Self development

اقبال کی شاعری اور سیلف ڈیویلپمنٹ

سیلف ڈیویلپمنٹ دراصل خود اپنی زات کی تعمیر ترقی اور ارتقاء کا نام ہے اور اقبال کے کلام میں پائے جانے والے سیلف  ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے  بڑی گہری تاتیں  پائی جاتی ہے ۔زیر نظر مضمون میں اس حوالے سے علامہ محمد اقبال کے اشعار اوران میں پائے جانے والے  سیلف ڈیویلپمنٹ کے موضو عات کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے ۔جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اقبال کے اشعار میں ہمیں جابجا سیلف ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے رہنمائی ملتی ہے ۔ آج کے اس پر آشوب دور میں کہ جب  ہر طرف مسائل اور پریشانیوں کا نہ ختم ہونیوالا لامتناہی  سلسلہ جاری ہے جو  کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔اور ان  چہار۔ سو پھیلے مسائل اور پریشانیوں سے نکلنے کا کوئی واضح راستہ بھی سجھائی نہیں دے رہا  ۔قومیں وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے کرتے بام عروج پر جا  پہنچیں اور ہمارے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔شاید کسی ایسی ہی صورت حال کو دیکھ کر غالب نے کہا تھا۔

حیراں ہوں رووں دل کو کہ پیٹوں  جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

اقبال جب ایسی  صورت حال سے دوچار ہوئے تو کہا

ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ضمیر مشرق ہے راہبانہ

وہاں دگرگوں ہے لمحہ لمحہ یہاں بدلتا  نہیں زمانہ

بنظر غائر اگر دیکھا جائے تو ہمارے مسائل کی ایک  بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو نہیں بدلا ہم۔ اپنی ذات کے حوالے سے بے خبر رہے جس کی بنا پر دنیا ہم سے آگے نکل گئی اور ہم پیچھے رہ گئے۔ ہم نے سیلف ڈیولپمنٹ   یعنی تعمیر شخصیت کے حوالے سے خود پر کام نہ کیا سیلف ڈیولپمنٹ   یعنی اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش و جستجو کر نا  ۔یہ آج کے دور کی اہم ضرورت ہے اور ہمارے موجودہ تمام مسائل کا حل بھی ہے۔

سیلف ڈیویلپمنٹ اور کلام اقبال پر بات کی جائے تو اقبال کی شاعری کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے  یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اقبال کی شاعری میں ہمیں جا بجا سیلف ڈیولپمنٹ   کے حوالے سے اشعار ملتے ہیں۔ سیلف ڈیولپمنٹ کے حوالے  سے کلام اقبال میں ہمیں جا بجا رہنمائی ملتی ہے۔اقبا ل کی شاعری کا مرکز ومحور انسان ہےوہ مومن بھی ہے ۔ وہ مجاہد بھی ہے، وہ بندہ خدا بھی ہے اور راضی برضا بھی۔وہ نوجوان ہے تو اقبال اس میں عقابی روح بیدار دیکھنا چاہتے  ہیں۔بلند پروازی ‘ ہمت اور ان تمام اوصاف سے ہمکنار  دیکھنا چاہتے ہیں جو ایک کامل واکمل انسان میں ہوتی ہیں

اگر وہ فرد ہے تو اقبال اسے ایسا مکمل فرد دیکھنا چاہتے ہیں  جو کہ ملت کے مقدر کا ستارا ہو۔اقبال کی ساری شاعری ہمیں سیلف ڈیولپمنٹ   کے ارد گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ سیلف ڈیولپمنٹ   اور اقبال ایک دوسرے سے جدا جدا نہیں۔اقبال نے اپنی شاعری سے جہاں مسلمانان برصغیر میں آزادی اورحریت کی روح پھونکی وہیں فرد واحد بھی اقبال کے خیالات وافکار سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔

قومیں افراد سے مل کر بنا کرتی ہیںاور قوموں کو اچھا بنانے کے لئے اچھے افراد کی ضرورت ہوا کرتی ہےاور سیلف ڈیولپمنٹ  اوراقبال کے افکار وخیالات اس سلسلے میں ہماری بڑی حد تک رہنمائی کرتے ہیں۔

افراد کے ہا تھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

سیلف ڈیویلپمنٹ کا ایک پہلو اپنے معاشرے اور ملت کے ساتھ جڑ کر  رہنا اور ان کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنا بھی ہے۔ سیلف ڈیویلپمنٹکو جب اقبال کی شاعری کے تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں کا نقطہ نظرملتا جلتا ہے۔اقبال فرماتے ہیں۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

