Board ExamasMadaris

وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اس کی کارکردگی

وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی

کیا آپ یقین کریں گے کہ اربو ں کھربوں روپے تعلیمی شعبے میں لگانے کے باوجود حکومت اور نجی شعبے کوئی ایسی کارکردگی پیش نہ کر سکے جو ان کی نیک نامی اور پذیرائی کا باعث بنے۔ ہم اس آرٹیکل میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اس کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے والے ہیں  کہ قلیل وسائل اور حکومتی پذیرائی نہ ہونے کے باوجود نہ اس دینی تعلیمی بورڈ نے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی کارکردگی اور صلاحیتوں کا  لوہا منوایا ہے۔

وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی

 یہ  ہے ’’وفاق المدارس  العربیہ پاکستان ‘‘ کا جو پاکستان کے کونے کونے میں پھیلے مدارسِ دینیہ کی قیادت کرنے والا ہے۔ اس کا پورا نام “وفاق المدارس العربیہ پاکستان” ہے۔ (وفاق بمعنی بورڈ، فیڈریشن ہے)۔ یہ ایک علمی اور غیر سیاسی ادارہ ہے۔ اس کا صدر دفتر ملتان میں واقع ہے۔ اس کا  باقاعدہ قیام ربیع الثانی سن ۱۳۷۶ ہجری بمطابق اکتوبر  1959 میں عمل میں لایا گیا۔ علامہ شمس الدین افغانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے پہلے صدر مقرر کئے گئے جب کہ موجودہ صدر عالمِ اسلام کی نامور اور بااثر علمی شخصیت جسٹس (ر)مفتی محمد تقی عثمانی ہیں۔ واضح رہے کہ حضرت  اپنی علمی خدمات کے باعث ملکی وغیر ملکی سطح پر کئی ایوارڈ وصول کر چکے ہیں۔ اپنی بے شمار تصنیفات کے ساتھ قومی وعالمی کئی اداروں کے نمایندے بھی ہیں۔

وفاق المدارس کے بنیادی اغراض ومقاصد میں مدارس کے لیے پلیٹ فارم، اُن کے لیے  یکساں نصاب، امتحان اور سند کا اجرا، مدارس میں اتحاد، جدید عصری تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم کی ترویج واشاعت اور اساتذہ کی تربیت کا انتظام کرنا شامل ہے ۔ آئیے! اس تحریر میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان  مع منفرد خصوصیات اور دلچسپ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں:

وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی

:دینی مدارس کا سب سے بڑا بورڈ

ملک بھر میں بیک وقت شفاف ترین امتحان کا انعقاد کرنے والا منفرد ادارہ ’’وفاق المدارس العربیہ ‘‘پاکستان کا سب سے بڑا امتحانی بورڈ ہے ۔ جس سے ملحق مدارس وجامعات  کی تعداد 22559 ہے۔یوں تو پاکستان میں دینی مدارس کے کئی دیگر بورڈ بھی ہیں جن میں تنظیم المدارس اہلسنت، پاکستان، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان خاص کر قابلِ ذکر ہیں لیکن ان سب میں جو مقبولیت وفاق المدارس العربیہ کو ہے وہ کسی کو نہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گوگل پر صرف وفاق کا لفظ ہی سرچ کرنے سے وفاق المدارس ہی کا نام سب سے آگے نظر آتا  ہے۔ یہ وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی کے ضمن میں نمایاں ترین خوبی ہے۔

:وفاق المدارس کے لیے عالمی اعزاز

وفاق المدارس العربیہ پاکستان ومقبولیت کا جائزہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وفاق نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ اپنی خدمات کو بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کروا چکا ہے چناں چہ 7 جولائی 2014 کو رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام سعودی شہر جدہ میں ایک تقریب منعقدہوئی۔ جس میں سال 2014 (۱۴۳۵ہجری) میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ تریسٹھ ہزار پانچ سو چھپن (63556) حفاظ تیار کرنے پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو دنیا کے سب سے بڑے اعزاز ’’خدمتِ قرآن انٹرنیشنل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔

وفاق المدارس کی جانب سے ناظمِ اعلیٰ مولانا محمد حنیف جالندھری نے گورنر نے سعوی فرمانروا شاہ عبداللہ کے صاحب زادے گورنر مکہ شہزادہ مشعل بن عبداللہ سے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اس تقریب میں سعودی عرب کے علماء ومشائخ کے علاوہ مختلف وزارتوں کے افسران اور دنیا کے مختلف ممالک سے وفود اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔

