CitiesColumnsCountries

بارلے ، دو ملکوں میں بٹا ہوا ایک منفرد اور دلکش شہر

بارلے ، دو ملکوں میں بٹا ہوا ایک منفرد اور دلکش شہر

نوید نقوی

آپ بیلجیئم میں ہیں یا ہالینڈ میں ؟ اس شہر میں قدم قدم پر آپ کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئیے دو ممالک کی سرحد پر واقع دنیا کے اس منفرد شہر کی سیر کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں کے شہری کس ملک کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور ٹیکس وغیرہ کس ملک کو جمع کرواتے ہیں یا پھر دونوں ملکوں کو ٹیکس دینا یہاں کے باسیوں کی مجبوری ہے ؟

مغرب میں جغرافیائی سرحدوں کا تصور ختم ہوچکا ؟

موجودہ دور میں یورپ واحد خطہ ہے جہاں حقیقی معنوں میں سرحدوں کا تصور ( concept )ختم ہو چکا ہے اور نیٹو یورپی یونین جیسے اتحادوں نے یورپ کو یکجا کر دیا ہے لیکن یہ سب صدیوں کی لڑائیوں اور جنگوں کے بعد ہوا جب یورپ بھر میں مسلمانوں کا علمی خزانہ پہنچا اور لندن، پیرس، برسلز، ایمسٹرڈیم جیسے کیچڑ زدہ شہروں میں نظم و ضبط پیدا ہوا۔

مغرب نے مسلمانوں کے علمی خزانے سے اپنی نشاط ثانیہ کی بنیاد کیسے رکھی

ان شہروں میں جب مسلمانوں کا علمی خزانہ پہنچا اور یہاں کے حکمرانوں اور عوام نے ان علوم سے استفادہ کیا تو پھر نئی نئی ایجادات کی بدولت یورپی معاشرہ ترقی کی معراج تک پہنچتا گیا اور ایک وقت وہ بھی آیا جب مسلمان بادشاہ چاہے وہ ہندوستان کے مغل ہوں یا ایران کے صفوی، درانی ہوں یا پھر خلافت عثمانیہ کے سلاطین اور یا پھر عرب کے قبائلی سردار ، یہ سب جب اقتدار کی اندورنی جنگوں میں اپنے بھائیوں کا خون بہا رہے تھے اور اپنے لیے محلات کی تعمیر کر رہے تھے، یورپ کے مہم جو دنیا بھر میں نئی زمینیں دریافت کرتے ہوئے ان مسلمان ریاستوں کو بھی روندنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔

انگریز سامراج کے ساتھ ساتھ فرانسیسی، جرمن، ڈچ، بیلجیئم کی اقوام بھی نئی زمینیں دریافت اور ان سے وسائل حاصل کر کے یورپ لانے کے لیے پیش پیش تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی اقوام آج پوری دنیا سے آگے ہیں اور ٹیکنیکلی ان کا راج ہے۔

خیر آج ہمارا موضوع مسلمانوں کی پستی کا نوحہ لکھنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ یورپ کتنا خوبصورت ہے اور یہاں کا معاشرہ اخلاقی اقدار کے حوالے سے اتنا مضبوط ہو چکا ہے اور ایک دوسرے کو برداشت کرسکتا ہے کہ شہر کے شہر دو دو ملکوں کی سرحدوں پر بس چکے ہیں اور کسی قسم کا نہ تو جھگڑا ہوتا ہے اور نہ فریقین کے درمیان کوئی سرحدی تصادم ہونے کا امکان ہے۔

نجف اشرف ایک مقدس شہر

نیدرلینڈز اور بیلجیئم کا محل وقوع اور آبادی

نیدرلینڈز جس کا دوسرا نام ہالینڈ بھی ہے ایک چھوٹا مگر ترقی یافتہ ملک ہے اور تاریخی طور پر ایک طاقتور ملک رہا ہے۔ ایمسٹرڈیم اس کا دارالحکومت ہے۔ اس کی سرحدیں مشرق میں جرمنی، جنوب میں بیلجیم، شمال اور مغرب میں شمالی سمندری ساحلی پٹی کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی سمندری سرحدیں دونوں ممالک کے ساتھ اور شمالی سمندر میں برطانیہ کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔

اس کا کل رقبہ 41,543 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً 16,751,323 نفوس پر مشتمل ہے۔ جبکہ اس کا پڑوسی ملک بیلجیئم بھی ایک طاقتور اور ترقی یافتہ قوم پر مشتمل سرزمین ہے۔ یورپی یونین کی یورپی پارلیمان اور نیٹو کے مرکزی دفاتر بلجئیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم ہیں۔ بلجئیم کی شمالی سرحد نیدرلینڈز سے، مشرقی سرحد جرمنی سے، جنوب مشرقی سرحد لکسمبرگ سے اور جنوب مشرقی سرحد فرانس سے ملتی ہے۔ جب کہ بلجئیم کے شمال مغرب میں بحیرہ شمال واقع ہے۔

بیلجیئم کا کل رقبہ30,688 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً 11,358,357 نفوس پر مشتمل ہے۔ دونوں ممالک یورپی یونین اور نیٹو جیسی طاقتور تنظیموں کے ممبر بھی ہیں۔

نیدر لینڈ اور بیلجیئم کی سرحد پر واقع عجیب شہر

آئیے اب انتہائی دلچسپ شہر بارلے کا رخ کرتے ہیں، یورپ کا منفرد شہر بارلے نیدرلینڈز اور بیلجیم کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں ان دونوں ملکوں کے مابین قومی سرحد گھروں، ریستورانوں، چائے خانوں اور عجائب گھروں سے ہو کر گزرتی ہے۔ اس کے فائدے بھی ہیں لیکن نقصانات بھی ہیں۔ سرخ اینٹوں والے مکانات، بڑے دروازوں والے گودام، صاف ستھری گلیاں، گوری رنگت والے خوبصورت لوگ،

ایک ملک میں کرسی رکھ کر دوسرے ملک کی سرحد کے اندر ٹیلی ویژن دیکھنا ممکن کیسے ؟

پہلی نظر میں یہ شہر یورپی ممالک بیلجیم اور نیدرلینڈز کے عام سرحدی قصبوں جیسا ہی نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت میں بارلے کی حیثیت انتہائی منفرد اور دلچسپ ہے۔ یہاں آپ ناشتہ ایک ملک میں تیار کر سکتے ہیں اور اسے کھا دوسرے ملک میں سکتے ہیں۔ یا پھر آپ ایک ملک میں کرسی رکھ کر بیٹھیں اور دوسرے ملک کی سرحد کے اندر رکھا ٹیلی وژن دیکھ سکتے ہیں۔ بارلے میں یہ بھی ممکن ہے کہ میاں بیوی ایک ہی بیڈ پر سوئیں لیکن ایک ہی وقت میں دونوں الگ الگ ملکوں میں لیٹے ہوں۔

سیاح ایک سیکنڈ کے اندر دو ملکوں کی سرحد عبور کرنے کے لمحات کو انجوائے کرتے ہیں

اب یہ حیرت زدہ کردینے والی بات تو ہے لیکن ایسا کیسے ممکن ہوا ہے؟ اصل میں بارلے کے قصبے کے کچھ حصے بیلجیم اور کچھ نیدرلینڈز کی سرحد کے اندر آتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین سرحد لوگوں کے گھروں سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے۔ سرحد کے نشانات سفید کراس سے لگائے گئے ہیں اور یہی نشانات بارلے کی پہچان بھی ہیں اور پوری دنیا سے سیاح جب اس شہر کا رخ کرتے ہیں تو ان سفید نشانات کے ذریعے ایک قدم نیدرلینڈز میں رکھتے ہیں تو دوسرا قدم بیلجیئم میں رکھ کر تاریخ میں اپنے آپ کو امر کرواتے ہیں کہ سیکنڈوں میں کبھی ایک ملک تو کبھی دوسرے ملک کی سرحد عبور کی گئی۔

جائیداد کی تقسیم کا تاریخی واقعہ جو بارلے کی انوکھی سرحدی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے

اس عجیب و غریب سرحد کا تعلق قرون وسطیٰ کے دو جاگیر دار خاندانوں کے درمیان جائیداد کی تقسیم سے بھی ہے۔ 1198ء میں پہلے ڈیوک ہینری آف بریبنٹ نے یہ علاقہ لارڈ آف بریڈا کو پٹے پر دے دیا۔ بعدازاں لارڈ آف بریڈا کو وہ زمین اپنے پاس رکھنے کی اجازت دے دی گئی، جو زراعت کے لیے استعمال نہیں ہوتی تھی۔ ڈیوک نے اپنے لیے ذرخیز زمین رکھی۔

