Columns

شیخ محمود نقشبندی آفندی رحمہ اللہ

شیخ محمود آفندی کی پہلی زیارت


یہ مئی 2017 کی ایک شب تھی،مسجد نبوی میں روضہ اقدس پر حاضری اور واپسی کا اذن لینے پہنچا اگرچہ دلی تڑپ واپس آنے نا دیتی تھی فقط اگلے سفر تک کی اجازت کے لیے پہنچا تھا ۔ جیسے ہی سلام پیش کرکے واپس یا تو امی میرے انتظار میں کھڑی تھیں، ادھر سے ایجنٹ کی کالیں کہ کہاں رہ گئے آپ؟ اور ادھر واپسی کے لیے وقت کی قلت نے بےچین کررکھا تھا کیوں کہ جاتے ہوئے خوشی کا عالم اور واپسی پر محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی بھلا کون برداشت کرسکتا ہے، جس شہرت محبت میں کھانا نہ ملے، کچھ بھی نہ ملے برداشت ہے لیکن اس شہر کو چھوڑ کر آنا بےحد مشکل ہوجاتا ہے۔

ادھر ہماری مدینہ منورہ سے ملتان کے لیے واپسی کی فلائٹ تھی، وقت صرف ایک گھنٹہ تھا اور ہم نے ہوٹل پہنچنا تھا ، وہاں ہم نے سامان پیک کرکے رکھا تھا جہاں سے مدینہ ائیرپورٹ جانا تھا ، سفر تو زیادہ نہیں تھا اس لیے میں چاہتا تھا کہ کچھ وقت یہ جسم یہ جاں وہاں کی ہوائیں مزید اپنے اندر سمو لے۔

وہیل چیئر والے بزرگ

میں نے مسجد نبوی کے دروازے سے اندر داخل ہوکر دو رکعت نماز نفل ادا کی اور نکلنے ہی لگے تھے کہ لوگوں کا ایک اژدھام اندر داخل ہوا اور سب کے ہونٹوں پہ خاموشی چھائی ہوئی تھی کیوں کہ وہاں یہ بات صادق آتی ہے کہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

مجھے اس شعر کا مطلب ہی وہاں سمجھ آیا ۔

اور ان سب نے مخصوص انداز میں پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں ایسے لگتا تھا کہ یہ کسی ملک کے جید علماء کا وفد ہو سب نے ایک شخص کو گھیرا ہوا تھا اور وہ صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ درود شریف کے ترانے دھیمے لہجے میں جاری تھے ۔

عجیب بات یہ ہے کہ سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوکر انسان کو دنیا کی کوئی خواہش نہیں ہوتی وہاں بڑے چھوٹے سبھی برابر ہوتے ہیں، یہاں کسی کو بھی ملنے کا اشتیاق نہیں ہوتا ،کیوں کہ وہ جگہ ہی ایسی ہے جہاں رب العالمین کے بعد اس کائنات کی سب سے بڑی ہستی خود تشریف فرما ہیں۔سو میں نے اسے ہلکا لیا اور آگے بڑھ گیا کہ جلدی سے ہوٹل پہنچوں لیکن میری امی نے بولا کہ بیٹا مجھے تو یہ کوئی بڑے بزرگ لگتے ہیں آپ دوبارا جائیں ان سے سلام دعا کریں اور اپنے لیے اور میرے لیے دعا کروائیں سو میں واپس آگیا، امی جان کے حکم پر میں نے ان کے ایک خادم سے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ میں پاکستان سے آیا ہوا ہوں سفر عمرہ کے لیے اور حضرت سے مسافحہ کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ لگ بھگ پچیس تیس لوگ ان کے ساتھ تھے اور سبھی علما دکھ رہے تھے۔

محبت بھری دعائیں

میں نے جاکر بزرگ کو سلام کیا اور عربی میں بتایا کہ پاکستان سے آیا ہوا ہوں اور ابھی میری واپسی کی فلائٹ ہے آپ کو دیکھا تو آپ سے ملنے آگیا آپ میری ماں کے لیے (باہر موجود ہیں) اور میرے لیے خصوصی دعا کردیجیے ، اللہ اکبر میں دنگ رہ گیا کہ ایک اجنبی کی درخواست پہ حضرت نے ہاتھ اٹھا دیے اور پانچ منٹ تک فقط میرے اور میری والدہ محترمہ کے لیے عربی میں دعا کرتے رہے اور پھر مجھے دعاؤں سے نوازا اور میں واپس آگیا۔

