ColumnsFor TeachersParenting Tips

اپنے کمزور ذہن بچوں کو ذہین کیسے بنائیں؟

کمزور ذہن

جبران عباسی

آج کا دور معیار اور قابلیت کا دور ہے، بڑوں سے لے کر بچوں تک ہر ایک کامیابی کی دوڑ میں ہے۔ مقابلہ بازی ہے ، آگے بڑھنے کی جستجو ہے ، بڑی منزلیں حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ ہر انسان اپنی قابلیت اور استعداد میں اضافہ کرنے کا خواہش مند ہے تاکہ وہ کامیابی کے بہتر مواقع حاصل کر سکے۔

ایسے میں بچے بھی کامیابی کی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ بچوں پر بھی اب سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور ہر شہر میں مہنگے ترین سکول قائم ہیں جہاں والدین اپنے بچوں کو داخل کرتے ہیں اور اپنی آمدن کا بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں۔ اسے وہ اولاد کے بہتر مستقبل کا نام دیتے ہیں۔

کمزور ذہن

ایک ہی کلاس میں ایک بچہ پوزیشن لیتا ہے جبکہ دوسرا فیل ہوتا ہے وجہ کیا ہے ؟

ہم جانتے ہیں ہر بچہ ذہین ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر بچہ کو خاص صلاحیت سے نوازا ہے۔ تاہم بچوں کی پرفامنس میں فرق ضرور ہوتا ہے ۔ ایک ہی کلاس کا ایک بچہ پہلی پوزیشن حاصل کرتا ہے اور اسی کلاس کا ایک بچہ اپنے امتحان میں فیل ہوجاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ شاید ہمارا جواب ہے پہلی پوزیشن لینے والا بچہ ذہین تھا اور فیل ہونے والا بچہ نالائق تھا۔

ہمارا یہ جواب مکمل درست نہیں ہے کیونکہ بقول آئن سٹائن ” اگر آپ مچھلی کی قابلیت کا جائزہ اس کے درخت پر چڑھنے کی صلاحیت سے لگائیں گے تو یقیناً آپ بیوقوف ہیں”۔

ہر بچہ اپنی ذہانت میں نمایاں ہے ، تاہم کچھ بچوں کی یاداشت بہتر ہوتی ہے اور وہ اسباق اور کنسپٹ بآسانی سمجھ لیتے ہیں۔ اور کچھ بچے کمزور یاداشت کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ بچوں کی اگر ہم صرف یاداشت بہتر بنانے پر فوکس کریں تو یقیناً 60 فیصد نام نہاد نالائق بچے بھی ذہین بچوں کے کلب کے ممبر بن جائیں گے۔

کمزور ذہن

چلڈرن لرننگ ڈس ایبلٹی( learning disability)

ہمارے سکولوں میں ٹیسٹ یا مشقی سوالات کے ذریعے بچوں کی ذہانت کا معیار جانچا جاتا ہے۔ تاہم جدید سائنسی دور میں بچوں کی ذہانت کا معیار ان کی عادات ، اطوار ، سیکھنے کی صلاحیت اور سمجھنے کی کوشش سے لگایا جاتا ہے ۔ بہت سارے بچے لرننگ ڈس ایبلٹی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے سیکھنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔ یہ ایک اعصابی و نفسیاتی بیماری بھی ہے جس کا علاج تھراپیز اور سیشنز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کے بچے کی سکول پرفامنس کم ہے تو آپ نے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرنی ہے کہ آپ کا بچہ لرننگ ڈس ایبلٹی کا شکار تو نہیں ہے۔

لرننگ ڈس ایبلٹی کی علامات

بول چال دیر سے شروع کرنا، دوسرے بچوں سے دور رہنا ، روزمرہ کاموں کا مسلسل بھول جانا، میتھ میں کمزور ہونا ، کتابوں کو آرگنائز نہ رکھنا، زبانی ہدایات کو بروقت نہ سمجھنا۔ اس طرح کی متعدد علامات جن میں دیری سے چیزوں کو سمجھنا اور چڑچڑاپن کا شکار ہونا شامل ہیں۔

