Columns

ہنگول نیشنل پارک ، پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک

ہنگول نیشنل پارک ، پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک

نوید نقوی

مجھے ہمیشہ سے بلوچستان اور یہاں کے غیور عوام پیارے لگتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان سے محبت کی ایک وجہ تو یہاں کے لوگوں کا بہادر اور مہمان نواز ہونا ہے دوسری اہم ترین وجہ پیارے دوست کلیم بخآری بھی ہیں۔ میں نے ان جیسا ایماندار اور فرض شناس افسر اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہے۔ وہ بلوچستان کے عوام کے بارے میں ایک بات کرتے ہیں کہ مہمان نوازی میں پورا پاکستان ایک طرف اور مکران ڈویژن ایک طرف ۔

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے جو ملک کے کل رقبے کے 44 فیصد پر مشتمل ہے جس کا کل رقبہ 3 لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر ہے ۔اس وقت صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ کے درمیان میں ہے۔ کوئٹہ ڈویژن آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ڈویژن ہے اور صوبائی دارالحکومت کی آبادی بھی 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

بلوچستان کا محل وقوع

قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع کے اعتبار سے اہم ترین صوبہ ہے۔اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خيبر پختون خوا، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جبکہ مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کی 832 کلو میٹر سرحد ایران اور 1120 کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ 760 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔

ہنگول نیشنل پارک

پاکستان ،ایران اور افغانستان میں بلوچ آبادی کا تناسب

ایران میں بلوچوں کا علاقہ جو ایرانی بلوچستان کہلاتا ہے اور جس کا دارلحکومت زاہدان ہے، ستر ہزار مربع میل کے لگ بھگ ہے۔ بلوچوں کی آبادی ایران کی کل آبادی کا دو فی صد ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں زابل کے علاقہ میں بھی بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ پنجاب اور سندھ کے دور دراز کے علاقوں میں بھی بلوچ قبائل صدیوں سے کافی تعداد میں آباد ہیں۔ پنجاب ان بلوچ قبائل کا گھر ہے جو سندھ اور بلوچستان کی سرحد کے قریب رہتے ہیں جن کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے لیکن دو فیصد سے کم لوگ بلوچی بولتے ہیں یا بلوچی روایات کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے بجائے یہاں کے زیادہ تر بلوچ قبائل سرائیکی بولتے ہیں اور سرائیکی ثقافت کے پابند ہیں۔

بلوچستان ترقی کی سست رفتاری کی وجوہات

یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ بلوچستان باقی صوبوں کی نسبت ترقی کی دوڑ میں کافی پیچھے رہ گیا ہے حالانکہ قدرتی وسائل سے یہ مالا مال ہے۔ بلوچستان کی کم ترقی کی ایک وجہ طویل عرصے تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے چشم پوشی ہے اور اس سے بھی بڑی وجہ وہاں پر رائج فرسودہ سرداری نظام ہے، پے در پے ازخود نافذ کردہ سرداری نظام نے بلوچستان کے لاء اینڈ آرڈر کے نظام کو بے تحاشا کمزور کیا، پولیسنگ سسٹم بھی سرداری نظام کی نذر ہوگیا یہ نظام صوبے کے وسائل ہڑپ کرگیا ہے۔ حکومت جو بھی صوبائی ترقیاتی فنڈ جاری کرتی ہے وہ سرداری نظام کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جبکہ عام آدمی کو اس کا ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے صوبے میں بدحالی اور غربت میں اضافہ ہوا، یہی وجہ انتشاری ذہن کی تشکیل سازی کا سبب بھی بنی ہے۔
بلوچستان کی جتنی بھی کالعدم تنظیمیں ہیں وہ بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ دوسرے صوبوں سے آنے والے آباد کاروں کو قرار دیتی ہیں حالانکہ بلوچستان کے غیور عوام کی پسماندگی کی اصل وجہ یہاں کے مطلب پرست اور کرپٹ سردار ہیں۔ تاہم اب بہت تیزی سے بلوچستان میں بہت سے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے، جس کے نتائج ثمرات سے بھرپور ہوںگے اور اس سے عام عوام بھی مستفید ہوں گے۔

صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالا مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را ہو یا افغانستان میں موجود عالمی دہشت گرد گروپس ان وسائل پر حریصانہ نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ یوں تو صوبہ بلوچستان میں سیاحت کے حوالے سے کافی مقامات ہیں اور قدم قدم پر قدرت کے شاہکار سموئے ہوئے ہیں جن کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں بھی کیا تھا۔
دنیا کی سب سے دلچسپ سڑک مکران کوسٹل ہائی وے بھی بلوچستان میں واقع ہے اور میں نے اس پر بھی الگ کالم لکھ چکا ہوں لیکن آج ان سطور میں آپ ایک ایسے پارک کے بارے میں پڑھیں گے جس کی شہرت دنیا بھر میں ہے اور دور دراز کے خطوں سے سیاح اس پارک کے نظارے کرنے کے لیے آتے ہیں۔

