Columns

چلو آذربائیجان چلیں

چلو آذربائیجان چلیں

شیر ولی خان اسیر

ماہ اکتوبر کے شروع میں ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر نے بونی، اپر چترال میں اپنے کلینک کے اختتام پر اذربائیجان جانے کا پروگرام بنایا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ آذربائجان اور مصر دیکھنے کا شوق بہت پہلے سے پال رکھا تھا۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران کورونا کی وبا نے ہمارے پیروں میں خوف جان کی زنجیر ڈال رکھی تھی اس لیے ہم نے باہر جانے کا خیال دل سے نکال رکھا تھا۔

بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ کے ہمراہ اپر چترال سے روانگی

25اکتوبر 2022 کی صبح سویرے بونی اپر چترال سے اپنی جہاں دیدہ گاڑی میں شریک حیات اور تین بچیوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ جاوید مستری کے ساتھ دو تین مہینے پہلے پروگرام بنا رکھا تھا کہ میری گاڑی مرمت کے لیے پشاور پہنچا دے۔ چونکہ گاڑی بہت بوڑھی ہو چکی تھی اس لیے مستری کا ساتھ ہونا بہت ضروری تھا۔

تیمر گرہ میں پڑاؤ

چترال میں ال بوستان رستوران میں اچھا سا ناشتہ کیا۔ منظم لڑکوں نے ہماری اچھی خاصی خاطر تواضع کی۔ دوپہر کا کھانا تیمرگرہ میں اپنے بہت ہی پیارے دوست اور عزیز ڈی ایس پی شافی شفا کے ساتھ طے تھا۔ سفر کا آغاز خوشگوار ہو تو سفر کا انجام بھی خوشگوار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سن رسیدہ لوگ اپنی قدیم روایت کے مطابق گھر سے نکلتے وقت اپنے گھر کے کسی پیارے کو دروازے کے باہر کھڑا کرکے اس کا چہرہ دیکھ کر گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں۔ عموماً قرآن پاک بھی سر پر رکھ کر یہ عمل کرتے ہیں جسے “موخہ نسیک” کہتے ہیں۔ اس لیے جب شفا صاحب نے فون پر دعوت طعام دی تو بخوشی قبول کیا اور اسے اپنے سفر کے لیے “موخہ نسیک” قرار دیا۔ شافی شفا ایک ایسی مرنجان و مرنج شخصیت کا نام ہے جس کی آنکھوں میں معصوم سی شرارت اور ہونٹوں پر دلآویز مسکراہٹ ہر وقت رقصاں رہتی ہے۔ برمحل اردو، فارسی اور کھوار اشعار سے محفل کو زعفران زار بناتے رہتے ہیں۔ شاعری، رقص اور گلوکاری میں طاق اور مزاح میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک قابل پولیس آفیسر بھی ہیں۔۔ گویا شافی شفا ہر فن مولا شخصیت کا نام ہے۔ ان سے ملاقات دل کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔

گاڑی کی شکستہ حالی تیز رفتاری کی اجازت نہیں دے رہی تھی اس لیے شفا بھائی کو ہمارے انتظار میں کافی وقت برباد کرنا پڑا ۔ از راہ تفنن ہمیں بتایا تھا کہ “نیلگوں کپڑوں میں ایک سفید ریش بندے کو بر سر راہ استادہ پائیں گے” میں نے کہا،” بھائی آپ کو لاکھوں کے ہجوم میں بھی شناخت کروں گا” تیمرگرہ متبادل سڑک کے بڑے چوک میں ان کو منتظر پایا۔ ہمیں اتر کر گلے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ ہماری رہنمائی میں اپنی گاڑی آگے بڑھا دی۔ تیمرگرہ میونسپل کمیٹی کے گیسٹ ہاؤس پہنچانے کے بعد ہی معانقہ کا موقع دیا۔ بہترین کھانا میزوں پر سجا پایا اور اس پر ٹوٹ پڑے کیونکہ دن کے تین بج چکے تھے اور بھوک زوروں پر تھی۔ کھانے کے ساتھ اچھا خاصا انصاف کیا۔ ڈاکٹر زہرہ ولی نے بھی ناسازی طبیعت کے باوجود اپنے مقبول ترین ماموں کی گفتگو سے محفوظ ہوتے ہوئے کھانا بھی کھایا۔ شفا صاحب حسب عادت کھانے کے دوران ہمیں انٹرٹین کرتے رہے۔ چند اشعار بلبل ولی بلبل کے سنائے اور ایک عدد مزاحیہ مکالمہ اپنے ایک سمدھی لال کا سناکر ہمیں ہنسا کر لوٹ پوٹ کیا۔ دل نہیں چاہ رہا تھا کہ ان کی محفل کو چھوڑ دیں پر کیا کریں سفر کو جاری رکھنا تھا۔
رات گئے بخیریت پشاور پہنچ گئے۔