کمزور ذہن

لرننگ ڈس ایبلٹی کے مسئلے کا علاج

سائنسی انداز میں بچوں کی لرننگ ڈس ایبلٹی کو دور کرنے کےلئے psycho-educational پراسیس کو فالو کیا جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ پہلے بچوں کو چھوٹے چھوٹے ٹاسک دیے جائیں تاکہ وہ آسانی سے کر سکیں۔ پھر ان کے ٹاسک کو مرحلہ وار مشکل کیا جائے۔ اس طرح بچوں کے اندر ” مسلے کو حل کرنے کی صلاحیت” پیدا ہوتی ہے۔ جو اس نفسیاتی بیماری کے خاتمے کے خلاف ایک مؤثر مدافعت ہے۔ اگر آپ کا بچہ خدا خواستہ اس طرح کے مسائل کا شکار ہے تو سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کو نفسیاتی معالج کے پاس لے جائیں اور سیشنز کے ذریعے اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

بچوں کی تربیت کا جاپانی ماڈل

ہمارے ہاں بچوں کی تربیت کے بارے میں سکول ماڈل مقبول ہے۔ یعنی بچہ جیسے ہی بولنا ، سیکھنا اور سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو ہم اسے سکول میں داخل کروا دیتے ہیں۔ سکول سے دو توقعات رکھی جاتی ہیں۔ اول کہ سکول بچوں کی تربیت کرے گا۔ دوم؛ سکول درسی کتابوں و سرگرمی سے بچوں کو ذہین بنائے گا۔

جاپانی ماڈل قدرے مختلف ہے۔ وہاں چوتھی کلاس تک امتحان نہیں لیا جاتا صرف بچوں کو ذہین بنانے پر فوکس کیا جاتا ہے۔ بچوں کو اخلاقیات، مہمان نوازی ، ہمدردی اور فطرت سے محبت سکھائی جاتی ہے۔ بچوں کو وہ کنسپٹ سکھائے جاتے ہیں جس سے وہ آگے چل کر اپنے کرئیر میں کامیاب ہوں گے۔ یہاں تک کہ بچوں سے چھوٹی سطح پر کھیتی باڑی بھی کروائی جاتی ہے۔

آخر سوال یہ ہے کہ جاپان میں بچوں کو فطرت کے قریب تر کیوں رکھا جاتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے انسان سب سے زیادہ فطرت سے ہی سیکھتا ہے جب وہ متجسس نگاہوں سے فطرت کی رنگینیوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔
جب ہم بچوں کو مصنوعی دنیا کا حصہ بنا دیں گے جیسے سوشل میڈیا، مصنوعی کھیل وغیرہ اور ان کو فطرت سے دور کر دیں گے تو ان کی ذہانت پر فرق پڑے گا۔ انسان نے فطرت سے ہی سیکھ کر جہاز بنایا، جنگلوں سے نکل کر سیاسی و سماجی نظام قائم کیا اور موجودہ ترقی تک پہنچا۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ذہین ہو تو اسے ممکن حد تک فطرت کے قریب رکھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے منسلک ہوتا جائے گا۔

کمزور ذہن

کھیل کود سے بچوں کی ذہانت بہتر ہوتی ہے

کھیلو گے کودو گے تو ہو گے خراب
پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب

یہ ضرب الامثل اب بےمعنی ہو گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات اور سائیکالوجی کے مشاہدے میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کھیل کود سے بچوں کی ذہانت بڑھتی ہے۔ فن لینڈ کے نظام تعلیم میں کھیل کود کو اہم مقام حاصل ہے۔ وہاں سکول میں باقاعدہ کھیلوں کا مکمل سامان اور کھیلنے کےلئے نصف وقت مقرر ہوتا ہے۔ کھیل کود سے بچوں میں پھرتی آتی ہے۔ ان کے اندر صحت مندانہ رحجانات پروان چڑھتے ہیں۔ سب سے اہم کھیل کود سے بچوں کا سٹریس دور ہوتا ہے اور جب بچے ذہنی دباؤ سے آزاد ہوں گے ، ان کی ذہانت اور پرفامنس بھی بہتر ہو گی۔

تصویروں سے بچے زیادہ تیزی سے سیکھتے ہیں

وژوئیل میمورائزیشن سے بچے زیادہ سیکھتے ہیں۔ بچوں کو خاکہ نگاری کرنا سیکھائیں۔ ان کی یہ عادت بنائیں کہ وہ جب بھی کوئی سوال حل کریں تو اس کا ایک خاکہ یا ماڈل اپنے دماغ میں بنا لیں۔ شروع میں یہ مشکل ہوتا ہے مگر بعد میں بچوں کی عادت بن جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ جب بھی ان کو کسی چیز کے بارے میں سکھایا جائے تو چارٹ ، تصویروں وغیرہ کو استعمال کریں۔

