Columns

کتاب کیسے خریدیں؟

امارات میں ساڑھے سات دن

عبدالخالق ہمدرد

گزشتہ سے پیوستہ —
آج ایک بار پھر میں اکیلا سیر کے لئے نکلا۔ ایک جگہ سے ٹیکسی لے کر سنٹر پوائنٹ پہنچا۔ گاڑی بان ایک با اخلاق شامی باشندہ تھا۔ بڑی اچھی گپ شپ ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ سنٹر پوائینٹ کا اصل نام ’’الراشدیہ‘‘ تھا لیکن اب بدل دیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ بڑی بڑی کمپنیاں اپنے نام رکھوانے کے لئے پیسے دیتی ہیں اس لئے سٹیشنوں کے نام ان کے مطالبے کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ اس بات میں حقیقت کہاں تک ہے، یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن ایک سٹیشن کا نام ’’ماکس Max‘‘ ہے جو ’’ماکس فیشن‘‘ کمپنی کا نام ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کمپنی کا کوئی نام نظر نہیں آیا۔

سنٹر پوائنٹ سے ’’ماکس‘‘ تک میٹرو میں گیا اور وہاں سے’’سطوہ‘‘ کی بس پکڑی۔ یہ بھی دبئی کا ایک علاقہ ہے اور اس میں ہماری طرز کا بہت بڑا بازار ہے جس میں ہر طرح کی چیزوں کی دکانیں ہیں۔ میں وہاں ایک انگوٹھی لینے گیا تھا۔ یہ کام ’’وزارت داخلہ‘‘ کا تھا۔ اس لئے جانا ضروری ٹھہرا، ورنہ ایک ایک چیز کے لئے یوں سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

یہ دوپہر کا وقت تھا، اس لئے گرمی بھی کافی تھی۔ تھوڑی دیر اور تلاش کے بعد مطلوب دکان پر پہنچا جو ایک ہندو کی تھی اور انگوٹھی خرید کر قریب ہی واقع سطوہ کی بڑی مسجد میں ظہر پڑھنے چلا گیا۔ یہ مسجد بھی دیگر مساجد کی طرح بہت خوبصورت اور شاندار ہے اور نمازی بھی بہت تھے۔ یہ منظر اچھا لگا۔

مسجد سے نکل کر دوبارہ ’’ماکس‘‘ کی بس پر سوار ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ جگہ کافی قریب تھی لیکن بس نے کافی لمبا چکر لگایا کیونکہ اس کا روٹ کئی اور مقامات سے بھی گزرتا تھا۔ اس طرح، بس پر ہی سہی، کافی علاقہ دیکھنے کا موقع مل گیا۔ یعنی بقول ماسی مصیبتے ؎

گھومنا مقصد ہمارا ملک سارا دیکھنا
میں کرانچی دیکھتی ہوں تم ہزارہ دیکھنا

’’ماکس‘‘ سے ایک بار پھر میٹرو پر سوار ہوا۔ اس وقت اس میں کافی بھیڑ تھی۔ سیٹی سنٹر اتر کر خدمت کام ودہن کا انتظام کیا جس کا اختتام سبز چائے (قہوہ) پر ہوا۔ میں میز پر اکیلا بیٹھا تھا اور لوگ جوڑوں اور کنبوں کی شکل میں آ رہے تھے۔ میں اس وقت ان کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے لگا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ آدمی بھری دنیا میں بھی اکیلا ہو سکتا ہے۔

آپ کے ساتھ سو آدمی ہیں مگر ان سے جان پہچان یا شناسائی نہیں ہے تو بیگانگی اور بے نیازی کا ایک ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جس میں آپ کو لگتا ہے کہ میں کسی کا ہوں اور نہ کوئی میرا۔ یہ ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بیگانگی کے اس ماحول میں آدمی ہر طرح کی کلکل اور چخ چخ سے بھی بالکل آزاد ہوتا ہے۔

کہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ چاہیں تو زبان کھولیں اور چاہیں تو چپ کا روزہ رکھ لیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اس کیفیت کو الفاظ کا روپ دے سکا ہوں جس سے اس وقت دو چار ہوا لیکن یہ ایک عجیب سی کیفیت تھی جس کا فسوں اس وقت ٹوٹا جب چائے ختم ہو گئی اور میں اٹھ کر کاؤنٹر کی جانب چل پڑا۔

اس کے بعد شارجہ کی بس کی تلاش میں نکلا۔ اس سے قبل ڈاکٹر مولانا ضیاء الحق چترالی سے رابطہ ہو چکا تھا۔ آپ ادارہ علوم اسلامی میں کچھ عرصہ ہمارے رفیق کار رہے۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ چترال یونی ورسٹی میں استاد ہو گئے ہیں اور کچھ عرصہ قبل پتہ چلا کہ اس وقت شارجہ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ مجھے ان کا فون نمبر نہیں مل سکا تھا اس لئے فیسبک پر ان کو پیغام دے دیا۔ حسن اتفاق کہ کل رات انہوں نے اس کا جواب دیا اور آج ملاقات طے ہو گئی۔

اس بار شارجہ کی بس دو منزلہ تھی۔ میں نے اس طرح کی بسیں پہلے بھی دیکھی تھیں لیکن اس میں سفر کرنے کا پہلا موقع تھا۔ اس لئے دوسری منزل پر چلا گیا اور پہلی رو میں جگہ مل گئی۔ سیر سپاٹے کے لئے اس بس پر سفر بہت اچھا اور دلچسپ لگا۔ میں نے ساتھ بیٹھے مسافروں سے ’’کتاب میلہ‘‘ کا پوچھا لیکن کوئی نہ بتا سکا کیونکہ یہ کوئی بازار تو تھا نہیں جو سب کو معلوم ہوتا۔ کوئی بیس منٹ بعد مجھے وہ جگہ نظر آ گئی جہاں میں کل اس اماراتی نوجوان کے ساتھ اترا تھا، تو وہیں اتر پڑا کیونکہ بس وہاں سے آگے جا رہی تھی۔

یہاں سے آٹھ دس منٹ پیدل چل کر نمائشگاہ پہنچا تو بھیڑ بہت تھی۔ لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے تھے۔ کئی جگہ مؤلف اور مصنف اپنی کتابوں پر دستخط کر رہے تھے جبکہ دستخط شدہ کتابیں لینے کے لئے قطاروں میں مردوں سے خواتین کی تعداد زیادہ تھی اور زیادہ کتابوں کا تعلق افسانے کے خاندان سے تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر ضیاء الحق بھی پہنچ گئے۔ ملاقات ہوئی، خوشی ہوئی۔ اب نمائش میں گھومنے کے لئے ہم ایک کی بجائے دو آدمی تھے۔ اس لئے وہ اجنبیت ختم ہو گئی اور گپ شپ کے ساتھ ساتھ گھومنا پھرنا بھی جاری رہا۔

کتاب خریدنے کے لئے پہلے سے کتابوں کی فہرست تیار ہونی چاہیے

آخر کار ایک سٹال سے محمود عباس العقاد کی پندرہ سولہ کتابیں ایک ساتھ لے لیں جبکہ کچھ کتابیں میں پہلے لے چکا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ کے پاس کتابوں کی ایک فہرست پہلے سے تیار ہونی چاہئے، ورنہ آپ کچھ نہیں لے سکتے۔ ایک جگہ مجھے المستطرف کا ایک بہت اچھا نسخہ نظر آیا۔ اس کی قیمت بھی اچھی خاصی تھی۔ پہلے تو میں اسے لینے لگا لیکن پھر خیال آیا کہ گھر میں اس کا چار کلو والا نسخہ پہلے سے موجود ہے۔ اس لئے چھوڑ دیا۔

