لباس میں اور بھی کھل جاتے ہیں۔

نماز کے بعد بازار میں ایک افغانی ہوٹل پر لے گئے اور پرتکلف دعوت کی۔ ہوٹل والے اردو، فارسی اور پشتو بول رہے تھے اور ہو سکتا ہے کبھی ضرورت پڑے تو عربی بھی بولتے ہوں گے۔ کھانے کے دوران ہی سیر کا پروگرام بنایا کہ ’’متحف قصر العین‘‘ دیکھنے جائیں گے۔ یہ شیخ زاید مرحوم کی پرانی شاہی رہائشگاہ رہی ہے جس کو اب عجائب گھر کا درجہ دے کر سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو مغرب میں کچھ ہی وقت باقی تھا۔ اس لئے عبد الرشید صاحب ہمیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔

میرے ساتھ ان کا ایک دوست رہ گیا۔ یہ ایک پشاوری نوجوان تھا۔ اس کی عمر بہت کم تھی مگر وہ کئی برسوں سے یہاں کام کر رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ میں سکول کے زمانے میں ہی گھر کے قریب ایک اے سی مکینک کے پاس اٹھتا بیٹھتا تھا۔ شدہ شدہ مجھے اس کام سے کچھ مناسبت ہو گئی۔ پھر میں نے اس سے کام سیکھا اور اسی نے اپنے ایک جاننے والے کے پاس یہاں بھیج دیا۔ کئی سال ان کے ساتھ کام کیا اور اب اپنا کام کر رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ العین میں دیکھنے کی اور کونسی جگہ ہے؟ تو ہنس کر کہنے لگا کہ ہم سے یہ پوچھیں کہ فلاں گھر کہاں ہے اور فلاں کہاں ہے، جگہوں کا کچھ معلوم نہیں۔

اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کو جس کام سے مناسبت ہو، وہی کرنا چاہئے کہ اس میں آپ کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر فن مولا بننے کی کوشش میں آدمی عمر گنواں بیٹھتا ہے اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے تبلیغ والے بڑی اچھی مثال دیتے ہوتے ہیں کہ اگر آپ چار چار فٹ کے دس گڑھے کھودیں گے تو ان سے کچھ فائدہ نہ ہوگا لیکن ایک ہی جگہ چالیس فٹ کا ایک گڑھا کھودیں گے تو شاید پانی نکل آئے۔ یعنی دس سہ روزے لگانے سے ایک چلہ لگانا زیادہ اچھا ہے۔

العین میں شیخ زاید کی پرانی رہائش گاہ

متحف قصر العین باہر سے ایک قلعہ نما عمارت ہے جس کی فصیل کافی اونچی ہے۔ پھاٹک سے اندر داخل ہوں تو دائیں جانب ایک کمرے میں استقبالیہ کا دفتر ہے اور اس سے آگے کھلی جگہ ہے جہاں ایک عربی قدیم رواج کے مطابق آپ کو چھوٹی سی پیالی میں کڑوا عربی قہوہ پیش کرتا ہے۔ اسے پینا نہ پینا آپ کی مرضی ہے۔ یہاں سے آگے کافی جگہ خالی ہے اور پھر دونوں جانب عمارت شروع ہو جاتی ہے جس کا اکثر حصہ ایک منزلہ اور رہائشی حصہ دو منزلہ ہے اور پیچھے کھجور کا باغ ہے۔ شیخ زاید نے اپنی عمر کا بڑا حصہ اسی مقام پر گزارا ہے۔

عمارت کی ایک راہداری میں ابو ظبی اور العین کے شاہی خاندان کا شجرہ نسب اور حکمرانوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔ ہم نے عمارت کا کونہ کونہ دیکھ لیا۔ مجھے وہ بڑا کمرہ بہت اچھا لگا جہاں عمومی مجلس ہوتی تھی۔ اس کمرے میں بہت قیمتی تلواریں بھی موجود تھیں۔ ایک جگہ ایک کنواں بھی ہے لیکن اب اس میں پانی نہیں جبکہ شیخ زاید کی اس گاڑی کا ایک ماڈل بھی رکھا ہوا ہے، جس پر وہ صحراء میں گھومتے اور عوام کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ کمروں میں جگہ جگہ طاقچوں پر پرانی لالٹینیں رکھی ہوئی ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ آّج جس ملک کے لاری اڈے میں بھی اے سی لگے ہوئے ہیں، کسی زمانے میں وہاں کے شاہی محل میں بھی بجلی کا نام ونشان نہ تھا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے آدمی کو جو ماحول میسر ہو، وہ اس میں زندگی گزارنے کی راہیں نکال لیتا ہے۔ دیکھئے نا لوگ مورمانسک اور یاکوتسک جیسے یخ بستہ اور صحرائے تکلا مکان جیسے گرم علاقوں میں بھی معمول کی زندگی گزارتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ ان کے حالات سن کر انگلیاں دانتوں میں دبا لیتے ہیں۔

