Islamic Finance

اسلامی بینکاری کیا ہے ایک تعارف

اسلامی بینکاری کیا ہے ایک تعارف

تحریر: ڈاکٹرمحمدیونس خالد

اسلامی بینکاری سود سے پاک شریعت کے تجارتی اصولوں پرمبنی ایک بینکنگ سسٹم   ہے۔ اسلامی بینکنگ سسٹم میں ڈپازٹ کیلئے اسلام کا مشارکہ ومضاربہ ماڈل استعمال کیا جاتا ہے۔  جبکہ فائنانسنگ یا سرمایہ کاری  کیلئے مرابحہ، اجارہ، سلم واستصناع ، شرکت متناقصہ اور دیگر اسلامی طریقہ ہائے تمویل استعمال کیے جاتے ہیں۔

سودی بینکنگ اور اسلامی بینکنگ میں کیا فرق ہے؟

روایتی سودی بینک درحقیقت ایک سودی مالیاتی ادارہ  ہے  جو لوگوں سے سودی قرض لیتاہے اور پھر دوسروں کو سودی قرض فراہم کرتاہے۔ یوں یہ بینک  سودی قرض  ڈپازٹس کی شکل میں لوگوں سے  وصول کرتا ہے ۔اور فائنانسنگ کی شکل میں لوگوں کوسود پر ہی قرض فراہم کرتا ہے ۔ اس طرح سے روایتی بینک کے تمام لین دین  سودی بنیادوں پر انجام پاتے ہے۔ جبکہ اسلام میں سود کی کوئی گنجائش نہیں۔

اسلام سود  کو حرام قرار دے کرتجارت کو فروغ دیناچاہتاہے۔ جس کیلئے اسلام کے پاس تجارت کے متعد د مالیاتی موڈزموجود ہیں ۔ مثلا مضاربہ  ، مشارکہ، مرابحہ ، سلم واستصناع اور اجارہ وغیرہ۔ انہی اسلامی تجارتی موڈز کو  جب اسلامی بینکنگ سسٹم میں باہمی لین دین   کے لئے اختیار  کیا گیا  تو  سود سے پاک اسلامی بینکنگ سسٹم وجود میں آیا۔

اسلامی بینکاری  کی بنیاد اثاثہ جات پررکھی گئی ہے۔

اسلامی بینکاری  کی اہم ترین خصوصیت جو اسے سودی بینکنگ سے جدا کرتی ہے ، یہ بھی ہے کہ یہ حقیقی اثاثوں پر مبنی فائنانسنگ سسٹم ہے ۔ یعنی اسلامی بینک محض نقد رقوم  ، نقود یامالیاتی دستاویزات کی لین  دین نہیں کرتا، کیونکہ اسلام کی نظر میں یہ چیزیں محض آلہ تبادلہ ہیں۔  بلکہ اسلامی بینکاری  کی بنیاد حقیقی اثاثوں  اور سامان تجارت پر رکھی گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینک اپنے کلائنٹس کو کبھی نقد رقم فراہم نہیں کرتے۔ بلکہ کلائنٹس کی ضرورت کے مطابق  اثاثہ جات  خرید کر ان کو فراہم کرتے ہیں۔ اور اس اثاثہ کے منافع میں بینک اور کسٹمر دونوں شریک ہوجاتے ہیں۔

اس کے برعکس کنوینشنل  سودی بینک اور مالیاتی ادارے صرف زر ، نقدرقوم یا ان دونوں کی مالیاتی دستاویزات کا  ہی لین دین کرتے ہیں۔ سودی قرض اکاونٹ ہولڈز سے لیتے ہیں اور فائنانسنگ کیلئے سودی قرض ہی فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بینکوں او رمالیاتی اداروں کو  بینکنگ قوانین کے مطابق اشیا تجارت کا اسٹاک رکھنے یا کاروباری لین دین کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

شریعت میں فائنانسنگ ( تمویل) کے ذرائع

شریعت میں تجارت اور تمویل کے اصل اور مثالی ذرائع مضاربہ اور مشارکہ ہی ہیں۔ جس میں مضاربہ کی صور ت میں  ایک پارٹی کی جانب سے  جبکہ  مشارکہ کی صورت میں دونوں پارٹیوں کی جانب سے سرمایہ مہیاکیا جاتاہے۔ پھر اس سرمائے کو حقیقی اثاثوں کی خریدوفروخت اور لین دین میں استعمال کیا جاتاہے۔ نتیجے میں جو نفع حاصل ہو اس میں دونوں شرکا باہمی طے شدہ  معاہدے کے تحت شامل ہوجاتے ہیں۔