کانٹینٹ میں وسعت دیں

بالفرض آپ بچے کو مالٹے کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ پہلے بتائیں کہ فزکس کے اعتبار سے مالٹا ایک حجم گھیرتا ہے۔ حساب کے لحاظ سے مالٹے کے اتنے بیچ ہیں ، مالٹے کا وزن اتنا ہے ، بائیولوجی کے حساب سے مالٹا کھانے کے فوائد کیا ہیں ، مالٹے میں کون سے وٹامن پائے جاتے ہیں۔ باٹنی کے حساب سے مالٹے کی نسل کیا ہے ، اس کو کیسے اگایا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ بزنس کے حساب سے مالٹے کی مارکیٹ ویلیو بھی سمجھائیں جیسے اس کی سالانہ کھپت پاکستان میں کتنی ہے۔ جب آپ اس قدر زیادہ معلومات بچے کو دیں گے وہ بور نہیں ہو گا اور اس کا دماغ ڈیٹا کو پراسیس کر کے اسے محفوظ کرنے کی کوشش کرے گا یوں آپ کے بچے کی یاداشت بہتر ہو گی۔

بچوں کو مثالیں دیں: بچے روزمرہ کی سرگرمیوں سے سیکھتے ہیں آپ کو چاہیے کہ چاہے حساب ہو یا دوسرے مضامین بچوں کو روزمرہ زندگی کی مثالیں دیں۔ بچے نصاب جو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ اس اجنبیت سے بچوں کو باہر نکالیں۔

کمزور ذہن

بچوں کو سوال پوچھنے کی عادت ڈالیں

جب بچہ سوال پوچھتا ہے تب اس کا ذہن سیکھنے کےلئے مکمل تیار ہو چکا ہوتا ہے۔ سوال تحت الشعور سے شعور میں آتا ہے پھر وہاں سے زبان پر آتا ہے۔ اس سارے پراسیس میں دماغ کا بھرپور استعمال ہوا ہوتا ہے۔ اگر آپ کا بچہ سوال نہیں پوچھتا تو آپ اس سے سوال پوچھیں اور پھر اس کو جواب بتائیں۔ ہوں رفتہ رفتہ وہ سوال پوچھنا سیکھ جائے گا۔

بچوں کے ذہنوں پر کتابیں نہ مسلط کریں

کتب بینی انتہائی اہم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ کتاب کے بغیر انسان کی کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جو نصابی کتابیں ہیں وہ انتہائی بوریت محسوس کراتی ہیں۔ اگرچہ پرائیویٹ سیکٹر کا کورس قدرے بہتر ہے۔ تاہم سرکاری نصاب میں بےپناہ معلومات درج ہوتی ہیں۔ بچے کو چونکہ یہ معلومات رٹ کر نمبر لینے ہیں وہ ان کو دیکھ کر اکتا جاتا ہے۔

ہمارا نصاب ابھی بھی جدید دور سے لاتعلق ہے۔ اسے سمارٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب کم ہونا چاہیے ، درسی کتابیں بھی کم ہونی چاہیے۔ نصاب کا کانٹینٹ جاندار اور روز مرہ زندگی سے منسلک ہونا چاہیے۔ تاکہ اساتذہ کو ذیادہ وقت مل سکے اور وہ بچوں سے پریزنٹیشن ، کوئز وغیرہ لیں۔ کلاس میں بحث و مباحثہ کو فروغ ہونا چاہیے۔ اس سے بچے رٹے سے ہٹ کر تخلیقی سوچ رکھنا شروع کر دیں گے۔

بچے کی ڈائیٹ

سب سے آخر میں مگر سب سے اہم بچے کی خوراک انتہائی ضروری ہے۔ اپنے بچے کی صحت کا بھرپور خیال رکھیں۔ غیر صحت مند خوارک جیسے فاسٹ فوڈ وغیرہ محدود کریں۔ دودھ ، بادام ، اخروٹ ، خشک میوہ جات وغیرہ بچوں کو دیں۔ اس سے ان کی یاداشت بہتر ہو گی۔
اگر بچوں کی یاداشت بہتر ہو جائے تو وہ جلدی سے بہترین سیکھتے ہیں۔ جو بچے بہتریں سیکھتے ہیں وہی اپنی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔

کمزور ذہن

یہ بھی پڑھئیے:

بچوں میں پڑھائی کا شوق کیسے پیدا کریں؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button