قصر العین کے علاوہ العین میں جبل عفیت بھی سننے کے مطابق اچھی سیر گاہ ہے۔ جبل عفیت یہاں کا سب سے اونچا پہاڑ ہے جہاں سیاحت کے لئے مطلوب انتظامات بھی ہیں، مگر ہم وہاں نہ جا سکے۔ قصر العین کی سیر سے فارغ ہوئے تو مغرب کی اذان ہو گئی اور تھوڑی دیر بعد عبد الرشید صاحب کے ایک عزیز گاڑی لے کر پہنچ گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ اب کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا کہ کوئی دیکھنے کی جگہ ہو تو وہاں چلے چلتے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے تو چلتے ہیں۔ اب مجھے کیا معلوم ہوتا؟ اس لئے کہا کہ لاری اڈے چلے چلو۔

پارکنگ کے پیسے وصول کرنے والی مشین

لاری اڈہ بھی قریب ہی تھا۔ وہاں پہنچے تو ایسا لگا کہ شاید وقت بہت گزر گیا ہے کیونکہ بھیڑ بالکل نہیں تھی۔ یہاں گاڑی کھڑی کرنے کے بھی پیسے دینے تھے جو ایک مشین وصول کر رہی تھی۔ مشین میں اپنی گاڑی کی ساری تفصیل درج کرنے کے بعد پیسے ڈالتے ہیں تو وہ ٹوکن دے دیتی ہے۔ یہ مشین بھی گشتی فون کی طرح انگلیوں کے لمس سے چلتی ہے اور فون سے بھی اس کی ایپلی کیشن کے ذریعے بینک کے کھاتے سے پیسے بھرے جا سکتے ہیں۔ ہمارے لحاظ سے یہ بھی ایک عجیب بات ہے کیونکہ ہمارے ملک میں تو برقی چالان بھی ابھی ابھی اور وہ بھی چند شہروں میں متعارف ہوا ہے۔

میں اب واپس دبئی جانا چاہتا تھا۔ میرے پاس بس کے کارڈ میں پیسے تھے، اس لئے نیا کارڈ لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ گاڑی چلنے میں آدھا گھنٹہ تھا اور بیٹھنے کے لئے کرسیاں لگی تھیں لیکن یہاں خواتین و حضرات کی انتظارگاہ الگ الگ تھی، اگرچہ تھی ایک ہی جگہ۔ اسی طرح یہاں بھی ٹکٹ دینے والے ہندوستانی ملازم کے ساتھ بیٹھا عربی بڑا با اخلاق تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک خاتون بیت الخلا کی جانب جانے لگی تو اس نے آواز دے کر اسے روکا اور صفائی والے ملازم سے کہا کہ پہلے اندر صفائی دیکھ لو۔

میں نے میزبانوں کو واپس بھیج دیا۔ مجھے سفر کرنا تھا اس لئے انتظار لازم تھا، جبکہ ان کے لئے یہ انتظار بوجھ ہوتا کیونکہ ہم تینوں کی آج پہلی ملاقات تھی۔ اتنی آشنائی میں یہی کیا کم ہے کہ وہ آپ کو آپ کی مرضی کی جگہ عزت واحترام سے پہنچا دیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اجنبی مقام پر زبان بھی بہت قیمتی سرمایہ ثابت ہوتی ہے۔

اور یہ اپنائیت کا رستہ کھولتی ہے۔ اس لئے اگر آپ کوئی زبان جانتے ہیں اور اس کے بولنے کا مناسب موقع مل جائے تو ضرور بولیں۔ آپ کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ بھی مخاطب کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ اس کی زبان اور شخصیت کا احترام کرتے ہیں۔

بس چلنے کا وقت آیا تو عربی دروازے پر کھڑا ہو گیا اور پہلے خواتین کو سوار ہونے کا موقع دیا اور اس کے بعد مردوں کو۔ رات کے سات بجے بس روانہ ہو گئی اور تھوڑی ہی دیر میں العین کی روشنیاں دور ہوتے ہوتے صحرا میں گم ہو گئیں البتہ صاف آسمان پر ستارے جگمگاتے نظر آنے لگے۔ حقانی صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے ایک جگہ کا نام بتایا کہ بس وہاں سے گزرتی ہے اور وہ ’’مردف‘‘ کے قریب ہی ہے اور ساتھ ڈرائیور سے بات کرانے کا کہا۔

لیکن ڈرائیور نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ کیمرہ لگا ہے چالان ہو جائے گا، حالانکہ وہ فون کان سے لگائے بغیر بھی بات کر سکتا تھا۔ میں نے ایک دو سواریوں سے بھی اس جگہ کا پوچھا مگر ان کو بھی معلوم نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقانی صاحب کو مجھے لینے کے لئے ’’الغبیبہ‘‘ میں لاری اڈے آنا پڑا۔ یہ ان کی محبت اور اعلیٰ ظرفی کی بات تھی ورنہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے وہاں سے ٹیکسی پر آ جاؤ۔ یوں کل صبح شروع ہونے والا چکر آج پورا ہو گیا اور رات کو مردف پہنچ گئے۔