:پاکستان میں شفاف ترین امتحان کا اجرا

وفاق المدارس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی تاریخ اور وقت میں نہ صرف امتحانات کا انعقاد کرتا ہے بلکہ ایک ماہ کے نہایت قلیل عرصے میں نتائج بھی جاری کر دیتا ہے۔ پورے پاکستان میں ایسا کوئی بورڈ نہیں جو ہزاروں کی تعداد میں طلبہ وطالبات کے امتحان لینے کے بعد اتنی جلد نتائج جاری کرتا ہو۔

ایک وقت میں پورے ملک یعنی شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں گوٹھ، پکے اور کچے دشوار گزار راستوں میں بغیر ریاستی سرپرستی اور خاطر خواہ وسائل کے استعمال کے اپنے بل بوتے پر یہ کام انجام دینا کسی کارنامے سے کم نہیں جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان  کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ماہِ رمضان سے کم وبیش دو ماہ قبل حفظ اور ایک ماہ قبل درسِ نظامی کی کلاسوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔

یہ امتحان ماہ رجب کے اخیر یا شوال کے آغاز کے ساتھ ہی صرف چھ دنوں کے مختصر دورانیے میں اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔ اس معنی کر وفاق المدارس کو پاکستان بلکہ دنیا  کا سب سے معیاری ایگزامینیشن بورڈ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کیوں کہ  یہاں نقل، پرچہ آؤٹ ہونے، رشوت، سفارش، اساتذہ سے بدتمیزی،  سمیت کسی بھی ناخوش گوار واقعہ کا تصور نہیں۔ مزے کی بات اتنا بڑا نظم ونسق بغیر پولیس  سیکورٹی کے انجام پاتا ہے۔

یہاں ایک واقعہ ذکر کرنا قارئین کی معلومات میں اضافے اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان  کے ساتھ ساتھ اس کے مضبوط نظام کے حوالے سے اندازہ لگانے کے لیے فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ سن 2021 میں یہ بات وفاق سے وابستہ حلقوں اور منتظمین پر بجلی بن کر گری کہ درسِ نظامی (عالم کورس) کے آخری سال میں حدیث شریف کا ایک پرچہ آؤٹ ہوگیا۔ کم وبیش 65 سالہ تاریخ میں یہ واقعہ کسی انہونی خبر مرگ وفات سے کم نہ تھا۔ ظاہر ہے لاکھ انسانی احتیاط کے باجود ایسا شاذ و نادر واقعہ بشری تقاضوں اور کوتاہیوں کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ نظام کی خرابی کو۔ بہرحال، یہ وفاق کی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ اور پھر چیلنج سے کم نہ تھا کہ اب اس پرچے کا کیا کیا جائے۔ عموماً ایسے امتحان کینسل قرار دیئے جاتے ہیں اور اگلی تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن یہاں اربابِ وفاق کی دانش مندی، بصیرت، عزم وہمت اور تدبیر کی بدولت راتوں رات وہ کام کر دکھایا کہ شاید ہی دنیا میں اس کی مثال ملے۔ وفاق المدارس نے چند گھنٹوں میں ہی اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی معیار کے مطابق ازسرنو پرچہ بنوا کر موصلاتی مشاورت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اگلی ہی صبح ملک کے کونے کونے میں وہ پرچہ امتحانی مراکز میں پہنچا دیا۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ تقریباً ہر حکومت جو ہر دور میں مدارس پر تبرا بازی اپنا آئینی حق سمجھتی آئی ہے، وہ اپنی انتظامی مشینری کے باجود امتحان کے لیے صوبائی اور شہری انتظامیہ پر انحصار کرتی ہے، جو علیحدہ وقت میں ضلع کی سطح پر الگ امتحان انعقاد کرواتی ہے مگر اس کے باوجود ان امتحانات کی شفافیت پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ چناں چہ چھوٹے بڑے ناخوشگوار واقعات گویا کہ معمول کا حصہ بنے رہتے ہیں۔

