اسلامی معلوماتفقہ اسلامی

عشرہ ذوالحجہ کے مسائل ،فضائل واحکام اور اس کی اہمیت

عشرہ ذوالحجہ کے فضائل واحکام اور مسائل پر مشتمل یہ مضمون ذی الحجہ شروع ہونے سے ایک دن پہلے شائع کیا جارہا ہے عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے تاکہ ہرمسلمان اسے پڑھے اور اس عشرہ ذوالحجہ سے متعلق شرعی مسائل ،احکام سے واقفیت حاصل کرےاوراس کی اہمیتاور فضائل سے آگاہ ہو  اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

ذو الحجہ کے معنی حج والا مہینہ ہےقرآن وحدیث میں عشرہ ذوالحجہ کے فضائل بڑی صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اہمیت وفضیلت کے اعتبار سے بھی یہ عشرہ ذوالحجہ بڑی اہمیت کا حامل ہے  ذوالحجہ کا مہینہ اسلامی اور ہجری کیلنڈرکا آخری مہینہ  ہے۔ یوں اسلامی سال کے اعتبار سے ہماری عمرعزیز کا ایک سال اور کم ہونے جارہا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں فکرمندی کے ساتھ اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔جس طرح اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے تین عشرے بنائے۔ ہر عشرے کی اپنی خاص فضیلت رکھی، اور آخری عشرہ سب سے زیادہ فضیلتوں والا قرار پایا۔ اسی طرح ذی الحجہ کے مہینے کا یہ عشرہ یعنی یکم ذی الحجہ سے دس ذی الحجہ تک رمضان کے عشرہ اخیرہ کے بعد سب سے زیادہ فضیلتوں والا عشرہ ہے۔ اس عشرے میں کئے جانے والے اعمال کا خاص اجروثواب رکھا گیا ہے۔ آئیے ہم اس کی کچھ وضاحت کردیتے ہیں۔

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل

عَن أنس بن مَالك ﷺ قَالَ كَانَ يُقَال فِي أَيَّام الْعشْر بِكُل يَوْم ألف يَوْم وَيَوْم عَرَفَة عشرَة آلَاف يَوْم قَالَ يَعْنِي فِي الْفضل، (رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ والأصبهاني)

حضرت انس بن مالک رضی الللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت  کے بارے میں کہا گیا ہے کہ فضیلت میں اس کا ایک دن ہزاردنوں کے برابر اور عرفہ کا دن یعنی نو ذوالحجہ کا دن دس ہزاردنوں کے برابر ہے۔

عشرہ ذوالحجہ کے اعمال کا اجروثواب

عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ” مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْكَى عِنْدَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا أَعْظَمَ مَنْزِلَةً مِنْ خَيْرِ عَمَلٍ فِي الْعَشْرِ مِنَ الْأَضْحَى (شرح مشكل الآثار )

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نیکی کا کوئی بھی کام اللہ کے نزدیک قدرومنزلت میں عشرہ ذی الحجہ میں کئے جانے والے اعمال سے بڑھ کر نہیں ہیں۔

 عشرہ ذی الحجہ کے پسندیدہ اعمال

 قَالَ رَسُول ﷺ  مَا من أَيَّام أفضل عِنْد اللہ وَلَا الْعَمَل فِيهِنَّ أحب إِلَى اللہ عز وَجل من هَذِه الْأَيَّام يَعْنِي من الْعشْر فَأَكْثرُوا فِيهِنَّ من التهليل وَالتَّكْبِير وَالذكر وَإِن صِيَام يَوْما مِنْهَا يعدل بصيام سنة وَالْعَمَل فِيهِنَّ يُضَاعف بسبعمائة ضعف(الترغيب والترهيب)

