Education Mazameen

موجودہ دور میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت

 فہمیدہ ویانی۔ 

موجودہ صدی تیزرفتارترین صدی ہے،جس میں چیزیں واقعات اور حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ جہاں سب کچھ سالوں ،مہینوں اور دنوں میں تبدیل ہوتا تھا ۔وہاں گھنٹوں،منٹوں اور سکینڈوں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ ہم ہر لمحہ بدلتی ہوئی اس دنیا کے باسی ہیں۔اس لئے موجودہ صدی یعنی اکیسویں صدی کو اگر تبدیلیوں کی صدی کہا جاۓ تو مبالغہ نہ ہو گا۔

دو عالمگیر جنگوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نےجہاں معاشی،معاشرتی،تعلیمی،سیاسی،اور مذہبی اقدار بدل کر رکھ دیں۔ وہیں کل تک جو چیزیں اور کام غیر ضروری تھے اب بے انتہا اہم ہوگئے ہیں۔ اور بہت سی ایسی چیزیں اور ضرورتیں جو کل تک سماج کے کینوس پر بہت اہمیت رکھتی تھیں،وہ  یکسر بے وقعت ہوغائب ہو گئیں۔زیادہ تر حالات دوسری جنگ عظیم کے بعد تبدیل ہوۓ ،جب سیاسی لحاظ سے دنیا دوبڑے بلاکوں سرمایہ دارانہ نظام اورکمیونزم میں تقسیم ہو گئی تھی۔

جب کہ اسلام کا سورج خلافتِ عثما نیہ کی شکست کے بعد پسِ پردہ چلا گیا۔مسلمان اگرچہ  وقت گزرنے کے ساتھ جسمانی غلامی کے بوجھ سے تو آزاد ہو گئے لیکن ذہنی غلامی نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔اس وقت جب کہ روس کے حِصے بخرے ہونے اور امریکہ کی افغانستان میں شکست کے بعد طاقت کا مرکز تبدیل ہورہا ہے، لیکن عملاً ساری دنیا تہذیبی کشمکش کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے –

مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

  تہذیبوں کا مقابلہ

  یہ نئی جنگ دراصل کیا ےٖ؟    ”ذہنی غلبہ“ جس کو( ہا ئبرڈ وار) یا (ففتھ جنریشن وار) بھی کہا جاتا ےٖ ۔

       اس کا مقابلہ تہذیب بمقابلہ تہذیب ہی سے ممکن ہے۔ اور تہذیب کی حفاظت صرف اورصرف تعلیم ہی کام کر سکتی ہے۔ اسلئے موجودہ دور میں تعلیم کی اہمیت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی  ہے۔ کیوں کہ تعلیم صرف ذہن سازی ہی نھیں کرتی بلکہ آپکی تہذیب اور کلچر کی بھی محافظ ہے۔اس لئے تہذیبی غلبہ  تعلیم   کو عام کرکے ہی ممکن ہے۔ موجودہ دور میں وہی تہذیب اپنی بنیادوں پر قائم رہ سکتی ہے جس کا تعلیمی نظام بہت مضبوط ہو۔

چوں کہ علم انبیأ کی میراث ہے اس لئے ہمیں اپنی تعلیمی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے ہوۓ  نہ صرف انبیأ کا وارث بننا ہوگا  ۔بلکہ غالب تہذیب کے مقابل اسلامی تہذیب کو   فروغ دینے کے لئے علم کوبطور ہتھیاراپنانا ہوگا  ۔ جب ہی ہم ایک تہذیبِ یافتہ اور ترقی یافتہ قوم کے طور پر اُبھر سکتے ہیں۔

                                     فتنۂ لادینیت اور اسلام

 سائنس جو کچھ ظاہر ہے بس اُسی کو تسلیم کرتی ہے۔ جب کہ اسلام سراسر علم الغیب پر قائم  ہے۔ اس لئے فتنۂ لا دینیت کے مقابلے میں علم  سے واقفیت ضروری ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے فتنۂ سے بچنے کا پوچھا  گیا ”ما مخرج“؟

آپ نے فرمایا قرآن یعنی علم۔ موجودہ دور فتنوں کا دور ہے۔ ہر پل ایک نئی خبر اور ایک نیا فتنہ وقوع پذیر ہورہاہے۔ جس کا مقابلہ واقفیت کے بغیر ممکن نھیں۔  جبکہ علم کا مطلب ہی دراصل جاننا اور واقفیت حاصل کرنا ہے۔ چنانچہ فتنوں سے بچنے کے لئے تعلیم کی ضرورت  و اھمیت سے انکار نھیں کیا جا سکتا۔