ان مثالی موڈ آف  فائنانسنگ کے علاوہ  شریعت  اسلامی میں ایسے متعدد موڈ آف فائنانسنگ موجود ہیں ،جو  مثالی نہ سہی لیکن بہرحال حقیقی اثاثہ جات پر مبنی تجارت کو وجود میں لاتےہیں۔ غرض اسلام کے نظام معیشت میں  کرنسی پیپر، سوناچاندی ، مالیاتی دستاویزات یا نقود  کو مخصوص صورتوں کے علاوہ   کاروباری مواد تسلیم نہیں کیاجاتا۔ کہ انہی چیزوں کے باہمی لین دین سے مال کمایا جائے اور تجارت کی جائے۔ ورنہ وہ سود قرار پائے گا۔  کیونکہ یہ تو محض آلات تبادلہ ہیں حقیقی اثاثے نہیں۔

اسلامی بینکنگ میں تمویل  کے متعدد طریقے۔

اسلامی بینکنگ میں متعدد موڈ آف فائنانس استعمال کئے جاتے  ہیں جن کا مختصر تعارف ذیل میں کیا جاتا ہے۔ مضاربہ ، مشارکہ، مرابحہ، اجارہ، سلم واستصناع، شرکت متناقصہ، اسلامی سرمایہ کاری فنڈ وغیرہ

مضاربہ

مضاربہ ایک خاص قسم کی تجارتی شراکت داری  ہے۔ جس میں ایک پارٹی کی جانب سے سرمایہ فراہم کیا جاتاہے۔ جبکہ دوسری پارٹی کی ذمہ داری اس سرمائے سے تجارت کرنا ہوتاہے۔ تجارت سے جو بھی نفع حاصل کو  اس کو باہمی معاہدے کے تحت کسی بھی شرح سے تقسیم   کیا جاسکتاہے۔  اس میں سرمایہ فراہم کرنے والے کو رب المال اور سرمائے سے تجارتی امور انجام دینے والے کو مضارب کہا جاتاہے۔

اس تجارتی موڈ کو اسلامی بینکنگ میں اختیار کیا گیاہے۔ چنانچہ اکاونٹ ہولڈر جب اسلامی بینک میں اکاونٹ کھولنے جاتاہے ۔ تو اسی موڈ آف فائنانس یعنی مضاربہ معاہدے کے تحت   وہ اپنا فارم بھر کر اکاونٹ کھلواتاہے۔ اب جو پیسہ وہ بینک میں جمع کرواتاہے۔ وہ رب المال کی حیثیت سے جمع کرواتاہے ۔ جبکہ بینک مضارب کی حیثیت سے اس سرمایے کو تجارتی امور میں استعمال میں لاتاہے۔ یوں منافع میں بینک اور اکاونٹ ہولڈر ایک خاص تناسب کے ساتھ دونوں شریک ہوجاتے ہیں۔

اس آرٹیکل میں چونکہ ہم اسلامی بینکنگ اور اس کے موڈز آف فائنانس کا مجموعی تعارف کروارہے ہیں۔ لہذا یہاں ہر موڈ آف فائنانس کے مختصر تعارف پر ہی اکتفا کریں گے۔ تاکہ آرٹیکل بہت طویل نہ  ہو۔ ہم مستقبل میں  ان شااللہ ہر موڈ کو اپنے قارئین کیلئے  الگ الگ آرٹیکلز  میں تفصیل سے قلمبند کریں گے۔

مشارکہ

یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی  معنی  شریک ہونے اور حصہ دار بننے کے آتے ہیں۔  اصطلاحی طور مشارکہ ایک ایسے کاروبار کانام ہے جس میں ایک سے زائد لوگ سرمایہ ملاکر شریک ہوتے ہیں او رہر شریک کی کچھ ذمہ داریاں بھی پہلے سے طے کی جاتی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بلادسودبینکاری کی طرف  انیس سو چوراسی میں  جب  پہلاقدم اٹھایا ۔تو اسلامی موڈ آف فائنانس کے طور پر مشارکہ کو سب سے پہلے رائج کیا ۔ مشارکہ چونکہ ایک اسلامی تجارتی طریقہ ہے لہذا اس  کی اپنی تفصیلات  اور شرعی اصول ہیں۔

آج بھی اسلامی بینکوں میں مشارکہ بطور تجارتی موڈ رائج ہے۔ اس میں سرمایہ فراہم کرنے والا یعنی اکاونٹ ہولڈر سرمایہ جمع کرواتے وقت اپنے بینک سے باقاعدہ مشارکہ کی شرائط کے تحت معاہد ہ کرتاہے۔ اور بینک مشارکہ کے اصولوں کو مد نظررکھتے ہوئے اپنے اکاونٹ ہولڈر کو منافع آفر کرتاہے۔  اس کی تمام تفصیلات ان شااللہ مشارکہ کے خصوصی آرٹیکل میں  فراہم کی جائیں  گی۔