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کو عشرہ ذی الحجہ میں جتنے اعمال محبوب ہیں اتنا زیادہ کسی اور دنوں کے اعمال محبوب نہیں۔ لہذا ان دنوں میں سبحان اللہ، الحمدللہ اور لاالہ الا اللہ کثرت سے پڑھا کرو۔ اگرعشرہ ذی الحجہ میں سے کوئی ایک دن کسی نے روزہ رکھا تو سال بھر روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اور ان دنوں میں نیک اعمال کا اجر سات سوگنا تک بڑھادیا جاتا ہے۔عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت اور ٖفضائل کا ان احادیث کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی کیا قدرومنزلت ہے ۔

روزے اور رات کی عبادت کا ثواب

عن النبي ﷺقال: ما من أيام أحب إلی اللہ أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة، يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة، وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر.( سنن الترمذی)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ میں اللہ کو اپنی عبادت بہت زیادہ پسند ہے۔ اس میں ایک دن روزے کا ثواب سال بھر روزے رکھنے کے برابر ملتا ہے اور رات کو قیام کرنے سے لیلۃ القدر کے برابر ثواب ملتاہے۔

عشرہ ذوالحجہ کا ثواب جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ

قال رسول ﷺ: «ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلى من هذه الأيام» يعني أيام العشر، قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: «ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله، فلم يرجع من ذلك بشي۔ (سنن ابی داوود)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں جو نیک عمل کیا جائے اللہ کی بارگاہ میں دوسرے دنوں میں کئے جائے والے اعمال کے مقابلے میں وہ سب سے زیادہ فضیلت والا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ کیا یہ جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ افضل ہے۔ فرمایا جی ہاں۔ اس کے بعد فرمایا کہ اس مجاہد فی سبیل اللہ کا عمل بہرحال مستثنی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال لے کر نکلتا ہے اورپھر کچھ بھی واپس نہیں آتا۔

اس حدیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ عام دنوں میں کیاجانے والا کوئی بھی نیک عمل فضیلت کے اعتبار سے اس عمل سے کمتر ہے، جوعشرہ ذی الحجہ میں نیک عمل کیا جاتا ہے۔ لیکن عشرہ ذی الحجہ کی خاص فضیلت سے ایک چیز مستثنی ہے اور وہ یہ کہ کوئی بندہ عام دنوں میں بھی اللہ کی رضا کیلئے اس کی راہ میں جہاد کیلئے نکلے، اور پھر جان و مال سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹادے۔ یعنی اس کی کوئی چیز بھی واپس نہ آئے۔ ظاہرہے اس شہادت کی فضیلت بہرحال بہت زیادہ ہے۔

عشرہ ذوالحجہ کے مخصوص اعمال

عشرہ ذوالحجہ کے فضائل کے بعد یہاں اس عشرے کے کچھ احکام، شرعی مسائل اور کرنے کے کاموں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ تاکہ اس عشرے کی فضیلتوں سے ہم سب مستفید ہوسکیں۔

اس عشرے کے اہم ترین کام مندرجہ ذیل ہیں۔

حج کی ادائیگی

قربانی کی ادائیگی

عشرہ ذی الحجہ کے نفلی اعمال

قربانی کے احکام ومسائل

عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کٹوانے کا حکم

قَالَ رَسُولُ ﷺ : «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا» وَفِي رِوَايَةٍ «فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفْرًا» وَفِي رِوَايَةٍ «مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ۔ (رَوَاهُ مُسلم )

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عہنا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہو تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ دوسری روایت میں فرمایا کہ کوئی شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنا چاہتا ہوتو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔

فقہا نے لکھا ہے کہ یہ ممانعت ننزیہی ہے یا بال اور ناخن کاٹنا مکروہ تنزیہی ہے۔ یعنی بال اور ناخن کاٹنے سے رک جانا مستحب عمل ہے واجب نہیں۔ جواس حدیث کے مطابق عمل کرے گا انشااللہ اجروثواب کا مستحق ہوگا۔ اور اس پرعمل نہ کرنا خلاف اولی کہلائے لیکن گناہ نہیں ہوگا۔ اگرکسی کوکوئی عذرہو یا بال اور ناخن زیادہ بڑھے ہوئے ہوں تو ان کو کٹوانے  میں کوئی حرج نہیں۔