فی زمانہ تعلیمی اداروں کے اندر لا دینیت کا بڑھتا ہوا رحجان دراصل تعلیمی اداروں کےاندرغیر نظریا تی   تعلیم کو فروغ دے کر ہی ممکن ہوا ہے۔ جب تعلیمی اداروں کےاندر ہیلو وین ، ویلینٹائن ڈے،ایسٹراور ان جیسے تہوار  منائے جائیں گے جو کہ فتنۂ لا دینیت کے فروغ  کے  لۓ خوبصورت نعروں اور نامو ں کے ساتھ  وہ شوگر کوٹڈ گولیاں کھلارہی ہیں۔  جن کا ہدف ہماری نئی نسل اور  ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں لہذا ان مسائل کے سدِباب کے لئے دورِ حاضر میں درست سمت دینے والی دین اسلام کے اصولوں پر مبنی تعلیم کی ضرورت و اہمیت پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔

اسلام میں علم کی اہمیت

    علم معرفت دیتا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والےسے ہی نہیں جوڑتا ، بلکہ اس کائنات کے اندر انسان کے کردار کا تعین بھی کرتا ہے۔ کہ اس کائنات کی اُٹھان ہی اللّٰہ ربُّ العزت نے تمام رائج الوقت علوم پر رکھی ہے۔ بس غوروفکر کی ضرورت ہے۔

قرآن میں اللّٰہ پاک فرماتے ہیں۔

” ہم نے یہ کائنات تمھارے لئے مسخرے کر دی ہے “۔(القرآن )    تسخیر کا یہ عمل جانے بغیر مکمل ہو ہی نھیں سکتا اور جاننے کا بہترین ذریعہ صرف اور صرف قرآن ہی ہے۔ آپٌ قرآن کی عملی تفسیر تھے۔

اللّٰہ کے نبیٌ نے فرمایا ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے“۔ (ابنِ ماجہ)

    نبیٌ کے چار کام تھے۔

آیات قرآنیہ کی تلاوت کرکے لوگوں سنائے۔

کتاب کا علم پہنچاےُ۔

حکمت کی تعلیم دے

 اورلوگوں کا تزکیہ کرے۔

ان   چاروں کاموں کا ماخذ علم الغیب ہی ہے ۔

یہ بھی پڑھئیے: اولاد کی تعلیم وتربیت دینی فریضہ بھی اور ذخیرہ آخرت بھی

  قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار

تاریخ پرنظر ڈالیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ قوموں  کے با شعور ہونے میں ہی ان کی ترقی کا راز پوشیدہ تھا۔اُن ہی قو موں  نے دنیا پرفرمانرائی کی جنکی تہذیب اعلیٰ تھی اور یہ اعلیٰ تہذیب علم  ہی کی مرہونِ مِنت تھی ۔

آج سے صدیوں پہلے جن قوموں نے ترقی کی اور دنیا کی رہنمائی و امامت کا فریضۂ سر انجام دیا ۔ان کی کامیابی و سرخروئی میں تعلیم سے محبت کا راز پوشیدہ تھا اور یہی ان کی کامیابی کی کُنجی تھی۔

آج کے دور میں دنیا کے اندر آپ کے کردار کے تعیّن اور آپ کے مقام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے تعلیم کی اہمیت و ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی یافتہ ریاستیں ہیں وہاں تعلیم کا تناسب سو فیصد ہے اور یہی ان کی کامیابی و ترقی  کا  راز ہے۔
پہلی تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوۓ قائدِاعظم نے فرمایا تھا  کہ”  ہمیں ٹھوس تعلیم کے ذریعے  عزت نفس ، دیانتداری،احساس فرض،اور خدمتِ قوم کا جذبۂ پیدا کرنا چاہیے۔“

   تعلیمی نظام کا تکون

کسی بھی تعلیمی نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے تین بنیادی چیزوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔(۱) اسأتذہ(۲) طلبأ (۳) تعلیمی ادارے۔

اسأتذہ

کسی بھی تعلیمی نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اسأتذہ کی اہمیت سے انکار نھیں کیا جا سکتا ۔ایک استاد ہی نسلوں کی آبیاری  کرتا ہے۔ دورِ حاضرمیں تعلیم کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہوۓ استاد کے کردار کو نظر انداز نھیں کیا جا سکتا۔

ایک استاد ہی طلبأ میں آگے بڑھنے کی جستجو اور اس پر یقین کو اُ بھارتاہے۔ کہ علم کا حصول شوقِ جستجو اور اپنی بنیادوں سے منسلک رہ کر ہی ممکن ےٖ۔ آج کی بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنا اور انھیں کے ساتھ رہتے ہوۓ اپنی اصل کے ساتھ علم کو جوڑ کر آگے بڑھانا ہی دراصل استاد کی صلاحیت کا امتحان ہے۔

