

عبد الخالق ہمدرد
ہمارے گاؤں میں کسی زمانے میں لوگوں کے پاس بھیڑ بکریوں کے گلے ہوا کرتے تھے، ڈھور ڈنگر ہوتے تھے اور وہ محنت کر کے ان کے لئے سردیوں کے لئے چارے کا بندوبست کیا کرتے تھے اور زمین پر محنت کرتے اور ضرورت کی چیزیں اگایا کرتے تھے مگر اب محنت کا وہ رجحان مختلف وجوہ سے کم ہو گیا ہے جن میں سے ایک تعلیم بھی ہے کہ اب پڑھے لکھے نوجوان گھاس چھیلنا چاہتے ہیں، نہ بکریاں چرانا اور نہ ہی زمین جوتنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب شہروں کی طرح وہاں بھی سبزی بازار سے خریدنے کی نوبت آ چکی ہے۔
Contents
تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کھیتی باڑی اور باغبانی جیسے مشاغل میں دل چسپی نہیں رہی
اسی طرح میں مری کے کئی علاقوں میں گیا ہوں جہاں پرانے لوگوں کی محنت سے بنے کھیت اور باغات تک اب ویران ہیں اور لوگ اور تو چھوڑیں ان زمینوں سے اپنے لئے سبزی بھی اگانا گوارا نہیں کرتے حالانکہ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں انہی زمینوں سے لوگ اپنے سال بھر کا اناج بھی اگایا کرتے تھے۔ ان کھیتوں کی ویرانی کا سبب یہ ہے کہ نئی نسل کے پاس تعلیم اور ملازمتیں آ گئی ہے اور وہ محنت سے جی چرانے لگی ہے۔ یہی بات اور بھی کئی علاقوں پر صادق آتی ہے۔
میٹرک پاس کرنے والے بھی نوکری کی تلاش میں عمر ضائع کرتے اور محنت سے جی چراتے ہیں
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ہاں جس طرح بیروزگاری کے اور بہت سارے اسباب ہیں وہاں تعلیم بھی اس کا ایک سبب ہے کیونکہ جس نوجوان کے پاس میٹرک کی سند بھی آ جاتی ہے، وہ بھی کم ہی ہاتھ سے محنت کرتا ہے بلکہ آزاد رہنے کی بجائے نوکری کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور جب نوکری نہیں ملتی تو بیروزگاروں کی صف میں ایک اور شخص کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
تعلیم کا مقصد نوکری کے بجائے ترقی کی دوڑ میں شمولیت ہونی چاہیے
اس لئے میرے خیال میں کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ تعلیم کا مقصد صرف نوکری نہ ہو بلکہ ترقی کی دوڑ میں شمولیت ہو (اگرچہ تعلیم کا پہلا مقصد اچھا انسان اور مسلمان بننا ہے) تاکہ ہم صرف صارف نہ بنیں بلکہ پیداوار میں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔
Be the first to comment