ColumnsEmotions & Behavior

مزاج ، مائنڈ سیٹ اور یقین کا کامیابی میں کردار

مزاج، طبیعت ، مائنڈ سیٹ اور یقین کا کامیابی میں کردار

سید عرفان احمد

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہی میکانیزم عرف عام میں “مزاج” یا ” مائنڈ سیٹ” کہلاتا ہے ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض لوگ جو کامیاب ہوتے ہیں وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں کامیابی پاتے ہیں۔ یا مسلسل آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ یوں ان کی  طبیعت، مزاج یا مائنڈ سیٹ کی وجہ سے وہ جو کچھ کرتے ہیں مزید کرتے رہنے سے وہی عمل یا کام یا طریقہ کار ان کے لاشعور میں مزید گہرائی کے ساتھ پیوست ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کامیاب لوگ اپنی طبیعت مزاج اور مائنڈ کی وجہ سے کامیاب ہوتے جاتے ہیں تو ناکام لوگ ناکام ہوتے رہتے ہیں۔ دولت مند مزید امیر ہوتا جاتا ہے۔ تو غریب اپنےمزاج، طبیعت اور مائنڈ سیٹ کی وجہ سےمزید غربت میں پھنستا چلا جاتا ہے۔

یہاں سے آپ کو یہ بات بھی سمجھ آ سکتی ہے کہ خوف ، ناکامی ، الجھن، مایوسی ، کرب ،ناخوشی ہو یاجرات۔ اعتماد ، کامیابی ، اظمینان ، امید، سرشاری، خوشی.. سبھی کا بیج لا شعور میں بویا گیا ہوتا ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ہر جذباتی کیفیت کی جڑیں لاشعور  میں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں ۔

اس لئے خاص کر منفی جذبات کا معاملہ جہاں تک ہے۔ آپ کو ان کے بارے میں بہت ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آپ کے لاشعور میں جو شے پیوست ہوگئ۔ دوسرے لفظوں میں جو آپ کا مزاج بنا طبیعت بن گئی یا مائنڈ کا حصہ بن گیا۔ ویسے ہی خیالات کا ڈھب آپ کے ذہن میں بنے گا۔ اور اسی کے مطابق آپ کا عمل پروان چڑھے گا۔ یوں ظاہر کی دنیا میں نتیجہ بھی ویسا ہی ہوگا۔

شخصیت کی جڑ کیا ہے

اس لیے زندگی کے نتائج کو بدلنے کے لیے اپنے لاشعور کی موجودہ پروگرامنگ یا مزاج وطبیعت کو بدلنا سب سے پہلا قدم ہے ۔ جو لوگ باہر کی دنیا کو بدلنے کے لیے باہر کی دنیا کے مختلف عوامل (مثلاً قانون ،مقام ،نظام وغیرہ ) کو بدلنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی اپنی زندگی میں پائیدار تبدیلی لانے کے قابل نہیں ہو پاتے۔

کیونکہ باہر کی دنیا کے عوامل تو درخت کے پھل اور پھول ہیں ۔جب تک جڑیں صحت مند نہیں ہوں گی اس درخت درخت کے پھول اور پھل کبھی اچھے نہیں ہوں گے۔ لہذا حقیقی اور پائیدار تبدیلی کے لئے سب سے پہلے اپنی شخصیت کی جڑ یعنی لاشعور پر کام کرنا اور اس کے لیے لاشعور کی پروگرامنگ کو درست کرنا لازمی ہے۔

واہمہ کی حقیقت

انسانی لاشعور اور مزاج پر ہونے والی عشروں کی قدیم و جدید تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسانی لاشعور کو جو معلومات بھی وصول ہوتی ہیں وہ من و عن ان معلومات کو بے چون و چرا کسی تجزیے اور توجیہ کے بغیر تسلیم کر لیتا ہے ۔چنانچہ لاشعور کے لیے یہ بحث لا حاصل ہے۔ کہ اسے جو حقائق یا معلومات فراہم اہم کیے گئےہیں وہ عقلی اور منطقی ہیں یا نہیں۔