تعلیمی ادارے

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں  پہلی یونیورسٹی جو قائم ہوئی۔ وہ ادارہ تھا جو اللّٰہ کے نبی نے مدینہ کے اندر رہتے ہوۓ مسجد نبوی ﷺ میں قائم کیا ۔جو اصحابِ صُفہ کے نام سے معروف ہے۔ اس لئے علم  کےحصول کے لئے تعلیمی ادروں کی اہمیت سے انکار نھیں کیا جا سکتا ۔یہ آپ کی وسعت نظر تھی کہ یہی ادارہ آگے جا کر دنیا میں اسلام کی اشاعت کا ذریعہ بنا ۔

تاریخ  شاہد ہے کہ مسلمان جب تک ترویجِ علم اور اشاعتِ دین سے وابستہ رہے، دنیا پر حکمرانی کی ۔لیکن جہاں علم سے تعلق کمزور ہوا وہاں غیر قومیں ان پر غالب آتی  چلی گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب ۱۰فروری ۱۲۵۸ء کو عباسی خلیفہ معتصم باللّٰہ نے چینگیز خان کے پوتے ہلاکو کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ تو لاکھوں کتابیں آگ کی نظر ہو گئیں ۔اسی طرح سقوطِ بغداد کے وقت دریاۓِ فرات کتابوں کے بہہ جانے کے باعث رُک گیا تھا۔حالاں کہ یہی وہ ادارے تھے جہاں دنیا بھر سے علم کے پیاسے  جمع ہوتے اور علم حاصل کرتے تھے۔ جیسے آج مسلمان حصولِ علم کے لئیے یورپ و امریکہ کا رُخ کرتے ہیں۔ نتیجتاً علم ہی نھیں آیا ان کی تہذیب بھی ساتھ آ گئی جس نے ہماری  بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

         طلبأ

تعلیمی نظام کی تشکیل میں جہاں اسأتذہ کی اہمیت ہے، وہیں طلبأ کو نظر انداز نھیں کیا جا سکتا ۔طلبأ کسی بھی معاشرے  کا انتہائی اہم اور حساس طبقہ ہوتے ہیں ۔چوں کہ آج کا دور پچھلے دور کی نسبت تیز ترین دور ہے۔ اس لئے اب طلبأ کے رول ماڈل ان کے والدین اور اسأتذہ نھیں رہے۔ بلکہ تخیلاتی رول ماڈلز ان پر اثرانداز ہوتے جارہے ہیں، جن کے ذریعے انکواُبھارا جاتا ہے۔ کہ اپنا تانا بانا خود بُنے۔

              اب آپ کی اولاد کی تربیت نہ آپ نہ وہ استاد کرتا ہے۔ جس کے حوالے آپ نے انھیں چھوڑا ہوا ہے۔ بلکہ اب  جدید دنیا کے تخلیق کار آپ کی اولاد کی تربیت کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کے ذہنوں کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں ۔ چنانچہ آج ہم حربی جنگ کی بجائے بیانئے کی جنگ سے دوچار ہیں۔

  پاکستان کے لئے  ایک ناکام ریاست کی اصطلاح اسی بیانئے کی جنگ کا حصہ ہے۔  جس میں پاکستانی معاشرے کی اچھائیوں کی بجائے بُرائیوں کو اُچھالا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ مایوسی اور فرسٹریشن کی شکل میں ظاہر ہوا ۔اسی مایوسی اور فرسٹریشن کا مقابلہ تعلیم کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ اس لئیے آج کے دور میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت پہلے سے دو چند ہو گئی ےٖ ۔ پاکستان کی پہلی تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیرِ تعلیم فضل الرحٰمن جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا کہا کہ

میں تعلیم کے روحانی عنصر کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ کیوں کہ اسے نظر انداز کرنے کے نتائج بڑے مہلک ہوتے ہیں ۔دو عالمگیر جنگوں کے تجربے اور تکنیکی ایجادات نے ہمیں یہ سبق سکھا دیا ہے۔کہ اگر انسان سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی ترقی نہ کر سکے تو انسانیت کی فنا یقینی ےٖ ۔انسان کے ذہن سے وحشی پن دور کرنے کے لئے اور اُسے اعلیٰ مقاصد کی طرف راغب کرنے کے لئے بس تعلیم ہی ایک ذریعہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دینی اور دنیوی تعلیم میں تفریق

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button