پشاور سے بذریعہ ڈائیوو لاہور کا تکلیف دہ سفر

باکو آذربائیجان کے لیے ہماری پرواز 29 تاریخ کے دن گیارہ بجے تھی۔ ادھر پی ٹی آئی کا لانگ مارچ 28 تاریخ کو لاہور سے شروع ہو رہا تھا۔ ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ کہیں سڑکیں بند نہ ہو جائیں۔ اس لیے 27 اکتوبر کی رات بذریعہ ڈائیوو بس پشاور سے روانگی کا پروگرام بنایا۔ بس انتظامیہ کے اشتہار کے مطابق رات کی بس میں سونے کے لیے انتظام تھا۔ یعنی باقاعدہ باپردہ بسترے دکھائے گئےتھے جسے نیا اور حسب حال انتظام جان کر سیٹیں بک کرائیں اور ساڑھے گیارہ بجے رات تک گھر میں اونگھتا رہا۔ جب بس میں سوار ہوئے تو پتہ چلا کی بقول خواجہ میر درد ‘ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا” وہی سیٹیں تھیں جن پر بیٹھ کر یا تکیہ لگا کر اونگھتےجاگتے سفر کرنا تھا ،بستر کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ اپنے ملک کے ان کاروباری لوگوں کے جھوٹ کو لعنت بھیجتے ہوئے چل پڑے۔ بس کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی تھی۔ پہلے ایرفون دیا کرتے تھے تاکہ موسیقی سن سکیں یا ڈرامہ فلم وغیرہ سے دل بھلا کر سفر طے کر سکیں ۔ وہ سہولت بھی غائب تھی۔ ہمارے لوگوں کی یہ خرابی ہے کہ ہم کسی کام میں بھی معیار کو برقرار نہیں رکھتے اور جو بولتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ خوراک ہو، دوا ہو ، کپڑا ہو یا کوئی اور چیز اس کا پہلا نمونہ کبھی اس جیسا نہیں رہا۔ بحیثیت قوم ہماری ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

لاہور میں ہوٹل انتظامیہ کا دھوکا

لاہور میں ایک ہوٹل میں کمرہ بک کرایا تھا۔ صبح ساڑھے چھ بجے بس سے اتر کر ہم نے ٹیکسی پکڑی۔ متعلقہ ہوٹل کا پتہ اس کے منیجر سے فون پر پوچھ پوچھ کر جب پہنچ گئے تو پتہ چلا کہ یہ اس ہوٹل کی کوئی دوسری شاخ تھی اور جہاں وہ سہولیات نہیں تھیں جن کو دکھاتے ہوئے ہم سے پیسے وصولے تھے۔ جہاں ہمارے لیے کمرے بک تھے انہیں کسی اور کو دیے تھے اور ہمیں اس دوسری شاخ میں دھکیلا گیا تھا۔ یہاں بھی ہم وطنوں نے ہمیں دھوکہ دیا۔ چونکہ رات بس میں ہچکولے کھاتے کھاتے اتنے تھک چکے تھے کہ ہم میں مزید بحث و مباحثے اور سفر کی سکت نہیں تھی۔ اس لیے چار و ناچار یہیں ٹھہر گئے۔

