Character Building & TarbiyahFor MothersParenting & Tarbiyah challengesParents Guides

بچوں کی سماجی تربیت

سماجی ذہانت یا سوشل انٹیلی جنس کا مفہوم یہ ہے کہ فرد  میں یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ دوسروں سے باسانی  رابطہ قائم کرسکے۔ ان سے بات چیت کرسکے اور ان کے ساتھ بہترین انداز میں  معاملات کرسکے۔ جس فرد کو یہ معلوم ہو کہ دوسرے لوگ کس بات پر متوجہ ہوتے ہیں ؟وہ کس بات  پر ناراض ہوجاتے ہیں اورکس بات  کونظرانداز کردیتے ہیں؟ ایسے لوگ سماجی ذہانت  کے حامل ہوتے ہیں۔

سماجی ذہین  لوگ اپنی سماجی ذہانت کا نہ صرف ادراک رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ دوسرےلوگوں کے جذبات واحساسات کو بھی سمجھتے ہوئےان سے گفتگو اور معاملات کررہے ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ درست موقع پر درست بات کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اور بات کرتے ہوئے درست انداز اور درست لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ یوں اپنی بات کو موثر بناکر  وہ اپنی اس صلاحیت سے  کامیابیاں سمیٹ لیتے ہیں۔

سماجی ذہانت اور جذباتی ذہانت  کا باہمی تعلق

جذباتی ذہانت پر ہمارا آرٹیکل پہلے سے پبلش ہوچکا ہے۔(پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے) سماجی ذہانت کو پڑھنے  سے پہلے اسے پڑھنا ضروری ہے۔  کیونکہ سماجی ذہانت جذباتی ذہانت کا اگلا قدم ہے۔ جب تک جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس کی صلاحیت فرد میں نہ ہوگی اس کیلئے سماجی ذہانت یا سوشل انٹیلی جنس کی صلاحیت حاصل کرنا کا فی مشکل ہوسکتاہے۔  کیونکہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کو سپورٹ فراہم کرتی ہیں۔  اور سماجی ذہانت کیلئے جذباتی ذہانت بنیاد فراہم کرتی ہے۔

کیا انسان سماجی مخلوق ہے؟

انسان اور سماج کا چولی دامن کا رشتہ ہے۔  جب خوشی، صحت اور کامیابی کی بات کی جائے تو  آئی کیو سے زیادہ  سماجی ذہانت کی بات اہم ہوجاتی ہے۔   یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ  دوسروں سے ہمدرد ی رکھنے والے لوگوں کو بعد کی زندگی میں افسردگی، پریشانی اور اضطراب  کا امکان کم ہوتاہے۔ سماجی تعلق کی  خاصیت انسان کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے۔  اسی وجہ سے انسان کو سوشل انیمل یا سماجی مخلوق  کہاجاتاہے۔

 یعنی انسان معاشرے کے بغیر رہ  نہیں سکتا ۔ سماج انسان کی فطر ی ضرورت ہے۔ اسی فطر ی ضرورت کے پیش نظرانسان ابتداسے ہی گھر خاندان، کنبہ، برادری اور پھر معاشرہ ترتیب دیتا رہا ہے۔اسی معاشرتی انسیت کی وجہ سے سقراط نے اسے سماجی  مخلوق قراردیا تھا۔

اسلام  کی نظر میں سماجی تعلق کی اہمیت

اسلام  چونکہ  دین فطرت ہے، اور سماجی تعلق انسان کی فطری خاصیت ۔ چنانچہ اسلا م نے اپنے پیروکاروں کیلئے سماجی تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اسلام  میں اد ا کی جانے والی عبادات کا ایک مقصد سماجی تعلق کی مضبوطی بھی ہے۔ مثلا نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج میں کسی کی بھی مثال لے لیں۔ ان سب کا ابتدائی مقصد جہاں اللہ کی عبادت اور اللہ سے تعلق کی مضبوطی ہے، وہیں ان کے ثانوی مقاصد میں یہ بھی ہے کہ لوگوں  میں باہمی میل ملاپ ہو۔

لوگ ایک دوسرے کے حال احوال سے نہ صرف واقف ہوں۔ بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔آپس میں رشتہ داریاں اور دوستیاں نبھائیں۔ باہمی شیروشکر ہوکر رہیں۔ ایک دوسرے کیلئے ذاتی مفاد او ر انا کو قربان کرسکیں۔ نماز کیلئے محلے کی مسجد میں اکٹھے ہوں۔ جمعہ کیلئے علاقے کی بڑی جامع مسجدمیں اکٹھے ہوں۔ حج کیلئے پوری دنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوں۔ تاکہ ہمدردی ، ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے سے مل سکیں۔  تعلق قائم کرسکیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوسکیں۔

اس وقت دنیا میں کامیابی کیلئے سوشل انٹیلی جنس کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ سوشل انٹیلی جنس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ کتنا زیادہ گھل مل کررہ سکتاہے۔ جوشخص  لوگوں کے دکھ درد اور خوشی غمی میں جتنا زیادہ شریک ہوسکے گا۔انسانوں کے ساتھ ملنا جلنا،اٹھنا بیٹھنا اور باہمی تعامل کو پسند کرے گا، وہ اتنا ہی سوشل انٹیلی جنس کی صلاحیت سے بھرپورہوگا۔ اور زندگی کے میدان میں اتناہی زیادہ کامیاب رہے گا۔