:پوزیشن ہولڈرز کی پذیرائی اور گریڈ کی تقسیم

وفاق المدارس کے امتحان میں نہ صرف ملکی سطح پر نمایاں نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات میں بلکہ صوبائی سطح پر بھی بہترین کارکردگی پوزیشن دی جاتی ہے تاکہ مسابقے کی فضا وسیع پیمانے پر ہو اور زیادہ سے زیادہ طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ وفاق المدارس کا نظامِ امتحان مروجہ تعلیمی نظام کی تمام خرابیوں سے پاک ایسا بہترین ہے کہ بڑے مدارس اور جامعات کے ساتھ غیر مشہور مدارس کے طلبہ وطالبات بھی پوزیشن حاصل کر جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی طرح یہاں وفاق المدارس میں بھی نمبرات پر گریڈ کی تقسیم ہوتی ہے جس میں ممتاز مع الشرف(A+)ممتاز(A) جید جدا(B) جید(C) مقبول(D) شامل ہیں۔

:ضمنی امتحان، نظرِ ثانی کا اختیار اور نمبرات کی بڑھوتری:

وفاق المدارس میں ناکام ہو جانے والے طلبہ وطالبات کے لیے عربی زبان کی ’’راسب‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، انھیں یہ استحقاق ہوتا ہے کہ وہ ضمنی امتحان میں شریک ہوں جوعموما ً سالانہ امتحان کے کم وبیش دو ماہ بعد منعقد ہوتا ہے۔

      وہ طلبہ وطالبات جن کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے نمبر کسی بھی پرچے میں کم آئے ہیں وہ اپنے مدرسے کے توسط سے  پرچوں کی چیکنگ کے لیے نظرِ ثانی کی درخواست دے سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ وفاق المدارس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کچھ شرائط کے ساتھ ان طلبہ وطالبات کو بھی امتحان میں شرکت کا موقع دیتا ہے جو اپنے نمبرات اور گریڈ کی بہتری کے لیے پھر سے امتحانی پرچے دینا چاہتے ہوں۔

:نتائج تک رسائی کے لیے جدید ذرائع کا استعمال

امتحان کے بعد اور نتائج کے اجرا کے بعد اسے سرکولیٹ کرنے کے لیے جدید ذرائع سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ چناں چہ موبائل میسج سمیت وفاق المدارس کی ویب سائٹ پر نہ صرف مدارس کے مکمل نتائج اپ لوڈ کیے جاتے ہیں بلکہ پاکستان کے اطراف میں پھیلے امتحان میں شریک طلبہ وطالبات تک بھی اس کی رسائی کو یقینی بنایا جاتا ہے چناں چہ وہ بآسانی اپنے نتائج کو ویب سائٹ پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے تناظر میں یہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان  کا نمایاں پہلو ہے۔

:وفاق المدارس کا ناقابلِ فراموش کارنامہ

عالمی وبا کرونا وائرس کے دور میں سب سے متاثر ہونے والے شعبوں میں تعلیمی نظام بھی تھا۔ چناں چہ بڑے بڑے اداروں نے بغیر امتحان، سابقہ کارکردگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے اور کچھ معیار بناتے ہوئے اپنے طلبہ کو اگلے درجے کے لیے پرموٹ کر دیا بلکہ پوزیشنیں بھی دیں۔ یقیناً سن کر قارئین کو تعجب ہوگا کہ ایسے موقع پر بھی وفاق المدارس نے اپنے امتحانی نظام کو متاثر نہ ہونے دیا اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے مثالی امتحان کی شان کو برقرار رکھا۔ جہاں چہار سو ہو کا عالم اور لاک ڈاؤن کا راج تھا وہاں یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا جسے بآسانی فراموش کر لیا جائے بلکہ یہ دینی مدارس کے بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اس کی کارکردگی  وہ تاریخ ساز کارنامہ اور روشن مثال تھی جس کی وجہ سے مدارس کے ناقدین بھی اس کو سراہنے پر مجبور ہوگئے۔