ایک اور بات مجھے یہاں یہ سمجھ میں آئی کہ جن کتابوں یا مصنفین کے بارے میں آپ نے پہلے سن یا پڑھ رکھا ہوتا ہے، ان سے ایک درجے کا انس محسوس ہوتا ہے جبکہ نئی کتابیں اور نئے مصنف اوپرے اوپرے لگتے ہیں اور ان سے انس پیدا کرنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات آپ جلدی میں کوئی کتاب خرید تو لیتے ہیں لیکن بعد میں پچھتاتے ہیں کہ اگر نہ لیتے تو اچھا ہوتا۔

مغرب سے تھوڑی دیر قبل کتاب میلے پر نگاہ واپسیں ڈال کر باہر آ گیا۔ ضیاء الحق صاحب گاڑی لانے کے لئے پہلے نکل چکے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے تو ایک بار پھر سکون سے حال احوال پوچھا اور طے ہوا کہ رات کا کھانا ساتھ کھائیں گے اور اس کے بعد وہ مجھے مردف چھوڑ آٗئیں گے۔ مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ وہ یہاں بہت مطمئن ہیں اور پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔

کیونکہ جو آدمی دوسروں کی کامیابی اور خوشی پر خوش نہیں ہو سکتا، وہ در اصل اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر ناراض ہوتا ہے اور ایسے آدمی کا کوئی علاج نہیں۔ یہ ساری زندگی سب کچھ ہونے کے باوجود تنگی اور افسوس میں گزارے گا اور اس کے بعد کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔

اس سلسلے میں الحمد للہ میں نے کبھی اپنے کسی دوست سے مقابلے کی کوشش کی ہے اور نہ ایسا کرنا درست سمجھتا ہوں کیونکہ شاہراہ حیات ایک وسیع موٹر وے کی طرح سب کے سامنے کھلی ہے۔ آپ اپنی طاقت، اپنی مرضی اور اپنی رفتار سے سفر کریں۔ کسی کا رستہ کاٹیں اور نہ کسی کو شکایت کا موقع دیں۔ جب ہر آدمی الگ تھلگ ہے۔

اور اس کی ذات کے اعتبار سے کسی سے کوئی مقابلہ نہیں تو باقی چیزوں کو بھی اس پر قیاس کرتے ہوئے دوسروں کو اسی طرح قبول کر لیں جیسے وہ ہیں اور خود کو بلا تکلف اور بغیر کسی خول کے اسی طرح دوسروں کے سامنے پیش کریں جیسے آپ ہیں کیونکہ خول چڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ آج نہیں تو کل اتر جائے گا۔

ڈاکٹر عبدالزاق اسکندر کا سبق آموز واقعہ

اس بارے میں ایک خوبصورت واقعہ یاد آیا۔ ہمارے ایک ملائشیائی دوست نے گزشتہ دنوں بتایا کہ ہمارے استاد مرحوم ومغفور حضرت ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب ملائشیا تشریف لے گئے تو اس دوست سے کہا کہ مجھے اپنے گھر لے چلو۔ اس دوست کا کہنا ہے کہ میں نے کچھ پس وپیش کی مگر ایک نہ چلی اور آخر کار ان کو گھر لے گیا۔

حضرت نے گھر میں داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز پڑھی اور دعا فرمائی اور اس کے بعد فرمایا کہ میں نے تمھارے گھر آنے پر اصرار اس لئے کیا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے شاگرد کس حالت میں ہیں اور کسی کو اچھی حالت میں دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم اپنے شاگردوں کو خوش اور اچھی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے بھائی وہ وسعت ظرفی جس میں خرچہ ایک ٹکے کا نہیں اور ثواب بے حساب۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دلوں کی صفائی نصیب فرمائے کہ جب دل آئینہ ہو جاتا ہے تو بغض، حسد اور کینے جیسی بیماریاں اس کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی نے آپ کا حق مارا، نہ آپ سے کچھ چھینا اور نہ ہی اس کے آگے بڑھنے سے آپ کا کوئی نقصان ہے تو پھر حسد کس بات کا؟؟؟