چھ لاکھ 19 ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا نیشنل پارک

ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو تقریباً چھ لاکھ 19 ہزار ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ کراچی سے 190 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران میں پھیلا ہوا ہے۔ وسیع رقبے پر پھیلے اس علاقے کو سنہ 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔

نیشنل پارک کسے کہتے ہیں ؟

قدرتی تحفظ کی عالمی یونین (آئی یو سی این) کے معیار کے مطابق نیشنل پارک ایک ایسا محفوظ علاقہ ہوتا ہے جو جنگلی حیات، ماحولیات اور ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے خصوصی طور پر تعمیر کیا جاتا ہے اور جس کا مقصد کسی مخصوص علاقے میں نایاب ہوتی انواع ( نباتات اور حیوانات) کو ایسا موافق ماحول فراہم کرنا ہے جو اُن کی بقا کے لیے ضروری ہو۔ اس پارک کا نام بھی دریائے ہنگول کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جو میزبان دریا کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔

چھ ایکو سسٹم پر مشتمل منفرد قومی پارک

یہاں لاکھوں کی تعداد میں مسافر پرندے پڑاؤ کرتے ہیں یہ دریا بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ بہتا ہے اور آبی حیات کی ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر مشہور ہے۔ ہنگول نیشنل پارک پاکستان کے دیگر علاقوں میں بنائے گئے نیشنل پارکس سے بہت مختلف ہے۔ کیرتھر، خنجراب، چترال، ہزار گنجی، مارگلہ ہلز اور ایوبیہ نیشنل پارکس بہت خوبصورت اور ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہنگول نیشنل پارک سب سے اس لیے ممتاز ہے کہ اس میں چھ مختلف ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
اس پارک میں آپ کو ایسے حسین ترین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ آپ ہر قدم پر سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے یہاں بیک وقت صحرائی و میدانی علاقے بھی ہیں۔ اس کے شمال میں گھنے جنگلات اور جنوب میں بنجر پہاڑی سلسلہ ہے جبکہ دوسری جانب دریائے ہنگول کے ساتھ وسیع جھیل نما یا نمکین پانی والا دلدلی علاقہ بھی موجود ہے۔ یہ دریا آگے جا کر سمندر میں گرنے سے پہلے مدوجزر والا ایک دہانہ بناتا ہے جو ہزاروں ہجرتی پرندوں اور دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔

ہنگو نیشنل پارک

قدرتی عمل سے تراشی گئیں انوکھی چٹانیں دیکھنے والوں کو سحر زدہ کرتی ہیں

یہاں آکر آپ افریقہ کے قدرتی جنگلات کی خوبصورتی بھول جائیں گے۔ صدیوں کے ارتقا اور سمندری ہواؤں کے قدرتی کٹاؤ کے عمل سے چٹانیں انوکھے خطوط پر تراشی گئی ہیں جو یہاں آنے والے سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں اور آپ پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، 2004 سے پہلے اس علاقے کی شہرت سیاحوں میں نہیں تھی لیکن جیسے ہی سابق صدر پرویز مشرف نے مکران کوسٹل ہائی مکمل کروائی اس خطے کی خوبصورتی بھی آشکار ہوتی گئی۔
عجائب کی اس سرزمین پر کئی اشیا سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ہنگول نیشنل پارک پاکستان میں پائی جانے والی ایسی جنگلی حیات کے لیے قدرتی پناہ گاہ کا کام کرتا ہے جو معدومیت کے خدشے سے دوچار ہیں۔

خوبصورت تراشی ہوئی

سروے کے مطابق ہنگول نیشنل پارک 257 نباتاتی اور 289 حیوانی انواع کا مسکن ہے

ایک سروے کے مطابق یہ تقریبا 257 کے قریب نباتاتی اور 289 حیواناتی انواع کا مسکن ہے جن میں 35 ممالیہ، آبی جاندار، ایمفی ہیں یعنی خشکی اور سمندر دونوں میں رہنے والے جاندار، رینگنے والے جانور اور دنیا بھر سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی سینکڑوں نایاب اقسام شامل ہیں۔ اس پارک سے متصل ساحلی پٹی پر جو دلدلی علاقے ہیں وہاں مگرمچھ کافی تعداد میں دیکھے جا سکتے ہیں بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقے سبز اور زیتونی کچھووں کی افزائش کے لیے بہترین مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ ہنگول نیشنل پارک کے وسیع رقبے پر مشتمل میدانی علاقے میں کئی وادیاں ہیں۔