:فارغ التحصیل (پاس آؤٹ) طلبہ وطالبات کے اعداد وشمار

وفاق المدارس کے اعداد وشمار کے مطابق وفاق سے منسلک مدارس میں یوم تاسیس یعنی ۱۹۶۰ سے لے کر ۲۰۲۲ تک کے ریکارڈ کے مطابق درسِ نظامی (عالم کورس) کے فضلاء کی تعداد ایک لاکھ اٹھانوے ہزار ایک (198001 ا)جب کہ دو لاکھ سڑسٹھ ہزار سات سو پینتیس (267735) طالبات شامل ہیں۔ جب کہ وفاق المدارس کے تحت حفظ کا امتحان پاس کرنے والوں میں تیرہ لاکھ چھیاسی ہزار پانچ سو پینتیس (1386535) طلبہ اور ایک لاکھ بتیس ہزار تین سو اٹھتر (132378) طالبات شامل ہیں۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ سن ۲۰۲۱ میں چار لاکھ تین ہزار بیالیس طلبہ وطالبات حفظ کے امتحان میں شریک ہوئے جو حفظ قرآن کریم کے میدان میں وفاق اور اس کی کارکردگی و پذیرائی کا روشن پہلو ہے۔

:وفاق المدارس کی سند کی اہمیت

وفاق المدارس العربیہ اپنی اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لیے “شھادۃ العالمیہ” کی ڈگری جاری کرتا ہے جو روایتی تعلیم ماسٹر (M.A) کے مساوی ہوتی ہے۔ ۱۹۸۲ میں پاکستان کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (موجودہ HEC) نے اسے ایم اے عربی اور اسلامیات کے مساوی تسلیم کیا تھا۔ جس کے بعد وفاق کی سند کے حامل مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات امام، خطیب، قاری، عربی ٹیچر، اسلامیات ٹیچر، اسلامیات لیکچرار، ریلیجیس ٹیچر، مفتی، قاضی جیسے مناسب کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں۔

طلبہ وطالبات وفاق کی شھادۃ العالمیہ کی سند حاصل کرنے کے بعد ’’سند معادلہ‘‘ کے حصول کے بعد نہ صرف مذکورہ ملازمتوں بلکہ اس سے بڑھ کر یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے بھی داخلہ لینے کے اہل ہوتے ہیں۔ اب تک  بے شمارمدارس کے فارغ التحصیل طلبہ وفاق ہی کی شھادۃ العالمیہ کی ڈگری کی بنیاد پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ اس کے لیے معادلہ کی ضرورت پڑتی ہے جس کا طریقۂ کار ذرا مشکل ضرور ہے مگر یہ آگے سہولت اور آسانی کی کئی راہیں کھول دیتا ہے۔ واضح رہے کہ شھادت العالمیہ کی ڈگری سے قبل بھی تین ڈگریوں پر معادلے کا ضابطہ موجود ہے جس کی بنیاد پر عصری تعلیم کے مراحل کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ تفصیلات وفاق المدارس کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں یہاں صرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان

 اور اس کی کارکردگی کا اعلیٰ تعلیمی سطح پر اپنی ڈگری کو تسلیم کروانے کے ضمن میں ایک نکتہ پیش کرنا مقصود ہے۔

:وفاق المدارس کا نصاب

وفاق کے نصاب میں دورِ قدیم کے فنی علوم سے لے کر عصر حاضر کے تمام دینی علوم شامل ہیں۔ جن میں علومِ قرآن وحدیث، تفسیر، اصول حدیث، علم تاریخ، فرائض، عقائد، تجوید، فقہ، اصول فقہ، منطق، علم فلکیات، فلسفہ، صرف ونحو، ادب وغیرہ شامل ہیں۔

وفاق المدارس اپنے نصاب میں عصر حاضر کے مطابق اور باقاعدہ دینی تعلیم سے قبل درجہ متوسطہ میں انگریزی، اردو، معاشرتی علوم، ریاضی، سائنس، مطالعہ پاکستان اور فارسی جیسے علوم وفنون کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عصری مضامین کے سلسلے میں صوبائی ٹیکسٹ بک کو (Follow) کیا جاتا ہے۔

:وفاق کی سرکاری زبان

چوں کہ علوم دنیا کا ماخذ (Resource) عربی زبان ہی ہے لیکن اس کے باوجود وفاق المدارس طلبہ وطالبات کو لازمی طور پر عربی زبان میں پرچہ حل کرنے پر پابند نہیں کرتا۔ البتہ وفاق المدارس العرییہ میں عربی زبان میں پرچہ حل کرنے کو نہ صرف سراہتا ہے بلکہ اس پر اضافی نمبروں سے بھی نوازتا ہے۔ حال ہی میں طلبہ کی استعداد اور معیار بہتر بنانے کی غرض سے گزشتہ سال سے ایک ضابطہ لایا گیا ہے کہ کم از کم ایک سوال عربی زبان میں حل کیا جائے۔

وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی

:وفاق المدارس اور دیگر معاصر بورڈ سے متعلق  غلط فہمی

یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جو دینی تعلیم، مزاج، عصر حاضر کے تقاضوں سے شناسائی نہ ہونے کی بنیاد پر دینی ودنیاوی حلقوں میں خلیج کا باعث بن سکتی ہے۔

وفاق المدارس العربیہ اپنے اسلاف کی روایت پر چلتے ہوئے خالصتاً دینی علوم کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے۔ اِس کا اپنا لگا بندھا سسٹم ہے جو اپنے معیار کی اعلیٰ چوٹی پر کام کر رہا ہے جس کی پورے پاکستان میں نظیر نہیں۔ دوسری جانب وفاق المدارس العربیہ سے رجسٹر کچھ ایسے مدارس بھی ہیں جو عصر حاضر کے تعلیمی تقاضوں اور ٹیکنالوجی کے دور میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم پر بھی زور دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے مدارس میں اس سلسلے کو شروع کرنے کے بعد وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے افادۂ عام کے لیے  اپنی سفارشات وفاق المدارس کو بھیجیں۔ لیکن اپنے منشور سے موافقت نہ ہونے کی بنا پر وفاق المدارس نے اختلاف کیا۔

چناں چہ ان مدارس کا الحاق وفاق سے برقرار نہ رہ سکا اور راہیں جدا ہوگئیں۔  یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ہر تعلیمی، کاروباری، معاشرتی، معاشی معاملات کا حصہ رہا ہے اور آیندہ بھی رہے گا۔ مگر ناعاقبت اندیش لوگوں نے اس کو علمی سے زیادہ ذاتی نزاع کا مسئلہ بنا کر شور وغوغا کر دیا۔ یہاں یہ بات یقیناً قارئین کے لیے دلچسپی کی حامل ہوگی کہ انھیں مدارس میں سے ایک نے اپنے نظام پر ایسا کام کیا کہ دو سال سے بھی کم عرصے میں اس نے ’’الغزالی یونیورسٹی‘‘ کی داغ بیل ڈال کر حکومتی ایوانوں کو بھی حیران وپریشان کر دیا۔ عمق نظر سے دیکھا جائے تو یہ کریڈٹ مدارس کے نظام کو ہی جاتا ہے کیوں کہ اربابِ مدارس کا ماننا ہے کہ اختلاف بھی رحمت کا باعث ہے جس کے ثمرات وبرکات بعد میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔ اس معنی کر یہ بات بھی وفاق المدارس العربیہ پاکستان  اور اس کی کارکردگی کے کھاتے میں ہی آتی ہے۔

:میڈیا سیل

چوں کہ مروجہ زمانے میں مارکیٹنگ اور پیغام رسانی کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال ہر ادارے کی لازمی ضرورت بن گیا ہے۔ اسی طرح وفاق کا اپنا میڈیا سیل ہے جو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو مدارس اور عوام تک پہنچانے اور وفاق سے منسلک مسائل کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وفاق کی اپنی ویب سائٹ، فیسبک پیج بھی شامل ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ بڑی تعداد میں چھپ کر پاکستان بھر میں پھیلے وفاق سے وابستہ تمام مدارس میں بذریعہ پاکستان پوسٹ پہنچایا جاتا ہے جس میں انھیں وفاق المدارس العربیہ پاکستان  سے باخبر رکھا جاتا ہے۔

وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی

:”وفاق المدارس کے افراد کی”عوامی خدمات

بظاہر تو وفاق المدارس ناظرہ، تجوید برائے حفاظ اور تجوید برائے علما کے علاوہ مدارس کے لیے نصاب سازی، امتحان اور سند کے اجرا کی ذمہ داری اٹھاتا ہے لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسری جانب وسیع زاویے سے دیکھا جائے تو وفاق مختلف مدارس میں امتحان کے اجرا کے ساتھ وسیع پیمانے پر مستند علما کی تیاری کا فریضہ انجام دے رہا ہے جو بعدِ ازاں معاشرے میں امامت، خطابت، قراءت، مبلغ، مفسر، مصلح، روحانی معالج وغیرہ فراہم کر کے معاشرے کی خدمت کا کام انجام دیتے ہیں اور لوگوں کا رشتہ دین سے استوار رکھتے ہیں۔