لبرٹی چوک پر دھرنا شرکاء کی باقیات

سارا دن ہوٹل میں پڑے رہے کیونکہ باہر لانگ مارچ کے شرکاء کا ہجوم تھا۔ یہ ہوٹل لیبرٹی چوک کے قریب تھا جہاں سے مارچ کا آغاز ہونے جارہا تھا۔ شام چھ بجے باہر نکلے تاکہ سفر کے لیے کچھ سامان خرید سکیں۔ لیبرٹی چوک لوگوں سے تو خالی تھا البتہ ان کی پھیلائی ہوئی گندگی سے پر تھا۔ غلاظت پھیلانا گویا ہم پاکستانیوں کی عادت ثانیہ بن گیا ہے۔ ہم از روئے حدیث مبارکہ نصف ایمان سے عاری لوگ ہیں۔ کمال یہ ہے کہ ہم ان لوگوں سے بھی نفرت کرتے ہیں جو صفائی کا کام کرتے ہیں ۔

“پچاسی سو” کے جوتے

خیال تھا کہ لاہور میں کوئی آرام دہ پاپوش خریدوں جو آذربائیجانی میں پیدل گھومنے کے لیے مناسب ہوں۔ ایک بڑی دکان میں گئے۔ ایک سفید ریش بزرگ نے ہمارا استقبال کیا۔ جوتے ہمیں دکھائے۔ ہم نے ایک جوڑا پسند کیا۔ قیمت پوچھی تو بتایا “پچاسی سو”۔ ساڑھے آٹھ ہزار بولنے کے بجائے پچاسی سو بول کر ہمیں کاروباری نفسیات میں الجھا کر لوٹنے کی پہلی کوشش کی۔ جس طرح کسی چیز کی قیمت ایک ہزار لکھنے کے بجائے نو سو ننانوے لکھ کر مشتہر کرتے ہیں۔ہم نے کہا شکریہ حاجی صاحب! ہم نے آپ کو تکلیف دی۔ ہم دکان سے نکلنے لگے تو پیچھے سے آواز دی کہ” تم کتنے کے خریدو گے؟” ہم بغیر جواب دیے چلتے بنے کیونکہ یہاں بارگین کی گنجائش نہیں تھی۔ جوتوں کی قیمت زیادہ سے زیادہ دو ہزار تھی۔ میں نے بیٹی زبیدہ سرنگ سے کہا، “بیٹا! جو جوتے میرے پاس ہیں ان پر ہی گزارہ کروں گا”

لاہور سے آذر بائیجان کے لئے اڑان

اگلے دن 29 اکتوبر کو ہم علامہ اقبال انٹرنیشنل ہوائی اڈہ لاہور میں پی آئی اے کی پرواز 159 میں سوار ہوئے۔ اس سے پہلے جو بیرون ملک سفر کیا تھا وہ باہر ملکوں کے طیارے تھے جن کی سیٹیں کشادہ اور ہر نشست ٹی وی سکرین سے آراستہ تھی۔ یہاں میرے زانو سامنے والی سیٹ کے پچھلے حصے سے ٹکرانے لگے جہاں ایک نیم گنجا لاہوری برخوردار براجمان تھا۔ اس نے جہاز کے اڑتے ہی اپنی سیٹ مزید پیچھے کی طرف سرکائی تو ہماری فلائنگ کوچوں کی سیٹوں کی تنگی محسوس ہونے لگی۔ اس کے علاؤہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی آرام سے نہیں بیٹھا۔ کھبی دائیں کبھی بائیں طرف پہلو بدلتا رہا جس پر پی آئی کی فرسودہ سیٹ احتجاج کرتی رہی اور مجھے پریشان کرتی رہی۔