سنہ 1830ء میں ہالینڈ سے آزادی کے بعد بیلجیم کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا بہت ضروری تھا۔ اس وقت جنگ میں بچ جانے والوں نے بحیرہ شمالی سے جرمن ریاستوں تک تو سرحد کا تعین کر لیا لیکن جب وہ اس علاقے تک پہنچے جسے آج کل بارلے کہا جاتا ہے تو یہاں سرحد کے مسائل بعد کے وقتوں میں حل کرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے۔ اب حیرت انگیز طور پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ایسا 165 برس بعد بھی نہ ہوا۔ پھر سنہ 1995ء میں یہاں دو میونسپیلیٹیز بنا دی گئیں۔ بیلجیم میں اس کا نام بارلے ہیرٹوگ جبکہ ہالینڈ میں بارلے ناساؤ رکھا گیا۔ اس میں مجموعی طور پر 60 انکلیوز بھی شامل کیے گئے اور اس حوالے سے یہ دنیا کا منفرد اور دلچسپ علاقہ ہے۔

بارلے میں شہریت کا اصول

تاہم سرحد کے تعین نے بارلے کے رہائشیوں کے لیے صورتحال کو مزید الجھن زدہ بنایا۔ کئی گھر، باغ، گلیاں، دکانیں وغیرہ دونوں ممالک میں تقسیم ہو چکے تھے۔ مستقل تنازعے سے بچنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس گھر کا داخلی دروازہ، جس ملک کی سرحد کے اندر ہو گا، اس کے مکینوں کو اسی ملک کی شہریت دی جائے گی۔

لیکن اس سے بارلے کے لوگوں کی الجھنیں مزید بڑھ گئیں۔ سنہ 1995 میں ڈچ حکام نے ایک خاتون کے دروازے پر دستک دی جو 68 برسوں سے بیلجیم کی شہری تھی، آپ کا داخلی دروازہ ہالینڈ میں ہے اور اب آپ ہالینڈ کی شہری ہیں۔ پلیز، اب آپ ایک نیا پاسپورٹ بنوائیں۔ لیکن اس خاتون کے انکار کے بعد دونوں ممالک کے حکام مل بیٹھے اور ایک نیا حل نکالا گیا۔ خاتون کے گھر کی ایک کھڑکی کو توڑ کر اس کا نیا دروازہ بنایا گیا، جو بیلجیم میں تھا اور اس طرح اسے اپنا پرانا پاسپورٹ رکھنے کی اجازت مل گئی اور وہ بیلجیئم کی شہری کی حیثیت سے اپنے گھر میں ہنسی خوشی رہنے لگی۔

ایک ہی علاقے کے دو نام ،دو انتظامیہ سمیت ہر چیز دوہری

یورپ کے اس منفرد شہر بارلے میں ہر چیز دو مرتبہ ہے۔ ایک ہی علاقے کے دو نام، دو میئر، دو ملکوں کی انتظامیہ، دو پوسٹ آفس، دو مختلف یونیفارم والی پولیس، دو نصاب تعلیم، لیکن ان سب کو چلانے والی کمیٹی ایک ہی ہے تاکہ مقامی مسائل کا فوری حل نکالا جائے اور تعاون کو مزید بہتر بنایا جائے۔ مثال کے طور پر دونوں سرحدوں میں آنے والے علاقوں کی صفائی، منقسم گھروں کے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری اور ایسے ہی دیگر چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنا اسی کمیٹی کی ذمہ داری ہے۔ بے شک یہ شہر سیاحوں کا پسندیدہ مقام بن چکا ہے لیکن انتظامی تقسیم کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ مشترکہ کمیٹی ان مسائل کو شہریوں کو ذلیل کیے بنا فوری طور پر ان مسائل کو بہ احسن خوبی حل کرتی ہے اور ان دو ممالک کے شہریوں کو کہیں بھی کسی کلرک یا بیوروکریٹ کو رشوت نہیں دینی پڑتی۔

یہ بھی پڑھیں

سرائیکی خطے کی پہچان اوچ شریف

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button