
تعلیم اور تربیت میں بنیادی فرق کیا ہے؟
تحریر : ڈاکٹرمحمد یونس خالد
عام طور پر تعلیم وتربیت کے یہ دولفظ ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سےعموما ان دونوں میں فرق کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم بھی ہیں۔ یعنی تعلیم ،تربیت کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی۔ اور تربیت تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں موجودہ تعلیمی نظام میں ان دونوں کو الگ کرلیا گیا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام سے جو سرگرمی سر انجام دی جاتی ہے۔ اس میں سے تربیت کو تقریبا جدا ہی کردیا گیا ہے۔
جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے۔ کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ افراد کو بعد میں الگ سے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اداروں سے تعلیمی ڈگری تو حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن اخلاقی اور کرداری معیار نہایت پست ہوتا ہے۔ یہاں ہم تعلیم اور تربیت میں فرق کو ذراواضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
:تعلیم
اگرہم تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کریں، توتعلیم دراصل سیکھنے سکھانے اور شعور کو بہتر بنانے کا ایک عمل ہے۔ جس سے بچے علم، ہنر، اقدار، عقائد اور عادا ت کو شعوری طورپر سیکھ سکتے ہیں۔ یعنی تعلیم کا تعلق براہ راست انسانی شعور اور فہم کے ساتھ ہے ۔ یہ شعور کی بہتری اور فہم کی افزائش میں مدد فراہم کرتی ہے۔
مشہورماہرتعلیم مارک کے اسمتھ نےتعلیم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ کہ یہ سچائی اور امکان کو مدعو کرنے کا عمل ہے۔ جس میں حق، سچائی اور امکان کو مدعو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اوران خصوصیات کو شعوری طورپر دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جب ہم نے تعلیم کے مقصد پر غور کرناشروع کیا۔ تو دو طرح کے مقاصد ہمارے سامنے آئے۔ ایک مغربی پیراڈائم یا تناظر میں تشکیل پانے والا مقصد۔ جبکہ دوسری طرف اسلامی تناظر میں تشکیل پانے والامقصد ۔ ہم یہاں پر دونوں کو مختصرااپنے قارئیں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے ہم مغربی پیراڈائم میں تشکیل پانے والے مقاصدکو ذکر کریں گے۔جو مختلف ماہرین کی طرف سے پیش کئے گئے۔
چنانچہ ایک ماہرتعلیم کی نظر میں تعلیم کا مقصد یہ ہے۔ کہ بچے میں تجسس اور سیکھنے کے لئے رغبت پیدا کی جاسکے۔ تاکہ وہ ایسے بالغ فردکے طورپر نشوونماپائے۔ جو انسانیت کی فلاح میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ وہ خوداعتماد ہواور زندگی میں اپنی صلاحتیوں کے مطابق اپنا کردار اداکرنے کے لئے پرجوش بھی ہو۔
ایک اور ماہر تعلیم کے مطابق تعلیم کامقصد عقل وشعور کو فروغ دینا اورمعاشرتی ضروریات کی تکمیل کرنا ہے ۔ اس کا ایک اور مقصد بچوں کو معاشی سرگرمیوں میں شراکت کے قابل بناناہے۔ نیز طلبا کو ملازمت کے لئے تیار کرنے کے علاوہ ان کو خاص کیریئر ، خاص معاشرتی، معاشی یا سیاسی کردار کے لئے تیار کرنا بھی ہے۔
مزید پڑھیے
دینی تناظر میں تعلیم کا مقصد
جب ہم دینی تناظر میں تعلیم کا مقصد جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تومعلوم ہوتاہےکہ دین میں تعلیم کا بنیادی مقصد خدا کی معرفت اور تہذیب نفس ہے۔ دوسرے الفاظ میں بامعنی اور بامقصد زندگی گزارنے کے قابل ہونا ہے۔ دین یہ کہتاہے کہ تم تعلیم اس لئے حاصل کرو تاکہ تم اپنے آپ کو پہچانو پھر اللہ کو پہچانو۔اس کی ذات اور صفات کو نہ صرف پہچانو۔بلکہ اس پر ایمان بھی اس انداز سے لے آو جو اس کا حق ہے۔