کسی بین الاقوامی پرواز میں ایسا غل غپاڑہ پہلی بار دیکھا

ہمارے ساتھ پنجاب کے جوان خواتین و حضرات کا ایک گروپ سوار تھا جسے شاید کوئی کمپنی گھمانے لے جا رہی تھی۔ یہ لوگ ہمارے اردگرد کی سیٹوں پر بیٹھے کم کھڑے زیادہ رہے۔ ساڑھے تین گھنٹے کے سفر کے دوران وہ سیٹیں بدلتے، چیخ چیخ کر بولتے اور قہقہوں سے آسمان سر پر اٹھاتے رہے۔ دل ہی دل میں افسوس کرتا رہا کہ ہم لوگ آخر کب مہذب بنیں گے، کب ہم میں شائستگی آئے گی کہ کم از کم اپنے اردگرد لوگوں کے آرام و آسائش کا احساس کرسکیں۔؟
ہم نے بین الاقوامی پروازوں میں اس قسم کا غل غپاڑہ پہلی دفعہ دیکھا۔ یوں سمجھیے کہ پشاور سے لاہور اور لاہور سے اذربئیجان کا سفر مجموعی طور پر تلخ تجربہ رہا۔ البتہ جہاز کے پائلیٹ کی مہارت کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اڑان بہت پرسکون رہی۔ پوری پرواز کے دوران کوئی جھٹکا ہچکولا وغیرہ محسوس نہیں ہوا۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ خیریت سے حیدر علیوف انٹرنیشنل ہوائی اڈہ باکو اتر گئے۔

باکو کا وسیع وعریض ائیرپورٹ اور خوب صورت عملہ

باکو ایرپورٹ بہت وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے البتہ امارات کے ہوائی اڈوں کی طرح چمک دمک نہیں ہے۔ جہاز اترنے کے بعد کم از کم دس منٹ تک رن وے پر رینگتا رہا تب جا کے مسافروں کو اتارنے کی جگہ پہنچا۔ جہاز گراؤنڈ کے عملے کو انتہائی مہذب پایا۔ در اصل ان کا بیشتر عملہ حسین و جمیل خواتین پر مشتمل تھا۔ ہر زمانہ صنف نازک مردوں کے مقابلے میں نرم دل اور شریف النفس واقع ہوئی ہے۔ عموماً حسن و جمال والے لوگ سلوک میں بھی حسن و خوبی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں جب تک کوئی ان کو دل نہ دے بیٹھے۔ مائیگریشن ڈسک پر تو سب کے سب خواتین تھیں۔ ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی۔

باہر نکلے تو ٹیکسی والے کو ڈاکٹر زبیدہ سِرنگ کے نام کی تختی اٹھائے منتظر پایا جسے ہمارے مالک مکان نے بھیجا تھا۔ ہم نے باکو کے شہر قدیم میں مکان کرایے پر لیا تھا۔ایر پورٹ سے باکو کا پرانا شہر جسے آذربائیجانی زبان میں ایچَری شہر (اندرونی شہر) بھی کہتے ہیں، آدھ گھنٹے کی دوری پر ہے۔ مالک مکان فواد کو سر راہ انتظار میں پایا۔ ہمیں لے جا کر گھر ہمارے حوالے کیا جو استعمال کی ہر چیز سے آراستہ تھا۔

آذر بائیجان کا جغرافیہ اور مختصر تاریخ

اس سے پہلے کہ ہم شہر کہنہ کی سیر کریں آذربائیجانی کے جغرافیہ اور مختصر تاریخ سے جانکاری ضروری ہے۔
آذربائیجانی مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے سنگھم پر واقع ہے جسے بحیرہ کیسپین اور اور سلسلہ کوہ قفقاز نے گھیرا ہوا ہے۔ اس کے مشرق میں کیسپین سمندر ، شمال میں روس کا داغستان، شمال مغرب میں جارجیا، مغرب میں جمہوریہ ترکی اور ارمینیا جب کہ جنوب میں مملکت ایران واقع ہے۔ باکو اس کا صدر مقام ہے اور سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ یہ 66 اضلاع میں منقسم ہے۔ اس کی کل ابادی ایک کروڑ اور چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ابادی کا 96 فیصد مسلمان ہیں۔ کم و بیش پچاسی فیصد شیعہ، گیارہ فیصد سنی، ڈھائی فیصد عیسائی باقی دوسرے مذہب کے لوگ ہیں۔