گنجائش آور رخصت کا دائرہ کار

ڈاکٹر ضیاء الحق صاحب سے مختلف موضوعات پر بڑی دلچسپ گفتگو ہوتی رہی۔ ویسے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ زندگی میں بہت سے مقامات پر آدمی کو کوئی نہ کوئی تبدیلی قبول کرنا پڑ جاتی ہے۔ اس بارے میں میں یہ سمجھتا ہوں (اور یہ سمجھ غلط بھی ہو سکتی ہے) کہ جہاں دینی امور میں گنجائش ہو، وہاں تک تبدیلی کو برداشت کر لینا چاہئے لیکن جہاں گنجائش نہ ہو وہاں ڈٹ جانا چاہئے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آدمی جب ہر بات میں گنجائش اور رخصت تلاش کرنے لگتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ فرائض سے بھی چلا جاتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے ایک مکتوب میں بہت پہلے کچھ اس طرح کی بات پڑھی تھی کہ نماز میں مستحبات کا بھی اہتمام کرو کیونکہ اس کی پابندی سے سنت پر عمل آسان ہو جائے گا۔

شارجہ کی مہنگی تعلیم اور پاکستان

گپ شپ کے ساتھ اندھیرے میں سیر بھی ہو رہی تھی۔ ہم شارجہ کے المدینہ الجامعیہ (یونی ورسٹی سٹی) کے اندر سے گزرے۔ اس وقت سب کچھ بند تھا اس لئے باہر سے خالی عمارتوں کا ہی نظارہ کیا جا سکتا تھا جو بہت شاندار تھیں۔ یہاں شارجہ یونیورسٹی کے علاوہ امریکی یونیورسٹی اور دیگر کئی عالمی جامعات کے کیمپس ہیں لیکن ان کی فیسیں ہوشربا ہیں۔

اس لحاظ سے ہزار خرابیوں کے باوجود پاکستان کتنا اچھا ملک ہے کہ وہاں علاج یہاں کے مقابلے میں ہزار درجے سستا ہے، تعلیم سستی ہے، معیشت سستی ہے اور جو خرابیاں ہیں ان کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ یہاں جو چیزیں اربوں کے خرچ سے بنائی جاتی ہیں، وہ ہمیں مفت میں دستیاب ہیں لیکن ہمارے ہاں بے ترتیبی اور ملک کے وسائل کا ضیاع، اس کے آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

دن کو امین اللہ مندوخیل صاحب سے بات ہوئی تھی۔ ضیاء صاحب نے ان کو بھی رات کے کھانے کی دعوت دے ڈالی جو انہوں نے قبول کر لی۔ المدینہ الجامعیہ سے نکل کر رستے میں اپنے دوست معین خان سے الوداعی ملاقات کی اور پھر دبئی میں واقع ’’واخہ ریسٹورنٹ‘‘ روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو مندوخیل صاحب بھی پہنچ آئے۔ یہ ریستوران شنواری قسم کا ہے اور اس کو اندر سے ایک روایتی اور قدیم شکل دی گئی ہے اور بیروں کو وردی بھی اچھوتی سی اور پرانے طرز کی پہنائی گئی ہے۔

ضیاء صاحب نے بڑی پر تکلف دعوت کی۔ اس کے بعد مندوخیل صاحب سے الوداع ہو کر ہم دونوں مردف چل دئے اور ضیاء صاحب مجھے وہاں اتار کر واپس شارجہ میں اپنے گھر روانہ ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ اس غریب الدیار کی اتنی خاطر مدارات کی اور اپنے قیمتی وقت سے وقت دیا۔ دوستوں کی یہی باتیں تو آدمی کو مار دیتی ہیں۔ عربی کی ایک کتاب میں لکھا تھا کہ ایک صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو بھائی زیادہ پسند ہیں یا دوست؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں اس بھائی کا کیا کروں گا جو میرا دوست نہیں۔