اس کے علاوہ تعلیم کاایک بنیادی مقصد اپنے نفس کی حقیقت، اسکے خصائل اور رذائل کو پہچاننا بھی ہے۔ یعنی یہ جاننا کہ میری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ پھر اس علم کا نتیجہ یہ ہو۔کہ نفس کا تزکیہ کرکے نفس کو شرور سے پاک کرنے اور تقوی سے اسے مزین کرنے کی کوشش شروع کی جائے۔
باقی ثانوی مقاصد کئی ہوسکتے ہیں۔ مثلا یہ کہ ہمیں دنیا میں رہنا ہےتو تعلیم کے ذریعے اپنے شعورکو پروان چڑھانا ہے۔ یہاں کی معاشرت کے کیاتقاضے ہیں؟ اس کی معیشت کے کیا تقاضے ہیں؟یہاں رہتے ہوئے خالق اور مخلوق سے تعلقات میں کیسے توازن رکھنا ہے۔ خالق اور مخلوق کے حقو ق کیسے اداکرنے ہیں؟ دنیا میں رہتے ہوئے رزق کمانے کے کونسے کونسے ذرائع ہیں؟ وغیرہ وغیرہ
فارمل ایجوکیشن(رسمی تعلیم )
تعلیم کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم فارمل ایجوکیشن جسے رسمی تعلیم بھی کہاجاتا ہے۔ یہ تعلیم انسٹیٹیوشنز اور اداروں کے ذریعے رسمی طور پر دی جاتی ہے۔ اسکول و کالج ،یونیورسٹی اور مدارس وغیرہ میں دی جانی والی تعلیم اس کی مثال میں پیش کی جاسکتی ہے۔ ان اداروں کے تعلیمی ماحول میں مخصوص اور منظم ہدایات کی فراہمی کے ذریعے یہ تعلیم دی جاتی ہے۔ اور تعلیمی مراحل کی کامیاب تکمیل پر ڈگری عطاکرجاتی ہے۔ اس پروسس کو فارمل ایجوکیشن کانام دیا جاتاہے۔
نان فارمل ایجوکیشن(غیر رسمی تعلیم)
اس کو غیر رسمی تعلیم بھی کہتے ہیں۔ یعنی وہ تعلیم جو غیررسمی انداز سے حاصل کی جاتی ہو۔ یہ تعلیم ماں باپ کی تربیت، گھرکے ماحول، محلے کی مسجد ،نشریاتی اداروں انٹرنیٹ، ٹی وی ، اخبارات اور جرائدورسائل کے ذریعے حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ جمعے کے بیانات، سیاسی جلسوں اور معاشرتی میل جول سے جومعلومات اور تجربات حاصل ہوتے ہیں، انہیں بھی نان فارمل ایجوکیشن کہتے ہیں۔
تربیت کیا ہے؟
تربیت کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے جس کا مادہ (ر ب ی)ہے۔ عربی میں (ربی، یربی) اور مصدر تربیۃ کے معنی بچہ کی پرورش کرنے، پالنے اورمہذب بنانے کے آتے ہیں۔ تربیت درحقیقت وہ فن ہے جسے انسان سازی کا فن بھی کہا جاتا ہے۔انسان دوعناصر کا مجموعہ ہے ۔ایک ظاہری جسم جو انسان کے علاوہ ہردوسری مخلوق کے پاس بھی ہوتاہے۔ جبکہ انسانی ترکیب کا دوسرا اہم عنصر اس کے اخلاق وعادات، مہارتیں،اعمال وکردار، اس کی سوچ وافکار اور مجموعی رویے ہوتے ہیں جو اسے اخلاقی وجود عطا کرتے ہیں۔
انسانی ترکیب کا یہ دوسرا حصہ ہی ہے۔ جو اسے دنیا کی دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتا ہے۔ بلکہ انسان کی اصل شناخت اس کے کرداری واخلاقی وجود سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ اسی سے انداز لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے لئے اور معاشرے کے لئے کتنا مفید ہے۔ یا اپنے منفی کردار واخلاق کی وجہ سے معاشرے کے لئے کتنا مضر اورنقصان دہ ہے؟
ایک اور تعریف کے مطابق انسان کی بالقوہ فطری صلاحیتیوں کو پروان چڑھا کر انہیں بالفعل بنانے اور غیر فطری رجحانات کو ختم کرنے کی کوشش کو تربیت کہا جاتا ہے۔
یوں تربیت کا ہدف سلامتی جسم، پرورش عقل وشعور،تجربات ومہارت اورنیک اخلاقی صفات میں اضافہ کرکے اس کے اندر کے غیرفطری اور غیر اخلاقی یانقصان دہ عادتوں کو ختم کرکے انسان کو کمال کے اعلی ترین ممکنہ درجے پر فائز کرنا ہے۔

حق کی پہچان انسان کافطری داعیہ ہے۔
انسان کی فطرت میں حق کی پہچان قدرت کی طرف سے پیدائش کے وقت سے ہی ودیعت کی جاتی ہے۔ بلکہ اس سے بھی پیچھے جائیں توقرآن کریم کی رو سے عہدالست میں اسی فطری رجحان کی موجودگی کی طرف نہ صرف اشارہ کیا گیا۔ اور اس کا عہد بھی لیا گیا تھا۔ اگر ا نسان کو فطری ماحول مہیاکیا جائے ۔ جس میں فطرت کی پہچان تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ تو اس کے لئے حق کو پہچاننا اور اس پر قائم رہنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا۔