اٹھارہ لاکھ سالہ پہلے انسانی وجود کی نشان دہی

ماہرین آثار قدیمہ آذر بائیجان میں سترہ اٹھارہ لاکھ سال پہلے انسانی وجود کی نشاندھی کرتے ہیں۔ باکو کے جنوب مغرب میں پھتروں پر انسانوں اور جانوروں کی تراشی ہوئی تصویریں موجود ہیں جو پانج ہزار سے لے کر بیس ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہیں ۔

باقاعدہ ریاست کا قیام تین ہزار سال قبل مسیح میں ہوا

معلوم تاریخ کے مطابق آذربائیجانی میں باقاعدہ ریاست کا قیام تین ہزار سال قبل مسیح میں ہوا تھا۔ تیسری صدی عیسوی کے دوران ایرانی ساسانیوں نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں نے ان کو فتح کیا اور شامخی کو اپنا صدر مقام بنایا۔ گیارھویں صدی میں اوغوز ترکوں کے خانہ بدوشوں نے اس سرزمین میں مستقل سکونت اختیار کی۔ اس کے بعد زیادہ عرصے تک یہ ایرانیوں کے زیر نگین رہا۔ شیروان شاہ خاندان نے نویں صدی عیسوی سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک کبھی ایرانی بادشاہوں کے ماتحت اور کبھی خود مختار حیثیت میں صوبہ شیروان کے حکمران رہے۔ ایران کے شاہ اسمعیل نے اپنے نام سے ایک قصبہ بھی یہاں یادگار چھوڑا۔

ایرانیوں اور روسیوں کے قبضے سے لے کر آزادی تک کا سفر

سنہ13 -1806 کی روس ایران لڑائیوں کے بعد روسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد قفقازی فیڈریشن ٹوٹ گیا اور آذربائیجان نے 1918 میں اپنا موجودہ نام اپنایا اور آذربائیجانی ڈیموکریٹک ریپبلک بن گیا۔ محض دو سال آزاد رہنے کے بعد پھر یو ایس ایس آر میں شامل ہوگیا۔ اگست 1991 میں روسی اتحاد کے منتشر ہوتے ہی اذربائیجان حقیقی طور پر آزاد ہوگیا اور ایک ازاد سیکولر ریاست بن گیا۔ حیدر علیوف نے ایک مقبول سیاسی رہنما کے طور پر ملک کی قیادت سنبھال لی۔ جدید آذربائیجان کے قومی ہیرو بن گئے۔ اتاترک کی طرح اس کی تصویریں اور مجسمے جگہہ جگہہ استادہ ہیں۔ 1993 سے آج تک اس کی پارٹی اس کے خاندان ہی کی قیادت میں حکومت کر رہی ہے۔ اس وقت ان کا بیٹا الہام حیدر اوغلو علیوف ملک کے صدر ہیں۔ وہ مسلسل تیسری مرتبہ صدر بنے ہیں۔

اسلامی دنیا کی پہلی جمہوریت

۔آذربائیجانی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے اسلامی دنیا کی پہلی جمہوریت ہونے کا مقام اس وقت پایا تھا جب 1918 میں آزادی کا اعلان کیا تھا اور اذربئیجان ڈیموکریٹک ریپبلک کے نام سے دنیا کی تاریخ میں اپنا نام لکھوایا تھا۔

دو تہائی آبادی ترکی النسل

آذربائیجانی کی آبادی کا دو تہائی حصہ ترک نسل کا ہے۔ باقی ارمینیائی، روسی، ایرانی وغیرہ نسل کے لوگ ہیں۔ سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، ستواں ناک ، قدآور، متناسب ڈھول ڈھال، پرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔

ناقابل بیان نسوانی حسن و جمال

خواتین کے حسن و جمال کی تعریف مجھ جیسے کم مایہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ بس چوری چھپے گنہگار انکھیوں سے خالق حقیقی کی ان سدا بہار تتلیوں کو دیکھنے پر اکتفا کیا۔ ان کی ثقافت ایرانی، ترکی اور روسی ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔ ان کا روایتی لباس کچھ اور تھا لیکن روسی اور مغربی ثقافتی یلغار سے متاثر خواتین اور مردوں کا لباس پتلون قمیض پر مشتمل ہو کر رہ گیا ہے۔ گاہے گاہے لمبے کرتے والیاں ملتی ہیں۔ صفائی ستھرائی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اپنے لباس، گھروں اور محلے کو پاک صاف رکھتے ہیں۔ داڑھی اور مونچھوں سے فارع ہیں۔ گاہے گاہے مونچھوں والے ملتے ہیں۔ داڑھی کہیں بھی نظر نہیں آئی۔

صرف مرکزی جامع مسجد سے بآواز بلند اذان

شہر کی مرکزی جامع مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے باقی مساجد میں اونچی آواز میں آذان نہیں دی جاتی۔
لوگ بہت مہذب اور ملنسار ہیں۔ نرم لہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ کوئی شور شرابہ سنائی نہیں دیتا۔ اہل پاکستان کے ساتھ بہت پیار و محبت سے پیش آتے ہیں۔

آذر بائیجان میں صرف آذربائجانی زبان

مشکل صرف زبان کی ہے۔ انہوں نے اپنی آذربائیجانی کے علاؤہ کسی دوسری زبان نہ سیکھنے اور نہ بولنے کی گویا قسم کھا رکھی ہے۔ کاروباری لوگ انگریزی کے چند جملے بول پاتے ہیں۔ باقی کام اشاروں سے لیا جاتا ہے یا گوگل مترجم کی مدد لی جاتی ہے۔ یہاں کے ٹیکسی ڈرائیور ڈبل کرایہ وصول کرتے ہیں۔ بولٹ نام کی لوکل ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑیاں میٹر پر کرایہ لیتی ہیں جو مناسب ہوتا ہے۔

ننانوے فیصد شرح خواندگی

آذربائیجان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں 88 نمبر پر ہے۔ اس کی شرح خواندگی 99.8 فیصد ہے۔ خواتین اور مردوں کی شرح خواندگی تقریباً تقریباً مساوی ہے۔معاشی اور جملہ معاشرتی سرگرمیوں میں عورت مرد کے برابر کھڑی کام کر رہی ہے اور اس میں عورتوں والی ہچکچاہٹ بالکل بھی نہیں ہے۔ سرکار نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دے رکھےہیں زبان آذربائیجانی ہے جو ترکی کی شاخ ہے۔ لکھائی کے لیے رومن استعمال کرتے ہیں۔ ساری تعلیم آذربائیجانی زبان میں دی جاتی ہے۔

سیاحت دوست پالیسیاں ،تگڑی کرنسی

ملک کی معاشی شرح نمو نو فیصد سے اوپر ہے۔ اس کی معیشت کا بڑا ذریعہ زراعت ، معدنی تیل اور گیس ہیں۔ جو آذربائجان دوسرے ملکوں کو برآمد کرتا ہے۔ دنیا میں تیل صاف کرنے کا کارخانہ بھی سب سے پہلے یہاں قائم ہوا تھا۔ اس صنعت سے ملک کو بہت زیادہ زر مبادلہ ملتا ہے۔ سیاحت سے بھی آذربائیجانی کافی دولت کماتا ہے۔ ماحول کو سیاح دوست رکھا ہوا ہے جو سیاحوں کے لیے پرکشش ہے۔ ملک کا سکہ طاقتور ہے۔ ہمارے 135 روپوں میں اس کا ایک ” منت” ملتا ہے۔ باہر ملکوں میں جا کر جب پاکستانی سکے کا تبادلہ کرتے ہیں تو اپنے سکے کی زبوں حالی پر رونا آتا ہے۔