فی الواقع پاکستان کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کی نہ صرف دینی بلکہ عوامی سطح پر سماجی خدمت بھی ہے۔ چناں چہ نکاح سے لے کر اذان اور روزمرہ مسائل سے لے کر تجہیز تکفین اور وراثت کے مسائل تک تمام معاملات میں یہی مدارس کے فضلا فعال کردار ادا کرتے ہیں جن کے افراد کی توثیق اور استناد پر وفاق المدارس ہی مہر ثبت کرتا ہے۔

:ایک اور عوامی خدمت

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی بات کی جائے تو حال ہی میں فاق المدارس نے قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ کے شوق کو قائم ودائم رکھنے کی غرض سے طلبہ کے لیے گزشتہ سال 2022میں ایک نئی سرگرمی کا آغاز کیا جو کہ حفظ قرآن کریم کے مسابقوں (مقابلوں) کا تھا۔ ان مسابقوں میں مرحلے ڈویژن، صوبائی اور اخیر میں ملکی سطح پر مسابقے ہوئے۔ آخری مقابلہ دارالحکومت اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد میں منعقد ہوا۔ اس مسابقے میں تقریباً ساڑھے تین ہزار طلبہ نے رجسٹریشن کروائی۔

وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی

:تدریب العلمین (ٹیچرز ٹریننگ)

اسی سال (2023) وفاق المدارس نے اپنے رجسٹر مدارس کے اساتذہ کے لیے بھی تعلیمی وفنی تربیت کے لیے ورکشاپ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ ٹیچر ٹریننگ مدارس سے وابستہ اساتذہ کی سہولت کے مطابق ضلعی سطح پر ہوتی ہے۔ جس میں مختلف شعبہ جات کے ماہرین علوم وفنون اساتذہ کو لیکچر دینے کے لیے آتے ہیں۔ اس کے موضوعات میں تعلیم کے اہداف ومقاصد، طریقۂ تدریس مختلف موضوعات شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وفاق المدارس کے اعلامیے کے مطابق مدارس میں تدریس سے وابستہ ہونے والے نئے اساتذہ کے لیے بھی پندرہ روزہ تربیتی کورس کا آغاز بھی ہونے جا رہا ہے جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان  اور اس کی کارکردگی کے ذیل میں ایک نمایاں اضافہ شمار ہوگا۔

:فیس

یقیناً اتنے معیاری اور بہترین نظام سے متعلق سن کر لامحالہ قارئین کے ذہن میں یہ سوال بھی اُٹھے گا کہ وفاق المدارس ’’بھاری بھرکم ‘‘فیس بھی لیتا ہوگا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ پڑھنے والوں کے یہ بات خوشگوار حیرت کا باعث ہوگی کہ وفاق المدارس کی فیس پاکستان کے معمولی اسکول کی فیس سے بھی کم ہے۔ تفصیلات کے لیے وفاق المدارس کی ویب سائٹ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

وفاق المدارس اور اس کی کارکردگی

:ماتھے کا جھومر

                اس بلاگ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان  اور اس کی کارکردگی مع  خصوصیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں دینی تعلیم کے پرچار کے سلسلے میں وفاق المدارس کی خدمات نہ صرف قوم وملک بلکہ ملتِ اسلامیہ کے لیے بھی باعثِ فخر ہے کہ اس زمانے میں بھی اتنے نظم واستحکام کے ساتھ بغیر کسی لالچ کے وسیع پیمانے پر کام کرنے والا ادارہ موجود ہے جو درحقیقت پاکستان کے لیے ماتھے کا جھومر ہے مگر بدقسمتی سے جسمانی آزادی کے باجود فکری آزادی سے محروم پاکستانی اربابِ اقتدار اپنے اس ادارے پر فخر کرنے کے بجائے اِسے نظر انداز کر رہے ہیں۔

اور مختلف حیلوں بہانوں سے اسے مغرب کی خوشنودی کے لیے عتاب کا شکار بنا کر اس کے راستے میں مسائل کھڑے کرتے رہتے ہیں۔ یہاں وفاق کی قیادت کو بھی یہ سہرا جاتا ہے کہ وہ اپنے نصب العین سے ہٹنے اور ان مسائل میں الجھنے کے بجائے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کیے بغیر اپنی کارکردگی کے ذریعے خاموش کردار ادا کرتا جا رہا ہے۔

مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button