Columns

محرم الحرام اور ہماری حساسیت

محرم الحرام کا مہینہ جب بھی آتا ہے ہمارے ہاں مختلف قسم کے فرقہ وارانہ بحث ومباحثے سر اٹھاتے ہیں، کہیں رافضیت کے طعنے تو کہیں ناصبیت کی فقرے بازیاں ، دونوں جانب حساسیت ہی حساسیت نظر آتی ہے، تشدد اور بے اعتدالی ہی دکھائی دیتی ہے ،اعتدال ان دو انتہاؤں کے بیچ کہیں پس کر رہ جاتا ہے۔

رفض اور ناصبیت کے فتوے

ایک طبقہ حب حسین کے مختلف مظاہر کو کو رفض قرار دیتا ہے تو دوسرا قصے کہانیوں کے انکار کو ناصبیت گرانتا ہے ،حساسیت اتنی ہے کہ کوئی یکم محرم الحرام کو خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت قرار دے تو اس پر دشمن اہل بیت کی بھبھتی کسی جاتی ہے۔

حالانکہ یہ ایک علمی اور تاریخی بات ہے ،جس کا عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ تاریخی روایات دونوں طرح کی ہے ، اگر کوئی دلائل کی بنیاد پر سمجھتا ہے کہ ستائیس ذوالحجۃ حضرت عمر کا یوم شہادت ہے تو یہ اس کا حق ہے اسی طرح اگر کوئی اپنی دانست میں یکم محرم الحرام کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت مانتا ہے تو اس میں بھی کچھ غلط نہیں ہے یہ کیوں فرض کر لیا گیا ہے کہ اس کے پیچھے تعصب کا عنصر کار فرما ہے اور مقصد محرم کی نسبت کو دو شخصیات میں بانٹنا ہے۔

اہل بیت اور حسن حسین کی محبت تو دونوں فریقوں کا دینی سرمایہ ہے محبت کے اظہار کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں ، محبت کے معیارات بھی مختلف ہو سکتے ہیں البتہ اپنے معیار کو دوسروں پر مسلط کرنا غلط ہے کیونکہ یہ معیار کوئی منصوص نہیں ہے اجتہادی ہے اور اجتہادی معاملات میں فتوے بازی نہیں ہوتی ۔

کربلا کی اصطلاح

دوسری جانب “اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد” جیسے شعر کہنے اور لکھنے پر رافضیت کا شبہ کیا جاتا ہے ، معترضین کا خیال ہے کہ یہ کسی شاعر کا شعر نہیں ہے بلکہ کسی مفتی اعظم کا فتویٰ ہے، یہ کسی ادیب کا تخیل نہیں ہے بلکہ کسی مولوی کا مسلکی بیانیہ ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلام کربلا کے واقعے سے پہلے مردہ تھا کربلا نے اسے زندگی عطا کی ۔

حالانکہ یہ شاعر کے تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہے ، کربلا ہمارے ادب کی ایک اصطلاح ہے جو دین کے لئے بے لوث قربانی اور اسلام کی سربلندی کی خاطر نتائج سے بے پروا ہو کر جان کی بازی لگانے کے لئے استعمال ہوتی ہے، شاعر کا مقصد واقعات کی ترتیب بندی ہر گز نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ حق قربانی چاہتا ہے اور اسلام ہر دور میں جانوں کا خراج مانگتا ہے۔

یہی وجہ ہے شاعر نے “ہر کربلا” کی تعبیر استعمال کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر کے نزدیک بھی کربلا سے ملتے جلتے قربانیوں کے واقعات اور بھی ہیں اور آئندہ بھی اس قسم کی سرفروشی کی داستانیں رقم ہوتی رہیں گی جن کے نتیجے میں دین اسلام کو سربلندی عطا ہوتی رہے گی۔

علیہ السلام پر جھگڑا

حساسیت والے معاملات میں سے ایک “علیہ السلام” کا استعمال بھی ہے جو کہ ایک دعائیہ کلمہ ہے، اہل تشیع اپنے تمام اماموں کے لئے یہ استعمال کرتے ہیں کبھی کبھار اہل سنت کے علماء بھی حضرت امام حسین کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں تو بعض حساس لوگوں کی رگ حساسیت پھڑک اٹھتی ہے وہ چیختے ہیں کہ یہ تو رافضیت ہے، حالانکہ ان چیزوں کا عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے انبیاء کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام ، صحابہ کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ اور اولیاء کے ناموں کے ساتھ رحمہ اللہ لگانا اہل سنت کی اصطلاحات ہیں۔

