Columns

حقوق نسواں، دور جدید کی بیگمات اور بچارے شوہر

حقوق نسواں، دور جدید کی بیگمات اور بچارے شوہر

نوید نقوی

جاوید چودھری کے لئے ڈھیروں دعائیں

میں ہمیشہ محترم جاوید چودھری صاحب کا شکر گزار رہوں گا اور ان کے لیے دعائیں کروں گا کہ مجھ جیسے نکمےکو ایکسپریس نیوز اسلام آباد میں انٹرن شپ کروائی اور ہر روز F7/3 سے ایکسپریس نیوز کے دفتر لے کر جاتے تھے اور پھر رات کو اپنا پروگرام کل تک کرنے کے بعد فیصل ایونیو تک ڈراپ بھی کرتے تھے، آج میری صحافت اور سیاست کے جتنے ناموں سے سلام دعا ہے سب ان کی وجہ سے ہے، میں ان کے کالم بلا ناغہ پڑھتا رہا اور لکھنے کی پریکٹس بھی کرتا رہا۔

 13 نومبر کو پاکستان ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل انگلینڈ سے ہار چکا ہے جس کا بہت دکھ ہے،اگر شاہین آفریدی انجرڈ ہو کر میدان سے باہر نہ جاتے تو شاید آج پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ایک سنہرا اضافہ ہو چکا ہوتا۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

 آج سیاست اور دیگر مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو آج کل ہر مرد کا مسئلہ بنا ہوا ہے، شاید کہ کسی پر کچھ اثر ہو جائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ “وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ” بلا شبہ اسلام نے عورت کو اعلى مقام ديا ہے۔ اسلام کى نظر میں عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ شرم کى بات نہیں ہے۔

متوازن معاشرے کے قیام میں عورت کا کردار

 ہر فرد کی زندگی میں عورت کسى نہ کسى صورت ميں ايک موثر کردار ادا کرتى ہے۔ ايک متوازن اور ترقى يافتہ معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت کى بہت بڑى اہميت ہے۔ قرآن مجید اور سنتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عورت کے مقام کے بارے میں کئی ایک آیات و روایات موجود ہیں۔ عورت خواہ ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہو، اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق و فرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

اسلام نے عورت کا نفقہ مرد کے ذمے لگایا

اسلام مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اور اخلاق و شریعت کا پابند بنایا ہے۔ عورتوں کا نفقہ بھی ان کے مردوں پر واجب ہے۔صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

“وسعت والا اپنی وسعت کے موافق خرچ کرے، اور اگر تنگ دست ہو تو جو کچھ اللہ نے اسے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے، اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی قدر جو اسے دے رکھا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا۔

خواتین نہ ہوں تو گھر ویران ہو جائیں

یہ بھی حقیقت ہے اگر صنف نازک نہ ہو تو گھر ویران ہو جائیں اور دنیا میں رہنا ہی بے معنی ہو جائے، گھر کا ہر فرد ان کا محتاج ہوتا ہے، گھر میں ماں ہو یا بیوی ، ان خواتین کو ‘آلہ دین کا چراغ’ سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ خواتین گھریلو کام کرنا چھوڑ دیں تو یہ دنیا کا نظام مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گا۔

جب خواتین نے پورے آئس لینڈ کا نظام زندگی مفلوج کر دیا

سنہ 1975 میں آئس لینڈ کی نوے فیصد خواتین نے 24 اکتوبر کو ایک دن کے لیے کھانا پکانے، صفائی کرنے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے انکار کردیا۔ خواتین کے اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ پورا ملک اچانک رک گیا۔ کام پر جانے والے مردوں کو فوری طور پر گھر واپس آنا پڑا اور بچوں کو ریستوران لے کر بھاگنا پڑا اور وہ تمام کام رک گئے جو عام طور پر مرد کرتے تھے۔

خواتین کے گھریلو کاموں کی قیمت کا تخمینہ 10 کھرب ڈالر

 سنہ 2019 میں خواتین کے کیے جانے والے ‘گھریلو کاموں’ کی قیمت دس کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔ یہ فارچیون گلوبل 500 کی فہرست میں شامل والمارٹ، ایپل اور ایمیزون وغیرہ جیسی پچاس بڑی کمپنیوں کی کل آمدنی سے زیادہ تھی۔

بچپن سے لیڈیز فرسٹ کا تصور

بچپن سے ماں کی گود سے یہ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں لیڈیز فرسٹ اور عورتوں کا احترام سب سے پہلے وغیرہ وغیرہ، اسکول میں ہمارے پیارے استاد محترم ملک محمد الیاس صاحب نے لڑکیوں کو گڈیاں کہنے کی اصطلاح متعارف کروائی اور ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ جب پانی پینے جاؤ تو سب سے پہلے گڈیوں ( لڑکیوں) کے لیے جگہ خالی کر دو! جب اسکول کی چھٹی کا وقت ہوتا تو وہ 20 منٹ پہلے ان گڈیوں کو جانے کی اجازت دے دیتے۔