اقبال کے نزدیک افراد ہی کسی قوم وملت کے پاسباں ہیں اور ان کی سیلف ڈیویلپمنٹ یعنی تعمیر شخصیت کا مکمل ہونا بہت ضروری ہے۔

سیلف ڈیویلپمنٹ اور اقبال

اقبال جیسے جہاندیدہ شخص نے آج سے برسوں قبل ان راہوں اور منزلوں کوکھوج لیا تھاکہ جن پر چل کر افراد یا اقوام عالم ترقی کے زینے طے کرتےکرتے بام عروج پر جا پہنچے۔ان ترقی کے زینوں کوطے کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے- اقبال اسے بخوبی جانتے ہیں وہ ہے سیلف ڈیولپمنٹ  یعنی تعمیر شخصیت ۔ خود کو ثابت کرنے کے لئےاور دیگر ترقی یافتہ اقوام عالم کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم چلنے کے لئے ہمیں اپنی سیلف ڈیولپمنٹ  یعنی تعمیر شخصیت کو بہتر بنانے کا سشورہ دیتے ہین ۔

نوجوان سیلف ڈیویلپمنٹ اور اقبال

اقبال کو اپنے نوجوانوں سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اقبال اپنے نوجوانوں کو ستاروں سے بھی آگے جانے کا درس دیتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ ہر لمحہ نئی سے نئی منزل کی تلاش میں رہیں۔وہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں اقبال فرماتے ہیں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالم رنگ وبو پر

تیرے سامنے جہاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیر ا

تیرے سامنے آسماں اوربھی ہیں

اقبال اپنے نوجوانوں کو عمل میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ سیلف ڈیولپمنٹ   کا اصول ہے کہ اپنے وقت کو ضائع نہ کریںاسی طرح اقبال بھی اپنے نوجوانوں کو خوب سےخوب تر کی تلاز میں عمل پیرا دیکھنا چاہتے ہیں۔اس مقصد کے لئے وہ انہیں نئی نئی منزلوں کا پتہ  دینے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں۔اقبال فرماتے ہیں۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلا ش کر

ٹائم منیجمنٹ کا تصور

 ٹائم مینجمنٹ یا تنظیم اوقات سیلف ڈیولپمنٹ   کا اہم موضوع ہے اپے وقت کی مناسب تنظیم اور اپنے کاموں کو صحیح وقت پر انجام دینا انتہائی ضروری ہے۔

اگر اس طرح  نہ کیا گیا تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا  ۔اور پھر ہمیں اس کی بڑی قیمت چکانا ہوگی۔اقبال نے اس بات کو اپنے  اشعار  میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے ۔فرماتے ہیں۔

وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا

جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

اقبال ہمیں   وقت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو قوم اپنے آج کو نہیں سنوارتی اس کا آنے والے کل کی خوشحالی پر بھی کوئی حق نہیں ہے یعنی اقبال فرماتے ہیں کہ اگر آج وقت کو ضائع کردیا تو آنے والا کل بھی تمھارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔اقبال مزید فرماتے ہیں کہ۔

آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر وسناں اول طاوس ورباب آخر

اقبال فر ماتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ٹائم مینجمنٹ یعنی تنظیم وقت کا خیال رکھیں اور لھو لعب کے معاملا ت سے دور رہیں۔

مائنڈ سیٹ اور بلیف سسٹم کا تصور

مائنڈ سیٹ یا بلیف سسٹم دراصل ہماری وہ پختہ سوچیں اور خیالات ہوا کرتے ہیں جو کسی بھی قسم کےتجربات کے نتیجے ہمارے لا شعوری دماغ کا حصہ بن جاتے ہیں۔یہ خیالات ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں۔ سیلف ڈیولپمنٹ اور اقبال کے کلام میں ہمیں جا بجا ایسے  نکات ملتے ہیںجو اسطرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ جب تک ہم ایسی سوچوں اور خیالات پر قابو نہیں پا لیتے باالفاظ دیگر اپنے مائنڈ سیٹ پر قابو نہیں کرتے تو ترقی وخوشحالی سے ہم کبھی ہم کنار نہ ہو پائینگےاقبال فرماتے ہیں۔