اشیائے خوردونوش ، سامان آرائش و زیبائش اور ضرورت کی تمام چیزیں ہمارے سکے کے حساب سے بہت مہنگی ہیں البتہ آذربائیجانی کرنسی میں مہنگی نہیں لگتیں۔ مثلاً گلی کوچوں میں اسٹال لگائے دکاندار آذربائیجانی ٹوپی پہننے کے لیے ایک “منت” وصول کرتے ہیں۔ گویا ہمارے 135 روپے میں۔ ایک منت میں آپ ان کی ٹوپی سر پر سجا سکتے ہیں۔ ایک گلاس لسی ایک منت میں ملتی ہے۔ اس حساب سے یہاں مہنگاہی ہمارے ملک سے دوگنی ہے۔

سیب کی 300 اقسام ہیں ،آب و ہوا چترال اور گلگت سے ملتی جلتی ہے

زرعی پیداوار میں گندم، جو، مکئ، انگور، کپاس، سیب اور سنگترے ان کی زرعی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیب کی تین سو اقسام یہاں پیدا ہوتی ہیں۔کل زمین کا پچاس فیصد قابل زراعت ہے۔ ناقابل زراعت ریگستان بھی ہیں البتہ ان میں زیادہ ریگستان اپنے اندر تیل اور گیس کی دولت رکھتے ہیں۔ اس کے پہاڑ جنگلوں سے پر ہیں۔ جنگل آباد ہوں تو جنگلی حیات بھی پنپتی ہے۔
آذربائیجانی کی آب و ہوا ہمارے گلگت بلتستان اور چترال کے قریب قریب ہے۔ سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں زیادہ گرم ہے۔ بارشیں کم ہوتی ہیں۔

ایچَری شہر، آثارِ قدیمہ کا مرکز اور قدامت کی نشانی

باکو شہر کے قدیم حصے کو ایچری شہر کہتے ہیں یعنی اندرونی شہر۔ اس میں مکان یا ہوٹل مہنگے ہیں کیونکہ آثار قدیمہ سے دل چسپی رکھنے والے سیاحوں کی دلچسپی کا تقریباً سارا سامان اس شہر کے اندر موجود ہے۔ اس لیے سیاح اس شہر میں رہائش رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس شہر کے اندر بارھویں صدی سے لے کر پندرھویں صدی کی تعمیرات محفوظ ہیں جن میں شیروان شاہوں کا محل، مسجد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میڈن ٹاور زیادہ مشہور ہیں۔ محققین کے مطابق یہ شہر بارھویں صدی میں بسایا گیا تھا جب کہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہاں تعمیرات کا آغاز چھٹی اور ساتویں صدی سے ہوا تھا۔
پرانا شہر کا بیشتر حصہ اب بھی اپنی اصلی حالت میں ہے۔ وہی عمارتیں، تنگ اور بھول بھلیوں والی گلیاں، نیچے تراشے ہوئے ایک ہی سائز کے کالے اور سفید پھتروں کا منقش فرش، ہر چیز اپنی قدامت کی گواہی دیتی ہے اور اپنے کاریگروں کی یاد تازہ کرتی ہوئی ان کی فنی مہارت کو خراج تحسین پیش پر مجبور کرتی ہے۔

تین طرفہ شہر پناہ

تین اطراف میں شہر پناہ کی اونچی دیوار ، اپنی حفاظتی برجیوں اور دروازوں کے ساتھ استادہ ہے اور دور سے دعوت نظارہ دیتی ہے۔ سمندر کی طرف شہر کی دیوار گرائی گئی ہے اور ایک کشادہ شاہراہ بنائی گئی ہے۔ اس شاہراہ اور کیسپئین سمندر کے کنارے کے ساتھ کوئی ساڑھے تین کلومیٹر لمبا خوبصورت پارک تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پارک کو زیر زمین گزرگاہوں کے ذریعے شہر سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اس پارک کو منی وینس (وینس خورد) کہتے ہیں ۔