عربی زبان کے مختلف لہجے

امارات کے تین شہروں کا چکر لگانے کے بعد یہ بات سمجھ آ گئی کہ یہاں عربی بہت کم نظر آتے ہیں اور عربی زبان کا حال بھی پتلا ہے۔ اس بارے میں پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دنیا کی اور زبانوں کی طرح عربی زبان کے بھی مختلف لہجے ہیں اور ان میں تلفظ سے لے کر ادائیگی تک ہر قسم کے فرق موجود ہیں اور عربی بولنے یا اچھی طرح جاننے والے لوگ بھی ایک جملے سے بولنے والے کے گاؤں کا پتہ جان لیتے ہیں۔

بعض اوقات ان لہجوں میں اتنا فرق بھی ہوتا ہے کہ دو عربی بھی ایک دوسرے کی بات پوری طرح نہیں سمجھ پاتے۔ اس سب کے باوجود قواعد کے مطابق سیکھی اور بولی جانے والی زبان سب کے ہاں مشترک ہے۔ اخبارات اور ذرائع ابلاغ کی زبان یہی فصیح زبان ہے۔

مشرقی اور مغربی عربی کا فرق

یہ زبان عرب دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لکھی اور بولی جاتی ہے لیکن اس میں بھی مشرق عربی (عراق سے مصر تک) اور مغربی عربی (تونس سے مراکش تک) کے درمیان اصطلاحات میں فرق ہے کیونکہ مشرق عربی انگریزوں اور مغرب عربی فرانسیسیوں کے زیر اثر رہا ہے اور فرانسیسی کا اثر اب تک اتنا گہرا ہے کہ مغرب عربی کے ممالک فرانسیسی بولنے والے ممالک کے اتحاد کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ عرب ممالک میں عام طور کار سرکار اپنی زبان میں ہوتا ہے۔

اس وقت فصیح عربی بولنے والوں میں مساجد کے امام اور خطباء پہلے نمبر پر، ان کے بعد تعلیمی ادارے اور تیسرے نمبر پر وہ عربی آتے ہیں جن کو مجبوراً دوسروں کو سمجھانے کے لئے عربی بولنی پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے ان عجمیوں کی عربی اچھی ہوتی ہے جو زبان کو قواعد کے قالب میں ڈھال کر سیکھتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ ہر ہر جملے میں قواعد کو برتنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے ان کے جملے درست ہوتے ہیں لیکن ان میں اسلوب کا جھول کہیں نہ کہیں ضرور جھلک جاتا ہے۔

اسی طرح جن ممالک میں باہر سے آنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں عربی ان کو درست عربی کیا سکھاتے، وہ خود بھی غلط عربی بولنے لگتے ہیں اور جب کسی خلیجی ملک سے ہمارا کوئی پاکستانی بھائی اس طرح کی ٹوٹی پھوٹی زبان کے چند جملے سیکھ کر آتا ہے تو وہ مسجد کے امام پر اپنی عربی آزماتا اور یہ فیصلہ کرتا ہے کہ امام صاحب نے مدرسے میں ویسے ہی عمر ضائع کر دی حالانکہ اس بیچارے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے وہ چھوٹے بچوں کے ٹوٹے پھوٹے جملوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر ائمہ بھی عربی بولنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

عربی میں انگریزی کی پیوند کاری

بات دور نکل گئی۔ اس تمہید کے بعد کہنا یہ چاہتا ہوں کہ امارات میں سڑکوں، بازاروں، گلیوں، دکانوں، ہر جگہ تختیوں پر انگریزی کے ساتھ عربی ضرور لکھی ہوتی ہے لیکن ہر عربی تحریر کا عربی ہونا کوئی ضروری نہیں۔ آپ کسی بھی زبان کا لفظ عربی رسم الخط میں لکھ دیں، یہی کافی معلوم ہوتا ہے۔ مثلا ۔عربی میں کچھ نام یوں لکھے ہیں،

سنتر بوائنت، دبئی سیتی سنتر، جیفت ہاوس، ہابینس استور، سیتی ترافیلز، سیتی والک، جلف للصیانہ اور اس طرح کے بےشمار الفاظ۔ یہ دیکھ کر مجھے اپنا ملک یاد آ گیا جہاں اب اردو الفاظ موجود اور مستعمل ہونے کے باوجود اردو میں انگریزی کے پیوند لگانے کی روش عام ہے اور نئی آبادیوں کے ناموں میں تو شاید ہی کوئی نام اردو میں ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی زبان نہیں رکھتے یا رکھنے پر شرمندہ ہیں۔ ہمارے ہاں تو احساس کمتری یا آقا سے تعلق جتانے کی حد یہ ہے کہ وہ تختے اور تختیاں بھی انگریزی میں ہی لگائی جاتی ہیں جو پرائمری فیل ڈرائیوروں کو پڑھنی ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں ہم کیا بننا چاہتے تھے اور کیا بن گئے۔

گزشتہ قسط

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button