ColumnsUniversity

ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان کیسے چنا جائے؟

ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان کیسے چنا جائے؟

محمد حسیب

ایم فل / پی ایچ ڈی کے بہت سے طلبا کو مقالے کا عنوان چننے میں پریشانی کا شکار ہوتے دیکھا یہاں تک کہ بہت سے سپر وائزر بھی اس حوالے سے پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ اپنے طالب علموں کو کیا عنوان منتخب کرکے دیا جائے کہ وہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے معیار کا مقالہ تحریر کر سکیں۔
اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی سپر وائزر نے ایک عنوان منتخب کردیا اور طالب علم نے اسے اپنا لیا لیکن دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے مقالہ لکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اب اس بات کا ادراک کرنا کہ مقالہ نگار کی حقیقی صلاحیت کیا ہے اس کے اندر کتنی استعداد ہے اسکا مطالعہ کتنا ہے اس کے اندر لکھنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے اور اس کی دل چسپی کا موضوع کیا ہو سکتا ہے ؟
بعض اوقات طلبا دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں اب اگر ایک مقالہ ان کے سر ڈال ہی دیا گیا تو اسے کسی سے لکھوانے کی کوشش کی جائے گی۔ فری لانسر جیسے کسی فورم سے منسلک ہوکر کسی سے پیسوں کے عوض مقالہ لکھوایا جائے گا یا پھر ادھر ادھر سے مواد اکھٹا کرنے کی کوشش ہوگی بعض صاحبان کی پہنچ کافی ہوتی ہے اسلیے انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وائیوا تو نکل ہی جائے گا۔

آج کل ہزار میں سے کوئی ایک معیاری مقالہ برآمد ہوتا ہے

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ سوشل سائنسز اور پھر خاص کر اسلامیات کی فیکلٹیز میں تحقیق کا کام بہت کم ہورہا ہے اور اگر ہو بھی رہا ہے تو اسکا معیار بہر حال معیاری نہیں ہے، آجکل ایک اچھا مقالہ اپنے اندر معلومات کا انبار تو ضرور رکھتا ہے لیکن اس میں زبان و بیان کی درستی ، تحریر کی چاشنی اور استدلال کی قوت ہمیں مفقود ہوتی ہے۔ لکھے جانے والے ایک ہزار مقالوں میں سے کوئی ایک معیاری مقالہ سامنے آتا ہے۔

جب میں نے 2015 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنہ میں داخلہ لیا تو اس وقت ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی جاری تھا (اب لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی ختم کردیا گیا ہے) ایم فل میں داخلہ لینے سے پہلے بلکہ ایم اے اسلامیات سے بھی پہلے بی اے کرتے وقت ہی میرے ذہن میں وہ موضوعات واضح تھے کہ جن پر میں نے مقالہ لکھنا تھا اسی لیے مجھے موضوع کا عنوان چننے ، سائناپسس تیار کرنے اور پھر اپنے موضوع کو تحریر کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

مقالے کے حوالے سے چند بنیادی سوالات کے جوابات

اب سوال یہ ہے کہ موضوع کا عنوان کیسے چنا جائے یا پھر سپر وائزر کسی بھی ریسرچ اسکالر کو موضوع کیسے اسائن کرے ، اس کے بنیادی محرکات کیا ہوں ؟ مقالہ نگار کی دلچسپی کا تعین کیسے کیا جائے ؟
آئیے ہم ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کورس ورک کے دوران ہی آپ پر یہ بات واضح ہو جانا ضروری ہے کہ آپ کی دلچسپی کا موضوع آخر ہے کیا ؟ اس کے لئے چند بنیادی امور سرانجام دینے انتہائی ضروری ہیں۔
یاد رہے کہ وہ موضوع کہ جس پر آپ لکھنا چاہتے ہیں ضروری نہیں کہ آپ کی دلچسپی کا موضوع بھی ہو جیسے اگر کوئی کرکٹر یا ڈاکٹر یا انجینیر بننا چاہتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس میں ان تمام شعبوں کو اختیار کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔

استخارہ اور استشارہ کے بعدکرنے کے کام

ایک مقالہ نگار کی دلچسپی کا موضوع کیسے تلاش کیا جائے یا وہ یہ موضوع کیسے تلاش کرے خاص کر سوشل سائنسز یا ہیومینیٹیز کا طالب علم۔

“سب سے پہلے تو سنت کے مطابق استخارہ کیجیے اور اس کے بعد استشارہ کیجے پھر درج ذیل نکات پر عمل کرنے کی کوشش کریں”