رات کو میں نے حقانی صاحب سے کہا یار ایک انگوٹھی کے لئے اتنا سفر کیا، تکلیف برداشت کی اور اتنا کرایہ لگایا۔ اگر اس ہندو سنیارے نے کچھ رعایت کی بھی ہو تو اس سے کہیں زیادہ قیمت ہم نے ادا کر دی، پھر وہاں جانے کا فائدہ کیا ہوا؟ ایسی انگوٹھی تو ہم یہاں سے بھی خرید سکتے تھے۔ اس پر وہ ہنس کر کہنے لگے مولانا ایسا تو کرنا پڑتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس دکان کے سودے میں کوئی فرق نہیں آپ اطمینان سے سودا کریں جبکہ دوسری جگہوں میں بعض اوقات دھوکہ بھی ہو جاتا ہے۔

واپسی کی تیاری

آج واپسی تھی۔ رات سونے سے قبل ٹکٹ ایک بار پھر تسلی سے دیکھ کر وقت یاد کر لیا اور نیٹ سے پرواز کا معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وقت پر ہے۔ سفر کے دوران سواری کا وقت اور نظام الاوقات یاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ ذرا سی غلطی سے بعض اوقات بہت بڑا نقصان اور تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے ایک عزیز عمرے پر گئے تھے۔ واپسی پر ایجنٹ کی غلطی سے ان کی پرواز نکل گئی۔

اس پر ان کو جو ذہنی کوفت ہوئی ہوگی، وہ اپنی جگہ مگر تکلیف یہ ہوئی کہ ایک تو دوسری پرواز کے لئے ان کو کئی دن انتظار کرنا پڑا۔ اس کے بعد پرواز تو ہو گئی مگر اس نے ان کو پشاور کی بجائے کراچی جا اتارا۔ وہاں سے ان کو بذریعہ ریل پشاور آنا پڑا۔

اسی طرح ایک زمانہ تھا جب ہم نیلم کا سفر کرتے تو پنڈی سے چلنے والی بس مظفر آباد جا کر رک جاتی تھی اور رات چار بجے وہاں سے چلتی تھی اور واپسی پر شاردہ یا اٹھمقام میں اسی طرح رکتی تھی۔ ہم لوگ بس کے انتظار میں چارپائی یا کمرہ لیتے تو ہوٹل والے کو کئی بار تاکید کر کے بتاتے تھے کہ دیکھنا کہیں ہماری گاڑی نہ چھوٹ جائے اور وہ لوگ وقت پر آوازیں دیا کرتے تھے ’’شہر والے اٹھو بھئی، گڈی جلنے والی اے‘‘ یا کہتے ’’شاردہ، مقام والے اٹھو جی، استاد گڈی تے بے گین۔‘‘ اور پھر مسافر اٹھ کر بھاگتے تھے۔ اب یہ صورت حال شاید ختم ہو چکی لیکن دیر سویر کی وجہ سے اب بھی دوران سفر بعض اوقات رات رکنا پڑ جاتا ہے۔

اچھا اس پر یہ بات بھی یاد آئی کہ انسان کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے گھڑی لگائی ہے۔ مجھے ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں بار اس بات کا تجربہ ہو چکا ہے کہ اگر سفر میں ہوں تو مقررہ وقت پر خود بخود آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ شاید انسان کی سوچ کی قوت ہوتی ہے جو اسے بیدار کرتی ہے۔ چونکہ عام طور پر ہماری سوچ اتنی مرکوز نہیں ہوتی، اس لئے الارم بجنے پر بھی ہم نہیں اٹھ پاتے۔ سوچ اور ترکیز کی طاقت بڑے بڑے کام کرتی ہے۔ ہیپناٹزم، مسمریزم وغیرہ کا تعلق سوچ کے ارتکاز سے ہی ہے۔ ایک زمانے میں ہیپناٹزم کے بارے میں ایک کتاب کچھ کچھ پڑھی تھی۔ اس میں پہلی مشق شمع بینی تھی۔

گزشتہ قسط پڑھئیے:

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button