اسے اس سے بھی غرض نہیں کہ کوئی معلومات کتنی حقیقت پرمبنی یا ٹھوس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے تئیں ایسی چیزوں پر یقین کر بیٹھے اور عملی زندگی میں ان یقینوں پر دھڑلے سے عمل کرتے ہیں۔ جو بظاہر بہت ہی مضحکہ خیز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کھلاڑیوں اور پیشہ وروں کو ذہنی مقابلے سے پہلے ہی ذہنی ریہرسل یا ہپناسس کرایا جاتا ہے تاکہ وہ حقیقی مقابلے سے پہلے ہی خود کو اس کے لئے ذہنی طور پر تیار کرلیں ۔

ہپناسس کے دوران کلائنٹ کو ہاتھ برف پر جمتا کیوں محسوس ہوتا ہے ؟

مثال کے طور پر ہپناسس کے دوران اگر کلائنٹ کو یہ تصور کرایا جائےکہ اس کا ہاتھ برف پر رکھ دیا گیا ہے۔ جبکہ اس کا ہاتھ حقیقتا کرسی کے ہتھے ہی پر ہو۔ تو اس کو اپنا ہاتھ برف پر جمتا ہوا محسوس ہونے لگے گا۔ ہپناسس کے دوران وہ ہپناٹک کیفیت شدت کے ساتھ پیدا کردی جاتی ہے جو کلائنٹ کے لاشعور کو تصور ہی تصور میں بہت کچھ تجربہ کرنے کے قابل کر دیتی ہے ۔حالانکہ اصل کلائنٹ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا۔

اس کی عام مثال خواب ہے ۔ خواب میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ہمارے جسم پر حقیقتا آ بیتتا ہے۔ مثلا رات کو سوتے میں اگر آپ نے ڈراؤنا خواب دیکھا ہے تو آپ کا پورا بدن کانپنے لگے گا اور آپ پسینے سے شرابور ہو جائیں گے ۔آپ نے چھوٹے بچوں کو خواب میں مسکراتے دیکھا ہوگا ان کے ساتھ بھی اس لمحے لاشعوری طور پر کچھ مثبت اور خوش کن تجربہ جاری ہوتا ہے۔

یقین ۔ ایک لاشعوری قوت

مزاج اور مائنڈ سیٹ کے بعد انسانی زندگی میں جن چند عوامل کا سب سے اہم اور گہرا کردار ہے ان میں سرفہرست یقین ہے۔ یقین وہ خیال ہے جو آدمی کسی معاملے یا شے کے بارے میں رکھتا ہے اور اسی کو حقیقت گردانتا ہے۔ یقین سراسر ایک لاشعوری عمل ہے ۔ اوپر ہم نے جو برف اور خواب کی مثال دی وہ دراصل اس وقت کلائنٹ کا یقین ہی ہوتا ہے اور اس کا لاشعور یہ یقین کرتا ہے کہ اس کے ساتھ ایسا ہےتو اس کا پورا بدن اس کے مطابق رد عمل کرتا ہے ۔

کامیابی اور ناکامی کا یقین سے کتنا تعلق ہے ؟

تحقیقات بتاتی ہیں کہ ایک فرد کی کامیابی اور ناکامی کا براہ راست تعلق اس کے یقین سے ہے۔ تعمیری یقین آدمی کی زندگی کی تعمیر کرتا ہے تو تخریبی اور منفی یقین آدمی کی زندگی میں تخریب کاری کے مترادف ہے ۔ہر معاملے میں آدمی کا یقین مختلف ہوتا ہے ۔ لہذا یہ عین ممکن ہے کہ ایک معاملے میں ایک آدمی کا یقین مثبت ہو اور دوسرے معاملے میں منفی۔