اسکندر اعظم کے ہزاروں سپاہی مکرانی ساحلوں پر مارے گئے

اس علاقے کو ایرانی تاریخ میں انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق 324-325 قبل مسیح میں سکندر اعظم کو مکران کے ساحلی علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک بڑے طوفان اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے خوراک اور پینے کے پانی کی شدید کمی کے باعث سکندرِ اعظم کے ہزاروں سپاہی مارے گئے۔
ایران اور بلوچستان کے اس ساحلی پٹی کے دلکش خدوخال پر کئی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہو چکی ہیں۔

قدیم تہذیب کا آرکیالوجی کمپلیکس

سمندر کے مدو جزر اور تیز طوفانی ہواؤں نے مکرانی ساحلی پٹی اور ملحقہ پہاڑی چٹانوں کی تراش خراش کچھ یوں کی ہے کہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں یہ کسی قدیم تہذیب کا آرکیو لوجی کمپلیکس معلوم ہوتا ہے۔ ہنگول نیشنل پارک کی ایک پہچان پرنسس آف ہوپ نامی ایک چٹان ہے۔ یہ دور سے دیکھنے میں ایک درازقامت خاتون کا مجسمہ معلوم ہوتی ہے جو دور افق میں کچھ تلاش کر رہی ہے۔

انجلینا جولی نے مجسمہ نما چٹان کو امید کی شہزادی قرار دیا

معروف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سنہ 2004 میں اقوام متحدہ کے ایک خیر سگالی مشن پر پاکستان آئیں تو یہ چٹان ان کی توجہ کا مرکز بنی اور انھوں نے ہی اسے پرنسس آف ہوپ یا امید کی شہزادی کا نام دیا۔ دوسری اہم ترین چٹان جس کو مقامی لوگ ابوالہول کے نام سے پکارتے ہیں یہ چٹان بھی اپنی ایک دلچسپ خصوصیت رکھتی ہے۔
مصر، گیزا میں واقع مشہور اسفنکس کے مجسمے سے بے حد مشابہہ اس چٹان کو سنہ 2004 میں مقامی مزدوروں اور انجینیئرز نے مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے دوران دریافت کیا تھا۔

 

آٹھ سو سے 1500 فٹ بلند مٹی فشاں بھی سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں

ہنگول نیشنل پارک میں سیاحوں کے لیے ایک اور کشش یہاں کثرت سے موجود مڈ والکینوز یا مٹی فشاں ہیں جن کی اکثریت میانی ہور کے علاقے میں ہے۔ ان کی بلندی 800 سے 1500 فٹ تک ہے۔ مٹی فشاں دراصل ایسے پہاڑوں کو کہا جاتا ہے جو مسلسل مٹی اگلتے رہتے ہیں جس سے ان کی چوٹی پر ایک کون بن جاتی ہے۔ یہ عمل شدید گرمی کے موسم میں تپتی ہوئی ریت، زیر زمین قلیل مقدار میں موجود پانی اور گیسوں کے کیمیائی عمل سے وقوع پزیر ہوتا ہے۔

ہنگلاج ماتا مندر جو پاکستانی ہندؤں کے اہم ترین استھانوں میں سے ہے

ہنگلاج ماتا مندر جسے مقامی افراد نانی مندر بھی کہتے ہیں پاکستان میں موجود ہندوؤں کے اہم ترین استھانوں میں سے ایک ہے۔ یہ مندر کیرتھر پہاڑی سلسلے کی نسبتاً تنگ وادی میں واقع ہے۔ مگر مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد یہ سفر نسبتاً سہل ہو گیا ہے۔یہیں ہنگلاج وادی میں ایک غار میں موجود کالی ماتا کے مندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دو لاکھ سال پرانا مندر ہے۔ ہنگول نیشنل پارک کے آخری کونے پر کنڈ ملیر سے ملحقہ ساحل جسے ورجن بیچ بھی کہا جاتا ہے کو سنہ 2018 میں ایشیا کے 50 خوبصورت ترین ساحلوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
مکران کوسٹل ہائی وے سے سفر کرتے ہوئے بوجی کوہ میں واقع ساحل سپت بیچ تک باآسانی پہنچا جا سکتا ہے جو بلوچستان کا ایک اور مسحور کن ساحل ہے یہ پاکستان کا وہ واحد ساحلِ سمندر ہے جس کے گرد پہاڑوں میں غار ہیں۔ ان علاقوں میں جاتے وقت اپنے ساتھ خوراک اور پانی لیتے جائیں کیونکہ یہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے آئیں مل کر بلوچستان کی خوبصورتی کو پوری دنیا میں عام کریں اور بھارت ہو یا کوئی بھی دشمن اس کا بلوچستان کے متعلق پروپیگنڈا ناکام کریں بلوچستان پاکستان کا اہم ترین اثاثہ ہے اور ہم اس کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں

استنبول یورپ اور ایشیا کو ملانے والا تاریخی شہر

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button