بچوں کو سماجی ذہین بنائیے۔

اسی ضرورت کے پیش نظر بچے کی سماجی تربیت نہایت ضروری ہے۔ جو والدین خود جتنے سماجی ذہین اور انسان دوست ہوتے ہیں۔  لوگوں سے اچھے تعلقا ت کو نہ صرف اہمیت دیتے ہیں۔ بلکہ بھرپور طریقے سے اسے نبھاتے بھی  ہیں۔ ان کے بچے بھی اتنے ہی  سوشل ہوتے ہیں۔ آج کل سوشل جینئس ہوناباقاعدہ ایک اصطلاح  اور  فن بن چکاہے ۔ یہ خصوصیت آج کے انسان کی کامیابی کی ضمانت قراردی جاتی  ہے۔

 چنانچہ اپنے بچوں کو سوشل جینئس اور انسان دوست  بنانا والدین کی تربیت کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ معاشرے کا ابتدائی یونٹ گھر ہوتا ہے۔ گھر کے اندر ایک فیملی یا جوائنٹ سسٹم میں ایک سے زائد فیملیاں بھی ہوتی ہیں۔ گھرمیں والدین کے علاوہ بہن بھائی، چچا تایا، پھوپھی خالہ،بھانجے بھتیجے، کزنزاور دیگر رشتہ داربھی ہوتے ہیں۔  گھر سے باہر محلہ دار اور پڑوسی رہتے ہیں۔ ان سب سے تعلق اور ہم آہنگی قائم کرنا سوشل ہونے کی علامت ہے۔

اپنے بچوں کو سماج سے جوڑییے۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو  رشتوں کی پہچان کروائیں ۔ان کو رشتوں  کی اہمیت بتلائیں، اوربچوں سے ان رشتوں کو محسوس کروائیں۔ چھوٹے بڑے کی تمیز اور ادب آداب جو دین نے ہمیں سکھائے ہیں، وہ ہماری اقدار کا حصہ ہیں۔ بچوں کو ان کی تلقین کریں۔ اور گھر میں اس کا ماحول بنائیں۔

 گھر اور خاندان سے باہر نکل کر پڑوسی، دیگر محلہ دار پھر شہر اور پھر پور ے معاشر ے سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔ آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ تقریبا پور ی دنیا ایک معاشرہ کاروپ اختیارکر چکی ہے۔ چنانچہ اپنے معاشرے سے جڑنا اور اپنے معاشرے کے افراد سے مانوس رہنا ہر شہر ی کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی بن چکی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو سوشل بنائیں۔لوگوں سے ملنے جلنے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ان کو دوست بنانے کا موقع فراہم کریں۔ البتہ اچھے  دوستوں کے انتخاب میں ان کی ضرور مدد کریں۔ کہ دوست وہ ہونے چاہییں جو زندگی کے بڑے مقاصد میں ہمارے دست وبازو ہوں۔  نہ کہ ان میں رکاوٹ بنیں۔ اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کی ہد ایت بھی موجودہے۔ آپ ﷺ  نے فرمایا:المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل” انسان اپنے دوست کے مذہب کی پیروی کرتا ہے۔ تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی کررہا ہے۔

بچوں کے دوستوں کے بارے میں والدین محتاط رہیں۔

 اوپر کی حدیث میں واضح ہدایت موجود ہے کہ دوست دیکھ بھال کربنانے لینے چاہییں۔ معاشرے میں ہرآدمی سے ملاتوجاسکتا ہے لیکن ہر شخص کو دوست نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کے لئے یہ معیار ہونا چاہیے کہ جو شخص زندگی کے بڑے مقصد میں آپ کا ہمنوا ہوسکتا ہے۔  وہ دوست بنانے کے قابل ہے اور جو اس میں رکاوٹ بنے وہ دوست بنانے کے قابل نہیں۔

دوست آن باید کہ گیرد دست دوست

در  پریشانی  و درماندگی

اب ظاہر ہے بچوں کو اس معیار کی سمجھ تو نہیں ہوتی ۔چنانچہ والدین کو اس سلسلے میں اپنے بچوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اسی طرح رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کو فون کالز کروائیں۔ نیز لوگوں میں گھل مل کررہنے میں ان کی مدد کریں۔ اس سے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا،جوزندگی بھر انسان کی کامیابی کی بنیاد ہے۔تاہم ان تمام کاموں میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ کہیں زیادہ سوشل بننے  کے چکر میں زندگی کا اصل مقصد ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔

ظاہر ہے بچے نے اپنے والدین اور اساتذہ کی مدد سے اپنی زندگی کے کچھ اہداف اور ٹارگٹس متعین کئے ہونگے۔ زندگی کا ہر وہ کام جو انسان کو اس کے مقصد حیات، وژن اور نصب العین کی طرف بڑھارہا ہو وہ قابل ستائش ہے۔ اور ہروہ کام جو اسےزندگی کے اصل مقصد اور ہد ف تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے وہ کام حوصلہ شکنی کے قابل ہے۔

مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

تربیت کیا ہے؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button