ڈھلانوں پر آباد متنوع ثقافتوں کی قوس قزح

یہ شہر ایک قلعے کی طرح ہے جس کی وسعت مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک زیادہ سے زیادہ دس پندرہ منٹ پیدل کی ہے البتہ مکانات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس کے وسط سے گزرنے والی سڑکیں اتنی کھلی ہیں کہ دو گاڑیاں بیک وقت گزر سکیں۔ یہ شہر قدرتی طور پر ناہموار زمین بلکہ ٹیلے کے ڈھلانوں پر آباد ہے جس میں کئی چڑھائیاں اور اترائیاں ہیں۔ ہر ہر گلی، ہر عمارت کئی ثقافتوں کا رنگ پیش کرتی ہے جس میں قدیم قفقازی، عرب، ایرانی، یونانی اور روسی ثقافتوں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ شہر کے اندر گھومنے کے لیے موٹے تلوے کے بوٹ پہننا ضروری ہے ورنہ پھتر کے فرش سے رگڑتے رگڑتے پاؤں میں چھالے پڑ سکتے ہیں۔

ہماری رہائش بھی نئی شاہراہ کے قریب قدیم شہر کے وسط میں ایک تنگ گلی کے اندر پرانے مکان میں تھی۔ اس کوچہ کے اندر پانج چھ سیڑھیاں چڑھ کر مکان کے بیرونی دروازے تک رسائی ہوتی تھی۔ اس گلی کا نام آصف ذین علی کوچہسی ہے۔ ہمارے کوچے سے نکلتے ہی ایک کھلی جگہ ہے جس کے تین اطراف میں دکانیں، چائے خانے اور رہائشی مکانات کے علاؤہ ایک پرانی مسجد نمایاں ہے جس کے باہر کوئی کتبہ نظر نہیں آیا۔ یہ ایک مکعب نما عمارت ہے جس کی شمالی دیوار کے کونے میں ایک دروازہ لگا ہوا ہے۔ دروازے کے باہر صرف ایک جوڑی چپل پڑی تھی۔ دروازے کے اندر داخل ہوگیا تو مسجد کے دو اطراف چھوٹے چھوٹے حجرے پائے جو مسجد کی موٹی دیوار کے اندر بنے تھے اور جن پر چوکھٹ اور کواڑ نہیں تھے۔ دروازے کے سامنے حجرے میں دو بندے گفتگو میں مصروف تھے۔ مسجد کا نام پوچھا تو مسجد علی ع بتایا گیا۔ پتہ چلا کہ مسجد اج بھی نماز کے لیے استعمال میں ہے۔ اس کی تعمیر کا سن معلوم نہ ہوسکا۔

مسجد کے سامنے دو رویہ سڑک شاہراہ عام کی طرف کھلی ہے۔ یہاں اندر آنے والی گاڑیوں سے دو منت ٹیکس لیا جاتا ہے۔ یہاں سے مشرق کی طرف کوئی سو قدم کے فاصلے پر جامع مسجد، مسجد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میڈن ٹاور ایک دوسرے کے قریب قریب موجود ہیں۔ مینار کے ساتھ قدیم مسجد اور گرجا گھر کے کھنڈرات ہیں۔ پھر کوئی پانج سو میٹر پر شہر قدیم کے جڑواں دروازے ہیں جہاں گاڑیوں سے باقاعدہ ٹیکس لیا جاتا ہے۔ مغرب کی طرف چار پانج منٹ چل کر مغربی دروازے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ مغربی دیوار کے ساتھ سب سے اونچی جگہ پر شروان شاہوں کا محل استادہ ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں

چلتے ہو تو قطر چلو، فیفا فٹبال ورلڈ کپ 2022

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button