چنانچہ آدمی کو اپنے یقینوں کے بارے میں بہت محتاط ہونا چاہیے ۔ انسانی زندگی میں یقین کی انتہائی اہمیت ہے اور  اس پر بہت زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔ مائنڈ تھیراپیسٹ کے علاوہ اب سیلف ڈویلپمنٹ کے ماہرین بھی اس پر بہت کام کر رہے ہیں بلکہ اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں ۔ رو بہ رو کوچنگ کے دوران کلائنٹ کے یقین پر خاصا کام کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اس کا مسئلہ آیا اس کے کسی منفی یقین کے باعث تو پیدا نہیں ہوا ۔

شعور کا تحفظ

جونکہ لاشعور کسی توجیہ یا تجزیہ کے قابل نہیں ہوتا ،اس لیے اسے شعور کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اور ذہن چوکیدار اور گیٹ کیپر کے طور پر کام کرتا ہے کہ آنے والی معلومات کا تجزیہ کرتا ہے اور جائزہ لیتا ہے کہ آیا یہ معلومات متعلقہ فرد کے لئے مجموعی طور پر مفید ہیں یا نہیں ہیں ۔

اگر کوئی پیغام لا شعور کے لئے نا مناسب ہو تو شعور ایسے پیغام کو مسترد کر دیتا ہے اور پھر لاشعور اس پیغام یا معلومات کو کبھی تسلیم کرتا ہے اور نہ اسے محفوظ کرتا ہے۔ تاہم یہ معاملہ ہمیشہ فرد کے لیے یکساں فائدہ رساں نہیں ہوتا بلکہ اکثر شعور کا یہ عمل یا تحفظ آدمی کی بڑھوتری اور فائدے کے خلاف بھی جاتا ہے ۔

کیوں؟ اس لئے کہ شعور وہی پیغام یا معلومات آگے جانے کی اجازت دیتا ہے جس سے متعلق معلومات پہلے سے اس میں محفوظ ہوتی ہیں۔ گویا جیسی معلومات کا اندراج شعور کے دفتر میں ہوگا وہی معلومات شعور آگے لاشعور تک جانے کی اجازت دے گا ۔

منفی سوچ کا سب سے خطرناک پہلو

یہ معاملہ بہت ہی خطرناک ہے ۔ مثال کے طور پر اگر آدمی منفی اور مخرب ماحول میں پروان چڑھا ہے۔ تو اس کے خیالات اور مزاج بھی ایسا ہی ہوگا۔ ایسے شخص کا شعور منفی اور تخریبی معلومات و پیغامات وصول کرکے اپنے لاشعور تک پہنچنے کی اجازت دے گا۔ یوں مثبت اور تعمیری پیغامات کا لاشعور تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہوگا ۔

فرض کیجئے ایک آدمی کا یقین ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو اس کے لیے ایسے خیالات کا حصول نہایت مشکل ہوگا کہ جو اسے کامیاب کرنے والے ہوں ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ کامیابی میں رکاوٹ بننے والی اقدار اور عادات اختیار کرے گا اور یوں کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔

اس کے برخلاف جو آدمی مثبت مزاج، مائنڈ سیٹ اور کشادہ سوچ رکھتا ہے وہ زندگی کے تجربات کو مختلف پہلوؤں سے سمجھے گا اور اسے کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لئے بہت کم تگ و دو کرنی پڑے گی۔

برسبیل تذکرہ بناتے چلیں کہ انسان کا یقین اس کی اندرونی اوربیرونی ابلاغ کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس لئے پہلے اپنی ہم کلامی پر توجہ دیں ۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنی گفت گو میں آپ جو الفاظ استعمال کرتے ہیں ان پر توجہ کیجئے آپ اپنے اندر چھپے یقینوں کے بارے میں جان سکیں گے۔ ایسے ہی دوسروں کی گفت گو پر توجہ کر کے آپ دوسرے کے یقین پڑھ سکتے ہیں۔

مزاج، مائنڈسیٹ اور یقین

یہ بھی پڑھئیے

شعور اور لاشعور ، ایک سکے کے دو رخ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button