ایک تو میں نے اس مقدس سفر میں طے کیا تھا کہ کسی صورت بھی وہاں اپنی تصاویر نہیں بناؤں گا۔ الحمدللہ اس پہ پوری طرح کاربند بھی رہا ، سو اس طرح میں تصویر کشی تو نہ کرسکا لیکن جاتے جاتے حضرت کے ایک شاگرد سے پوچھا کہ حضرت کا نام تو بتادیں میں تو ان کے نام اور مرتبے سے ناواقف ہوں ۔ انہوں نے اتنا کہا الشیخ محمود افندی، جلدی اس قدر تھی کہ ملک کا نام ہی نہ پوچھ سکا راستے میں امی جان نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے شیخ کا وطن پوچھا تھا کہ کون سا تھا میں نے نفی میں سر ہلا دیا سو اس پہ اس وقت افسوس بھی ہوا۔

ایک افسوس

بعد میں حضرت کی تصویر ایک مرتبہ سامنے آئی تو تھوڑی تھوڑی پہچان ہوئی کہ شاید یہ تو وہی شیخ محمود ہیں۔ آہ افسوس کہ اب پتا چلا کہ وہ تو شیخ محمود افندی ہی تھے جو عالم اسلام کے جبال علم میں سے تھے ،جو اخلاص و للہیت کا نمونہ تھے جو تقوی کے پیکر تھے۔ ترکی میں چوٹی کے علماء کرام بھی آپ کے شاگردوں کی صفوں میں دکھائی دیتے ہیں اور وہاں کے رجب طیب اردگان بھی ان کے خوشہ چینوں میں شامل تھے۔

 

ساٹھ لاکھ سے زائد لوگوں کی عقیدت کا مرکز

شیخ محمود آفندی رحمہ اللہ کے شاگردوں اور مریدین کا حلقہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے ،ترکی میں ان کے حلقہ ارادت سے وابستہ افراد کی تعداد 60 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے ۔ترکی میں دم توڑتے اسلامی شعائر اور اسلامی تہذیب کو پھر سے زندہ کرنے میں انہی کا ہاتھ ہے ۔ترکی کی نسبت سے وہ یقیناً مجدد تھے ،شیخ آفندی نہایت عمدہ حکمت عملی اور تصوف کے پرامن انداز میں عمر بھر دین کی تبلیغ کرتے رہے۔ انہی کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج مصطفی کمال اتاترک کے سیکولر ترکی میں جابجا اسلامی شعائر نظر آتے ہیں ۔

 

ترکی میں انگلیوں کے اشاروں سے دینی تعلیم

ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی ۔اس دور میں حضرت مولانا شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے اسباق پڑھائے حج اور نماز کے مسائل بھی ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھائے اللہ تعالی نے حضرت شیخ محمود آفندی کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھ دیا تھا۔

جنازے میں لاکھوں افراد امڈ آئے

کچھ عرصہ قبل شیخ محمود آفندی کا 95 برس کی عمر میں انتقال ہوا ، ان کی وفات سے پورا عالم اسلام بالخصوص ترکی بڑا دکھی ہے ، شیخ کی نمازجنازہ فاتح مسجد استنبول میں ادا کی گئی- صدر رجب طیب ایردوان سمیت لاکھوں افراد نے جنازے میں شرکت کی۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے اور مرتے دم تک رہے گا کہ ان کی زیارت ایسی حالت میں کی کہ میں ان سے اور ان کے مقام و مرتبے سے آشنا نہیں تھا۔

اللہ پاک حضرت کے درجات بلند فرمائے اور ان کا فیض پوری دنیا میں جاری وساری رکھے۔

 

تحریر: محمد نعمان حیدر

 

خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورین

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button