مسئلے کی رو سے ان کا استعمال ان سے ہٹ کر بھی کیا جا سکتا ہے یہ کوئی ایمان اور اسلام کا مسئلہ نہیں ہے ،قران کریم نے تو ” سلام ” کی تعبیر عام مسلمانوں کے لئے بھی استعمال کی ہے چنانچہ سورہ احزاب میں ارشاد بے ” ھوالذی یصلی علیکم و ملائکتہ “( اور اللہ وہ ہے جو تم پر سلام بھیجتا ہے اور ان کے فرشتے بھی تم پر سلام بھیجتے ہیں) اگر خود اللہ تعالیٰ غیر نبی یعنی عام مسلمانوں پر سلام بھیج سکتے ہیں اور ان کے فرشتے بھیج سکتے ہیں تو مسلمان ایک دوسرے پر سلام کیوں نہیں بھیج سکتے ؟

جب ہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ملنے کی ابتدا سلام سے کرتے ہیں سلام کرنے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنے مخاطب پر سلام بھیجتے ہیں جب ہم کسی کو “السلام علیکم” کہہ رہے ہوتے ہیں تو اس پر سلام ہی بھیج رہے ہوتے ہیں یعنی اس کے لیے سلامتی کی دعا کر رہے ہوتے ہیں۔

مذہبی لوگوں کے ہاتھوں نظام زندگی کی معطلی

ایک غیر علمی رویہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسلمانوں کا ایک طبقہ مذہبی رسومات اور مذہبی جلسے جلوسوں کے ہاتھوں نظام زندگی کی معطلی کو درست نہیں سمجھتا، نظام زندگی کی یہ معطلی خواہ محرم کے جلسے جلوسوں کی وجہ سے ہو یا ربیع الاول کی ریلیوں کی شکل میں، اس طبقے کاموقف بھی ایک علمی موقف ہے ایسا موقف رکھنے والوں کو علمی جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن ہمارے ہاں اس معاملے میں بھی فتوے بازی ہوتی ہے جو کہ بے اعتدالی اور شدت پسندی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس طرح کا موقف رکھنے والوں کا خیال ہے کہ مذہبی جلسوں،جلوسوں اور رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی ایس او پیز ہونے چاہئیں تاکہ ان کی وجہ سے عوام الناس کے روز مرہ کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں ۔

گزشتہ سال میں اہلیہ کو لے کر اسپتال گیا ہوا تھا مغرب کے بعد واپس آرہا تھا کہ راستے میں بدترین ٹریفک جام نظر آیا پندرہ بیس منٹ بس ہی میں بیٹھے رہے لیکن ٹریفک جام تھا کہ کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کوئی جلوس آنے والا ہے اس کے گزرنے تک ٹریفک کی روانی بحال نہیں ہو سکتی ، چنانچہ ہم نے سوچا تھوڑا آگے جا کر رکشا پکڑ کر گھر پہنچتے ہیں لیکن رکشہ بک کرنے کی کوئی سبیل بھی نہ تھی۔

تقریباً آدھا گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد کوئی تیس پینتیس لوگوں کا جلوس سامنے سے برآمد ہوا جس کے لئے ایک بڑی شاہراہ پر گھنٹوں تک ٹریفک کے لئے بند کر دی گئی تھی اور سینکڑوں گاڑیوں میں ہزاروں مرد وخواتین پھنسے ہوئے تھے جن میں کتنے بیمار ہوں گے ،کتنے ضعیف اور معذور ہوں گے اور کتنوں کو ایمرجنسی ہوگی ،سوچنے کی بات یہ ہے کہ عام لوگ ان چیزوں کو مسلکی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔

خصوصاً اسلام مخالف عناصر ان معاملات کو بلا تفریق مسلک و مذہب دینی اور مذہبی لوگوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور بیانیہ بناتے ہیں کہ مذہب بلا وجہ لوگوں کو اذیت دینے اور تکلیف میں مبتلا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے مذہب کو انسانوں کی راحت اور آسانی سے کوئی سروکار نہیں ہے اس بیانیے کے ذریعے وہ لوگوں کو مذہب سے متنفر کرتے ہیں۔

مذہبی طبقے کو سوچنا ہوگا

اگر مذہبی طبقہ ان معاملات کو فرقہ اور مسلک سے بالاتر ہو کر ایک عام سماجی ایشو کے طور پر دیکھے گا تو ان کے منفی اثرات کو آسانی سے محسوس کر پائے گا اور ایسی حکمت عملی اپنانے کا کہ ان کے مذہبی رسومات بھی ادا ہوں لیکن عوام الناس کا نظام زندگی بھی درہم برہم نہ ہو اس کے لیے ایران اور سعودی عرب کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

جہاں کسی بھی مذہبی سرگرمی کی وجہ سے عام لوگوں کے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوتے ،عام شاہراہیں بند نہیں کی جاتیں ،حکومت کی طرف سے مختص کردہ مقامات پر مذہبی رسومات اور جلسے جلوس کئے جاتے ہیں ۔ اگر ہمارے ملک کےمذہبی طبقے نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس کے حل کی کوئی صورت نہیں نکالی تو کسی اور کا نہیں اہل مذہب ہی کا نقصان ہوگا ۔

کربلا کا اندوہناک سانحہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button