یوم عرفہ کا روزہ اوراس کی فضلیت واہمیت

صيام يوم عرفة، أحتسب على أن يكفر السنة التي قبله، والسنة التي بعده (صحيح مسلم)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یوم عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کا روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کیلئے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔

فرمایا کہ 9 ذوالحجہ کا روزہ بہت زیادہ فضیلت والا ہے۔ اس روزے سے اللہ تعالی ایک سال پہلے کے گناہ معاف فرمائیں گے اور آئندہ سال کے گناہوں کی معافی کی گارنٹی بھی مل جائے گی کہ اللہ تعالی وہ گناہ بھی معاف فرمائیں گے۔ تاہم اس سے مراد گناہ صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ہیں۔ گناہ کبیرہ کیلئے باقاعدہ توبہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

نوذوالحجہ کے روزے کی یہ فضیلت ان لوگوں کیلئے ہے جواپنے مقام پر قیام پذیر ہیں حج کے سفر پر نہیں گئے ہیں۔ ورنہ حاجیوں کیلئے نوذوالحجہ کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

عشرہ ذوالحجہ کے فضائل واحکام

تکبیرات تشریق اور ان کا حکم

تکبیرات تشریق کا حکم قرآن کریم میں دیا گیا ہے فرمایا: “واذکروا اللہ فی ایام معدودات” اور یاد کرتے رہو اللہ کو گنتی کے دنوں میں میں۔ یہاں گنتی کے دنوں سے مراد ایام تشریق ہیں۔

ایام تشریق یہ ہیں کہ نو ذی الحجہ کی نماز فجر سے تیرھویں ذوالحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے یہ تکبیرکہنی ہے۔ ” اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد”

تکبیرات تشریق عورتیں بھی اپنی ہر فرض نمازوں کے بعد آہستہ آواز کےساتھ ایک مرتبہ کہیں گی۔

تکبیر تشریق کی اصلیت

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربانی کیلے لٹایا تو اللہ تعالی نے حضرت جبریئل کو حکم دیا کہ جلدی فدیہ لے کرجاو۔ جب جبرئیل امین فدیہ لے کرحاضر ہوئے ابھی حضرت اسماعیل زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور ابراھیم علیہ السلام ذبح کیلئے تیار تھے۔ تب جبرائیل علیہ السلام  زور سے پکارنے لگے “اللہ اکبر اکبر”

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ پکارسنی تو اسے اللہ کی طرف سے بشارت پر محمول کیا اور فورا کہنے لگے۔ ” لاالہ الا اللہ واللہ اکبر” ادھر حضرت اسماعیل سمجھ گئے کہ اللہ کی طرف سے فدیہ آگیا ہے۔ تواللہ کا شکر ادا کرتے ہوئےپکارنے لگے۔ ” اللہ اکبر وللہ الحمد”۔

تکبیرات تشریق کوئی بھول جائے تو کیا کیا جائے؟

ایام تشریق میں ایک مرتبہ تکبیرات تشریق کہنا ہربالغ مسلمان، مرد وعورت اور مقیم پر واجب ہے چاہے وہ قربانی کرنا چاہتاہو یا نہیں، شہرمیں قیام پذیر ہویا دیہات میں ۔ اگر کوئی شخص نماز کے فورا بعد تکبیرتشریق پڑھنا بھول جائے اورکچھ دیر بعد یاد آجائے تب بھی پڑھ لے۔ اوراگر نماز کاوقت ہی نکل جائے توتکبیرساقط ہوجائے گی۔

اسی طرح اگر کوئی مسبوق ہو یا جماعت سے نماز پڑھتے وقت ایک یا ایک سے زائد رکعات اس کی چھوٹ گئی ہوں۔ تو اپنی رکعات مکمل کرنے کے بعد تکبیرتشریق کہنا اس پر بھی واجب ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

عشرہ ذوالحجہ کے اعمال

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button