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواض

کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا

اقبال فرماتے ہیں کہ اگر سمندر سے موتی چاہیئں تو ساحل کی دوستی کو چھوڑنا پڑے گا۔ان سوچوں سے چھٹکارا پانا ہوگا جو ہمیں سمندر میں اترنے نہیں دے رہیں۔اس کے بعد ہی ہم سمندر سے موتی نکال سکتے ہیں۔خوف سمندر کو دل ودماغ سے کھرچ ڈالو سمندر کے سچے موتی تمھارے ہاتھ آجا ئینگے۔اقبال اس کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ۔

خدا تجھے بھی کسی طوفاں سے ہمکنار کرے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

سیلف ڈیولپمنٹ کے مطابق جب تک ہم آرام طلبی کو چھوڑ کر عمل کی وادیوں  میں قدم نہیں رکھتے اس وقت تک ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

کریکٹر بلڈنگ کا تصور

سیلف ڈیولپمنٹ میں کردار سازی (کریکٹر بلڈنگ) بڑی اہمیت کا حامل موضوع ہے۔کردار سازی سیلف ڈیویلپمنٹ اور اقبال کی نگاہ میں  بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔کردار ہی انسان میں ایک ایسی شے ہےجو کہ اسے دوسرے انسانوں سے ممتاز بناتا ہے۔کردار کی بنیاد پر ہی ہم کسی کو اچھا یا برا  تصور کرتے ہیں جہاں سیلف ڈیولپمنٹ ہماری کردار سازی کی طرف اشارہ کرتی ہے وہیں اقبال کے کلام میں ہمیں کردار سازی پر جابجا اشعار ملتےہیں۔

راز ہے رازہے تقدیر جہاں تگ وتاز

جوش کردار سے کھل  جاتے  ہیں تقدیر کے راز

جوش کردار سےشمشیر سکندر کا طلوع

کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان

مستقل مزاجی کا تصور

سیلف ڈیویلپمنٹ ہمیں مستقل مزاجی کا تصورعطا کرتی ہے۔ سیلف ڈیویلپمنٹ اور اقبال کے مطابق مستقل مزاجی کامیابی کی کلید ہےاور یہی مستقل مزاجیانسان کو منزل تک پہنچادیتی ہے۔مستقل مزاجی انسا ن کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔یہ وصف جب انساں سے جدا ہو جائے تو اس کا کوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ اقبال اسی مستقل مزاجی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ۔

پلٹنا جپھٹنا جپھٹ کر پلٹنا

لھو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

کھو نہ جااس سحر وشام میں اے صاحب ہوش

اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا نہ دوش

وہی جہاں ہےتیرا جس کو تو کرے پیدا

یہ سنگ وخشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے

خود اعتمادی کا تصور

سیلف ڈیولپمنٹ کے موضوعات میں خود اعتمادی ایک اہم موضوع ہے۔اور یہ خود اعتمادی ہی انسان کے اندر آگے بڑھنےکی ترغیب کو پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ سیلف ڈیولپمنٹ اور اقبال دونوں ہی اس بات کے قائل ہیں کہاگر کسی انسان میں خود اعتمادی نہ ہو تو وہ انسان آگے نہیں بڑھ سکتا۔خوداعتمادی ہی  کامیابیوں کے در انسان پر وا  کرتی ہےاور اسکی کمی  یا اس کے نہ ہونے سےانسان تباہیوں اور ناکامیوں سے ہمکنار رہتا ہے۔ جب کوئی انسان خود اعتمادی کو کو کھو دیتا ہے  تو وہ کسی کام کے قابل نہیں رہتا۔اسی کو اقبال اپنے کلام میں یوں فرماتے ہیں کہ۔

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ

جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

میں ظلنت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے در ماندہ کارواںکو

 شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ بار ہوگا

کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفاں سے کیوں

ناخدا تو ساحل بھی تو بحر بھی تو کشتی بھی تو

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو

کر اس کی حفاظت کہ ہے گوہر یگانہ

ہرشیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے

پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر

 حرف آخر

اقبال کے کلام کے سرسری جائزے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کلام اقبال میں خوداعتمادی، مستقل مزاجی، تنظیم وقت،کریتر بلڈنگ،مائنڈ سیٹ وبلیف سسٹم،وغیرہ کے حوالے سےاشعار بکھرے  پڑے ہیں۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم ان سے متا ثر ہو کر کس طرح انہیں اپنی عملی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔

مزید پڑھیں سیلف ڈیویلپمنٹ کی ضرورت و اہمیت

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button