لیکن اگر فطری ماحول کو والدین یا معاشرے کی طرف سے مکدر بنادیا جائے۔ فطرت کی پہچان کے آگے بند باندھ دیا جائے۔ یا اس سے پیٹھ پھیرنے پر مجبور کردیا جائے۔ تو پھر بچے کے لئے حق کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کل مولودیولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ (۲) “ہر بچہ اللہ کی طرف سے فطرت(اسلام) پر پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے والدین اسے یہودی بنادیتے ہیں نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔“
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت میں بذات خود کوئی برائی یا بغاوت کا عنصر غالب نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ والدین یاگھر کا ماحول ہوتا ہے جو انسان کو حق سے منہ موڑنے اور حق سے انحراف کرنے پرمجبور کردیتاہے۔ یا حق کو پہچان کر اس پر جمنے میں مدد دیتا ہے۔
دوسری طرف انسان اپنی پیدائش کے وقت قدرت کی طرف سے اچھائی اور برائی دونوں کی فطری استعداد لے کر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فالھمھا فجورھا وتقواھا (۳) پس انسان کے نفس میں گناہ اور نیکی کی استعداد کو القاء کیا گیا۔یعنی انسان کواستطاعت اور اختیار عطا کیا گیا۔کہ وہ چاہے تو گناہ بھی کرسکتا ہے اورچاہے نیکی کا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے۔
تربیہ کا ایک اہم مقصد
اب تربیت کا مقصدیہ ہے کہ بچے کی پرورش اس انداز سے کی جائے۔ کہ اس میں نیکی اور اچھائیوں کی حس کو مضبوط اور توانا کیا جائے۔ اس کے کردار واخلاق کو پالش کرکے اسے معاشرے کے لئے امکانی حد تک مفید اور بارآور بنادیا جائے۔ اس میں ضروری مہارتیں پیدا کر کے اسے ہنرمند بنا نے کی کوشش کی جائے۔
اس کے ساتھ ہی اس کے نفس میں موجود برائی اور فجور کی حس کو کمزور کیا جائے۔ نفس کا تزکیہ کرکے نفسانی خواہشات پر کنٹرول رکھنے کی عادت ڈالوائی جائے۔ نیزاس بچے میں موجود ہر قسم کے نقائص اور عیوب کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
یوں تربیت انسانی شخصیت میں موجود اچھائیوں کو اجاگر کرنے اورمفید مہارتو ں کو جلابخشنے کے علاوہ شخصیت میں موجود برائیوں کے رجحان کو کم کرنے یا ختم کرنے کی مربوط کوشش کانام ہے۔ تاکہ انسان اپنے لئے اور معاشرے کے لئے امکانی حد تک مفید بن سکے۔ اور تمام ضرر رساں اعمال وافعال اور رویوں سے اجتناب کرے۔ یوں معاشرہ اس کے ضرر سے محفوظ رہ کراس کے فوائد سے لطف اندوزہوسکے۔
دورحاضر میں علم بڑھ رہا ہے اوراخلاقی اقدار کمزور ہورہی ہیں۔
تعلیم وتربیت میں فرق کا حاصل یہ ہوا ۔کہ تعلیم انسانی فہم اورشعور کی سطح کی چیز ہے۔ جس سے انسان اچھائی کو اچھا اور برائی کو برا جان سکتاہے۔ یعنی اس چیزکی اچھائی یابرائی محض اس کے علم میں آتی ہے۔
جبکہ تربیت اس سے آگے کی سطح کی چیز ہے ۔جس میں شعوری علم اس کے مزاج کاحصہ بن جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اچھائی اس کو اچھی لگنے لگتی ہے۔ اور برائی اسے بری لگنے لگتی ہے۔یعنی اس کامزاج اور اسکی طبیعت اس علم کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔
اگر ہم اس کا انطباق آج کے دور کی علمی سرگرمیوں پر کریں تو واضح طور پر پتہ چلے گا۔ کہ آج علمی سرگرمیاں تو بہت ہیں۔ لیکن تربیت کے فقدان کی وجہ سے وہ شعوری علم ہمارے مزاج اور طبیعت کا حصہ نہیں بن پاتا ۔ جس کی وجہ سے دنیا میں علم کی بہتا ت کے باجود انسانی شرافت ختم ہوتی جارہی ہے۔
1 Trackback / Pingback