مرابحہ

مرابحہ ایک ایسا اسلامی تجارتی طریقہ (موڈ آف فائنانس )ہے جس میں پروڈکٹ بیچنے والا ، اپنی پروڈکٹ پر آنے والی حقیقی  لاگت (کاسٹ)   کوکسٹمر کے سامنے بیان کرتاہے ۔اور اوپر سے  اپنا  مطلوبہ منافع بھی  واضح کر کے کسٹمر کے سامنے رکھتا ہے۔  اگر چیز کی حقیقی لاگت کسٹمر کو نہ بتایا جائے یا  کچھ چھپایا جائے تو پھر مرابحہ  فاسد ہوجاتاہے۔

اسلامی بینکنگ نظام میں مرابحہ سب سے زیادہ مقبول اور استعمال میں آنے والا  طریقہ ہے۔ جسے سود سے پاک تجارتی لین دین کیلئے باسہولت استعمال کیا جاسکتاہے۔ مرابحہ کو عموما مائیکروفائنانس، اثاثہ وجائیداد کیلئے سرمائے کی فراہمی ، اشیا کی درآمدوبرآمد اورانٹرنیشنل ٹریڈنگ کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔  اس وقت اسلامک بینکنگ سسٹم میں سوکھرب ڈالر سے زیادہ  تجارت مرابحہ کے ذریعے انجام پارہی ہے۔

اس اسلامی موڈ کے بہت زیادہ مقبول ہونے کی اہم وجہ یہ ہے کہ دیگر موڈز مثلا مضاربہ ومشارکہ کے مقابلے میں یہ زیادہ آسان اور تاجروں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔ کیونکہ اس میں اپنا تجارتی سیٹ اپ کسی کو بتانا نہیں پڑتا ۔  بینک کے ساتھ محض مرابحہ ایگریمنٹ کرکے  اپنی تجارتی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ جبکہ مضاربہ اور مشارکہ میں دوسری پارٹی کو اپنے کاروبار کی تفصیلات بتانی پڑتی ہیں۔۔

مرابحہ کا   باقاعدہ شریعہ اسٹینڈرڈ (معائیر) ہیں  جس میں اس  کی تمام تفصیلات ہیں ہم ان شااللہ  ایک خصوصی آرٹیکل میں ان تفصیلات کو زیر بحث لائیں گے۔

  اجارہ

اجارہ یعنی کرایہ داری    کو جدید اصطلاح میں لیزنگ کہا جاتاہے۔    اس میں اثاثہ جات یا جائیداد کا مالک اپنے اثاثے / جائیداد کو  باہمی رضامندی سے ایک خاص مدت کیلئے دوسری پارٹی  کے حوالے کرتاہے۔ تاکہ وہ اس کے منافع کو حاصل کرے او رعوض میں اثاثہ جات کے مالک کو کرایہ ادا کرے۔

اجارہ ایک اسلامی موڈ آف فائنانس ہے۔ جس کے اصول ہمیں نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ سے ملتی ہیں۔  ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ مزدور کو اس کی مزدوی پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکیاکرو۔  ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص کو اجرت پر اپنے ہاں ملازم رکھو، تو اسے اس کی اجرت  سے ضرور آگاہ کرو۔

اسلامی بینکنگ سسٹم میں اجارہ کافی زیادہ استعمال ہونے والا موڈ آف فائنانس ہے۔  اس موڈ کے ذریعے اسلامی بینک مندرجہ ذیل اثاثہ جات میں فائنانسنگ دیتے ہیں۔

مختلف قسم کی گاڑیاں

فیکٹری پلانٹ او ر آلات

 ہرقسم کی قانونی پراپرٹی

 اور دیگر اثاثہ جات وغیرہ

کلائنٹس اپنی ضروریات  اسلامی بینک کے پاس جا کر پیش کرتے ہیں۔ تو بینک اپنی شرائط وضوابط کے مطابق ا ن کو  اجارہ کی سہولت آفر کرتا ہے۔ یوں دونوں کی باہمی رضامندی  سےاجارہ یا لیزنگ کامعاہد ہ طے پاتاہے۔