اول ؛ اس بات کا جائزہ لیجیے کہ آپ کون سی کتب پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں زبردستی نہیں ، علمیت کو ثابت کرنے کیلئے نہیں ، درسی کتب صرف امتحانات کو پاس کرنے کیلئے نہیں بلکہ وہ کتب کہ جن کو پڑھ کر آپ کو وقت گزرنے کا پتہ نہ چلے وہ کتب کہ جو آپ کو اس موضوع پر مزید پڑھنے پر راغب کریں۔

دوم ؛ غور کیجیے کہ آپ کن موضوعات پر بے تکان بغیر کسی تیاری کے گفتگو کر سکتے ہیں وہ کون سے موضوعات ہیں کہ جن پر آپ کو بحث کرنا پسند ہے اور آپ کو ان کے حوالے سے سوچنا نہیں پڑتا۔

سوم ؛ اپنے سابقہ مطالعے کی ایک فہرست تشکیل دیجیے خاص کر درسی کتب سے ہٹ کر ، کاغذ قلم اٹھائیں اور ایک فہرست تشکیل دیں کہ کون کون سی کتب آپ کے زیر مطالعہ آچکی ہیں اور جب یہ فرست تیار ہو جائے تو دیکھئے کہ اس میں کون سے موضوعات پر مشتمل کتب کی تعداد زیادہ ہے ۔جلد بازی سے کام مت لیں اس فہرست کو انتہائی اطمینان سے سوچ سمجھ کر تشکیل دیں۔
چہارم ؛ یاد رہے مقالہ لکھ دینا کمال نہیں بلکہ ایسی تحقیق کا پیش کیا جانا کمال ہے کہ جو اس سے پہلے موجود نہ ہو ، آپ کا مقالہ ایک نیا رخ ، ایک نیا زاویہ ، ایک نیا رنگ ، ایک نئی بات اپنے اندر لئے ہوئے ہو ۔

پنجم ؛ ایسا کیجیے کہ کسی لائبریری میں تشریف لے جائیں اور دیکھیں کہ آپ کے قدم غیر اختیاری طور پر کس سیکشن کی جانب اٹھتے ہیں اور جس جانب آپ کے قدم اٹھیں سمجھ لیجیے کہ وہی آپ کی اصل جا اور آپ کا اصل میدان ہے۔

ششم ؛ سادہ کاغذ سنبھالیے اور لکھنا شروع کیجئے وہ موضوع یا وہ عنوان کہ جس پر آپ بغیر کسی تیاری کے لکھ سکتے ہیں وہی آپ کا موضوع ہے، صرف لکھنا ہی نہیں یہ بھی دیکھیے کہ کیا آپ کو اس سے متعلق حوالے آسانی سے یاد آرہے ہیں اور اگر آرہے ہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ اپنے موضوع پر ہیں۔

ہفتم ؛ سب سے آسان کسی شخصیت پر مقالہ لکھ دینا ہے کیونکہ اس کی وسعت اتنی زیادہ نہیں ہوتی اور سب سے مشکل افکار و نظریات پر تحریر کرنا ہوتا ہے۔ کوشش کیجیے کہ کوئی نیا کام کریں، مکھی پر مکھی نہ ماریں۔
ہشتم ؛ اگر آپ نے کسی عنوان کا انتخاب کر لیا ہے تو آپ کو مبارک ہو لیکن یہ صرف پہلا قدم ہے اب اس فن کے کسی ماہر سے رابطہ کیجیے ۔ضروری نہیں کہ وہ آپ کا سپر وائزر ہی ہو ، اپنی یونیوسٹی میں سوشل میڈٰیا پر کہیں بھی کوئی ایسی شخصیت مل جائے تو اسکا دامن تھام لیجیے اور اس سے سیکھنے کی کوشش کیجئے۔

نہم ؛ اگر آپ بہت ہی باصلاحیت ہیں اور آپ کے سامنے متعدد موضوعات موجود ہیں لیکن فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے تو اس موضوع کا انتخاب کریں کہ جس کی اہمیت موجودہ دور کے حوالے سے سب سے زیادہ ہو۔
دہم؛ کسی مطالعاتی دائرے کو اختیار کریں اور اگر ایسا کوئی دائرہ موجود نہیں ہے تو اسے تشکیل دیں۔ آپ کے بیج فیلوز ، مدرسے کے ساتھی یا وہ لوگ جو مطالعے میں آپ کے معاون بن سکیں اس دائرے کا حصہ بن سکتے ہیں۔
یاد رہے ریسرچ اسکالر کہلوانا اچھی بات ہے لیکن درحقیقت ایک ریسرچ اسکالر بننا اور حقیقی ریسرچ کرنا ہی اصل کام ہے ، امید ہے کہ پیش کردہ معروضات طلباء کےلئے مفید ثابت ہوں گی۔

یہ بھی پڑھئیے:

دینی اور دنیوی تعلیم میں تفریق

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button