اس دور میں جب کسی کھلونے کی ملکیت پر بہنوں سے جھگڑا ہوتا تو اماں یہ فرما کر ہمیں چپ کرا دیا کرتیں کہ کوئی بات نہیں بہن ہے ۔ اس طرح ہمارے لاشعور میں یہ بات بیٹھتی گئی کہ چاہے کچھ بھی ہو پہلے صنف نازک بعد میں ہم ۔

پھر یونیورسٹی میں بھی ہم نے اپنی کلاس فیلو لڑکیوں کو بڑھ چڑھ کر عزت دی اور حقوق نسواں کے داعی رہے، میڈیا میں بھی جب عملی صحافت کا آغاز کیا تو ہمیشہ اپنی خواتین کولیگز کو عزت دی اور جب بھی خواتین پر ظلم کے حوالے سے کوئی خبر سنتے دل سے افسوس ہوتا اور مرد ہونے کے باوجود ان مردوں پر لعن طعن کرتے کہ عورت پر ظلم کسی صورت نہیں کرنا چاہئیے اور خود سے ہمیشہ یہ کمٹمنٹ کی کہ جب شادی ہوگی اپنی بیوی کی ہر بات مانیں گےاور ہر بات توجہ سے سنیں گے۔

میرے لاشعور میں استاد محترم کا حکم اور والدہ ماجدہ کی نصیحت تازہ رہی کہ عورت کا احترام اور ہر معاملے میں لیڈیز فرسٹ!

پھر ہم بھی شادی شدہ ہوگئے

 وقت گزرتا رہا زمانے کے سرد گرم کا مقابلہ کرتے کرتے ایک دن ہم بھی شادی شدہ ہو گئے۔ اب آگے کی آب بیتی ذرا دل تھام کر سنیں اور میرا مقصد ہر گز ہر گز کنواروں کی حوصلہ شکنی نہیں ہے۔ ہم پاکستانی مرد جب تک اماں کے ساتھ ہوتے ہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ عورتوں کی آزادی کے بارے میں نئی تھیوریاں کیا کہتی ہیں۔ جس دن کسی ریلیشن شپ میں پڑے، تب کہانی کھلتی ہے کہ اوہو، اچھا، یہ سب کچھ چل رہا تھا دنیا میں!

مظلوم بیوی یا شوہر ؟

شادی کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہم مرد بے چارے کو دنیا کی سب سے مظلوم مخلوق سمجھنے لگے کیونکہ اب خود پر جو بیت رہی تھی۔ اگلے زمانوں میں پیدائش کے بعد مائیں بچے کا پیٹ بھرتی تھیں، آج کل دودھ کا ایک ڈبہ دو ہزار کا آتا ہے اور تین دن میں ختم۔ بہت محتاط ایوریج لگائیں تو مہینے کے آٹھ ڈبے۔

جدید دور میں بچوں کے پیمپر اور بہت کچھ شوہر کے ذمے

پہلے پیمپر اس وقت لگاتے تھے جب بچے کو باہر لے جانا ہوتا تھا، ورنہ کپڑے کے نیپکن تھے جو بس دھوئے جاتے اور بچے کو باندھ دیتے۔ ہفتے کا دو ہزار کم از کم یہ لگا لیں۔ اب دور جدید میں دودھ کے ڈبے اور پیمپرز باپ کی ذمہ داری ہے، ظاہری بات ہے ماں کا اس سب سے کیا تعلق؟

 صفائی والی، کپڑے برتن دھونے والیاں، یہ بھی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ آپ کسی بھی وقت کہیں بھی یہ رونا رو کے دیکھ لیں، ہمدردی کوئی نہیں کرے گا، یا تو کنجوس سمجھے جائیں گے یا پھر ظالم۔ شادی شدہ مرد کے بارے میں آج کل دنیا بھر کی خواتین نے بالخصوص یہ فرض کر لیا ہے کہ زندگی کی رونقوں پر اس کا حق ختم! وہ کسی خاتون سے بات کر لے، پوسٹ پہ کمنٹ دے، لائیک کرے یا کوشش بھی کر لے تو اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ آپ یہ سب نہیں کر سکتے۔

خواتین کا اچھا بھاؤ تاؤ کرنے کا زعم

پچھلے اتوار بیگم نےصبح سویرے کہا “بات سُنیں! بازار تک لے چلیں کچھ چیزیں خریدنی ہیں!

مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اپنی بائیک نکالی اور بیگم کو لے کر روانہ ہوگیا۔

سارے راستے بیگم اپنی سہلیوں کی اچھی قسمت اور ان کے شوہروں کی رن مُریدی ٹائپ کے قصّے سُناتی رہیں۔اللّہ اللّہ کرکے بازار پہنچے جہاں بیگم نے بھاؤ تاؤ کے اپنے سارے داؤ پیچ آزمانے کے بعد اپنے تئیں سبزیاں اور پھل بہت سستے خرید لیے جبکہ دوکاندار نے سامنے لگی ریٹ لسٹ کے مطابق ہی سامان بیچا تھا۔میں نے ایک دو جگہ بیگم کی توجہ دلانے کی کوشش کی لیکن آگے سے بیگم صاحبہ نے میری سمجھداری کے بارے دوتین قصیدے پڑھ کر کہا “آپ تو چُپ ہی رہاکریں آپ کو کیا پتہ ان چیزوں کا ، اگر آپ اتنے ہی سمجھدار ہوتے تو میں آپ کو ہی خریداری کرنے بھیج دیتی۔

بیگم کی اس بات پر دوکاندار نے مجھے دیکھتے ہوئے دانت نکالے جبکہ میں خفت مٹانے کی خاطر کریلوں والے سٹال کی طرف متوجہ ہوگیا۔

واپسی میں بیگم نے سپر مارٹ جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور ہماری سواری کا رُخ اُس سمت مُڑ گیا۔مارکیٹ پہنچنے تک اور شاپنگ کے دوران بھی بیگم اپنی سہیلیوں کی قسمت اور ان کے شوہروں کی رن مُریدی کے قصے بغیر کسی وقفے کے سُناتی رہیں جبکہ اپنی قسمت کو تقریباً کوستی رہیں۔

پان برائے خاموشی

اس دوران ایک جگہ پان والا کھوکھا دیکھ کر میں نے بیگم سے پوچھا “بیگم آپ نے کبھی پان کھایا ہے؟بیگم حسرت بھرے انداز میں بولیں ؛ کالج کے زمانےمیں اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ ایک بار کھایا تھا۔

میں نے فوراً کہا چلیں پان کھاتے ہیں۔ آپ یہ سمجھیں میں آپ کی یونیورسٹی والی سہیلی ہوں”

بیگم نے حامی بھرتے ہوئے ترنت کہا “لاحول ولا قوۃ۔ میری سہیلیاں تو بہت خوبصورت تھیں۔ لیکن چلیں دل پر پتھر رکھ ہی لیتی ہوں”

میں نے کھوکھے والے سے ایک قوام یعنی میٹھا پان لگوا کر بیگم کو پیش کردیا جو انہوں نے اپنی نمناک آنکھوں کے ساتھ اپنے منہ میں رکھ لیا اور مجھ سے مخاطب ہوئیں” ارے آپ نے اپنے لئے تو لگوایا ہی نہیں”میں کھوکھے والے کو پیسے دیتے ہوئے بےاختیار بیگم سے مخاطب ہوا

“کوئی بات نہیں بیگم! آپ انجوائے کریں۔ میں تو ویسے بھی خاموش رہ سکتا ہوں نا” اب اس بات پر بھی بیگم کی جلی کٹی سننی پڑی اور گھر جا کر علیحدہ سے سارے کپڑے پریس کرنے اور ایک ڈریس لے کر دینے کی سزا سنائی۔دوکاندار جاننے والا تھا اور کچھ دن پہلے میں اسی دوست سے ایک سوٹ 2000 میں طے کر گیا تھا کہ جب پیسے ہوں گے لے جاؤں گا ، میری بیگم کو اس نے 4000 کا بتایا جو بیگم صاحبہ نے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اپنے تئیں اچھا بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے 3000 کا لے لیا اور اپنے قصیدے خود پڑھتے ہوئے فرمایا؛

 “میں نہیں کہتی تھی آپ کوئی چیز نہ خریدا کریں آپ کو کیا پتہ ان چیزوں کا ، جب کہ دوکاندار مجھے دیکھ کر اپنی ہنسی بمشکل روک رہا تھا ۔ میں خفت مٹانے کے لیے بائیک کو سٹارٹ کرنے کی ایکٹنگ کرنے لگا، اب آپ ہی بتائیں بے چارہ شوہر اپنے مسائل لے کر کس کے پاس جائے اگر مگر کرے تو حقوق نسواں والے بھائی فوری فتویٰ لگا دیں کہ کتنا ظالم ہے۔

یہ بھی پڑھیئے:

سعودی عرب کے قدیم پراسرار دروازے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button