سلم واستصناع

اسلامی بینکنگ کے موڈ آف فائنانس میں ایک اہم موڈ سلم واستصناع ہیں۔ بیع سلم میں کسی بھی چیز کی قیمت ایڈوانس وصول کی جاتی ہے ۔ اور عوض میں وہ پروڈکٹ کچھ عرصہ بعد  خریدار کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس کی زیادہ ضرور ت استصناع  کے کاموں میں پیش آتی ہے۔ یعنی ان چیزوں کے کاروبار میں جنہیں اسپیشل  آرڈر دے کر تیار کروائی جاتی ہیں۔ مثلا فرنیچر اور کپڑوں کی سلائی وغیرہ۔ اسی کو عربی زبان میں استصناع کہا جاتاہے۔ چنانچہ سلم واستصناع ایک دوسرے سے لازم وملزوم موڈز آف فائنانس  ہیں۔

اسلامی بینکنگ میں سلم واستصناع  کا استعمال موڈ آف فائنانس کے طور پر بہت زیادہ ہے۔اس موڈ آف فائنانس کا  اسلامی بینکنگ انڈسٹری میں باقاعدہ   اسٹینڈرڈ  موجودہے۔ جس میں اسلامی بینکوں کی رہنمائی کیلئے اس کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔ یہ اسٹینڈرڈ (معیار) انٹرنیشنل اسلامک بینکنگ ادارے کی طرف سے شائع شدہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے اسلامک بینکنگ انڈسٹری کیلئے باقاعدہ نافذ کردہ ہے۔ ان شااللہ اس کی تفصیلات سلم کے مستقل آرٹیکل میں بیان کی جائیں گی۔

 شرکت متناقصہ (ڈیمینشنگ مشارکہ)

شرکت متناقصہ ، شراکت داری یا تجارت  کی ایک خاص قسم ہے جس میں بینک اور صارف مل کر ایک اثاثے کو خرید کر اس کے مالک بن جاتے ہیں۔ اب چونکہ بینک سرمایہ کار کے طور پر صارف کے ساتھ مل کر اس اثاثے کو خریدتاہے لہذا وہ اپنے حصے کو یونٹس میں تقسیم کرکے اپنے حصے کا کرایہ صارف سے وصول کرتارہتا ہے ۔ اور  ساتھ ہی ایک ایک یونٹ کرکے صارف کے ہاتھ اپنا حصہ فروخت کرتا رہتا ہے۔  یہاں تک کہ  بینک کے تمام یونٹس خرید کر صارف اس اثاثے کا پورا مالک بن جاتا ہے۔

آسانی کیلئے مثال پیش خدمت ہے۔

مثلا زید کو ایک مکان خریدنا ہے جس کی قیمت دس لاکھ روپے ہے۔ لیکن زید کے پاس صرف پانچ لاکھ روپے ہیں۔ اب زید اسلامی بینک کےپاس جاتاہے اور اس سے شرکت متناقصہ ایگریمنٹ کرتاہے۔ جس کے نتیجے میں بینک پانچ لاکھ روپے فراہم کرتاہے۔ اب دونوں مل کردس لاکھ کا مکان خریدتے ہیں۔ یہ مکان خریدنے کے بعد زید کے حوالے کیا جاتاہے اور زید اس مکان کو استعمال کر نا شروع کرتاہے۔

اس مکان کا پچاس فیصد حصہ زید کا جبکہ پچاس فیص حصہ  بینک کا ہے۔ لہذا بینک اپنے پچاس فیصد حصے کو پانچ یونٹس میں تقسیم کرے گا۔  اور سال میں ایک یونٹ زید کے ہاتھ بیچنا شروع کردے گا۔ اور دوسری طرف جب تک بینک کے یونٹس خریداری سے پہلے زید کے زیر استعمال ہیں بینک ان کا کرایہ وصول کرتا رہے گا۔

یوں ایک معاہدے کے تحت شرکت متناقصہ (ڈیمنشنگ مشارکہ ) کے اسلامی پراڈکٹ کے ذریعے اسلامی بینکنگ  اپنا بزنس کرے گی۔  اور کسٹمر ربافری  یعنی سود سے پاک بینکاری سے  اپنی ضروریا ت پور ے کریں گے۔

اسلامک بینکنگ اینڈ فائنانس کے حوالے سے اگرآپ کی بھی کوئی رائے ہو ، تو کمنٹ باکس کے ذریعے ہمیں اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔  اگر اس حوالے سے آپ کاکوئی سوال ہو توبھی کمنٹ باکس کے ذریعے ہمارے ساتھ شئیر کیجئے۔ بصورت دیگر ای میل کے ذریعے ہمیں اس ایڈریس پر ارسال کرسکتے ہیں۔

Edutarbiyah@gmail.com

یہ بھی پڑھیئے:

پاکستان میں تعلیم و تربیت کے مسائل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button