مسلم دنیا

اتحاد امت کی ضرورت اور دائرہ کار

امت کا لفظ “ام” سے نکلا ہے، جس کے لغوی معنی ماں، اصل ، بنیاد کے ہیں۔ امت لغت میں جماعت ، طریقہ کار اور آدمیوں کے گروہ کو بھی کہتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر لوگوں کی ایسی جماعت پر لفظ امت کا اطلاق کیا جاتاہے ، جو زبان، رنگ ونسل اور علاقائیت سے بالاتر ہوکربلند خدائی نصب العین پر مجتمع ہو۔

اسی مفہوم کے مطابق دنیا میں تشریف لانے والے انبیاعلیہم السلام کے پیروکاروں کو امت بولاگیا ہے۔کیونکہ وہ بھی زبان ، رنگ ونسل او ر علاقائیت سے بالاترہو کر اپنے بنی کے فرمان کے مطابق خدائی نصب العین پر جمع ہوگئے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا:   ولکل امۃ جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ علیہ۔  (سورۃ الحج:25)

اور ہم نے ہر امت کیلئے قربانی مقررکردی تاکہ چوپایوں کی قربانی پروہ  اللہ کا نام لے لیں۔

اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے پیروکار اور امتیوں کو خاص طور پر بہترین امت  او رمعتدل امت کا لقب دیا گیا ۔فرمایا: وکذالک جعلناکم امۃ وسطا(البقرہ) اور اسی طرح ہم نے تم کو معتدل امت بنادیا۔

کنتم خیرامۃ اخرجت للناس (آل عمران) تم بہترین امت ہو لوگوں کے فائدے کیلئے نکالے گئے ہو۔

امت کی دوقسمیں

نبی کریم ﷺ کی امت کی دوقسمیں ہیں۔امت دعوت اور امت اجابت

امت دعوت سے مراد دنیا کے وہ تمام لوگ اور عوام الناس ہیں جو آپ ﷺ کی دعوت کے مخاطبین ہیں۔ چونکہ آپ کا پیغام آفاقی ہے اور دنیا کا ہرفرد  آپ کے پیغام کا مخاطب ہے۔ اس معنی میں دنیا کا ہرفرد چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ آپ ﷺ کا امتی اور آپ کی دعوت وتبلیغ کا مخاطب ہے لیکن یہ سب امت دعوت ہیں۔

دوسرے نمبر پر امت اجابت ہے۔ اس سے امت مسلمہ مراد ہے یعنی وہ لوگ آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہہ کر آپ پر ایمان لائے۔ اب جب بھی امت کی بات کی جائے تو اس سے مراد امت اجابت ہی  ہوگی۔ یعنی اسلام کو قبول کرنے والے لوگ۔

اتحاد امت کا مفہوم۔

جب ہم اتحاد امت  کی بات کریں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی آخرالزمانﷺ کے ختم نبوت پر ایمان لانے والے افراد آپس میں اتحاد، باہمی تعلق اور بھائی چارگی کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارسکیں۔ نبی آخرالزمان کے ختم نبوت پر ایمان لانے کے بعد  دنیا کی چھوٹی چھوٹی ترجیحات  اور ذاتی مفادات ان کے اتحاد کے سامنے رکاوٹ نہ بن سکیں۔

ورنہ نقصان یہ ہوگا کہ خود کو امت مسلمہ قرار دینے کے بعد دنیا کی دیگر قوموں سے ہم نے خود کو الگ کرہی لیا ۔ اس کے بعد آپس میں بھی عدم اتفاق اور اختلاف ونزاع  سے ہمارے وسائل مجتمع نہیں ہوپائیں گے ۔ جس وہ  ضائع ہوجائیں گے اور مسلم امہ کی دنیوی طاقت کمزور ہوتی چلی جائے گی۔

اتحاد امت کی ضرورت

اتحاد واتفاق ایسا عمل ہے، جس کے عمدہ ہونے میں کسی ذی شعورانسان کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اور بے اتفاقی یا اختلاف ونزاع وہ قبیح فعل ہے جس کی برائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز بھی باہمی اتحاد واتفاق سے جڑاہوا ہے۔ جبکہ ان کی ناکامی کے پیچھے باہمی چپقلش، اختلاف ونزاع اور لڑائی جھگڑوں کا کردار رہا ہے۔

اللہ رب العزت نے مسلمانوں میں اتفاق واتحاد کو قائم رکھنے اور اختلاف ونزاع سے بچنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا (آل عمران) اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا مت کرو۔

اس آیت میں حبل اللہ ، اللہ کی رسی سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی قرآن کریم کو مضبوط پکڑو اور اپنی زندگی کو اسی کے مطابق ڈھالو۔  جب انسان قرآن کریم کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے اس کی فکرونظر میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ وسعت ظرفی ہی ہوتی ہے جو اختلاف ونزاع کو روک لیتی ہے۔

اتحاد امت کا دائرہ کار

اتحاد امت سے مراد یہ ہے کہ عالم اسلام کے تمام ممالک مل کر ایک ایسا مسلم بلاک تشکیل دیں جس کا اولین مقصد مسلم امہ میں اتحاد قائم کرنا ہو۔ اس بلاک کا مقصد مسلم امہ میں باہمی تعاون کو فروغ دینا، اسلامی بھائی چارہ قائم کرنا، باہمی تجارت ولین دین کو فروغ دینا، بوقت ضرورت ایک دوسرے کا تحفظ کرنا  ہو۔ جس طرح نیٹو کا پلیٹ فارم یورپی ممالک نے اپنے تحفظ کیلئے  تشکیل دیا ہے کہ  کسی ایک نیٹو ملک پر حملہ سارے نیٹو ممالک پر حملہ تصور ہوگا۔

اسی طرح مسلم امہ بلاک تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ جس کا ایک مقصد یہ ہو کہ اس بلاک کے کسی ایک ملک پر حملہ تمام بلاک ممبران پر حملہ تصور ہوگا۔ اس اتحاد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی کو باہر سے ان ممالک پر حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔

ورنہ بدقسمتی سے صورت حال یہ ہے کہ عالمی استعمار عالم اسلام کے ممالک کو ایک ایک کرکے مختلف بہانے بناکر اپنا نشانہ بناتارہتا ہے۔ کبھی عراق پر حملہ کرکے اسے نیست ونابود کردیتا ہے اور اس کے تمام قدرتی وسائل پر قبضہ کر کے   اپنا ملک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تو کبھی افغانستان، شام اور یمن پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ اس لئے آسانی سے ہورہا ہے کہ مسلم امہ کے پاس  اس جیسی صورت حال کی روک تھام کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے۔

مسلم امہ اسی عدم اتفاق  اور باہمی نزاع کی وجہ سے عالمی استعمار کیلئے آسان ہدف اور ترنوالہ بناہوا ہے۔ لہذ اہمیں جتنی جلد ممکن ہوسکے عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا پڑے گا۔

تحفظ ناموس رسالت

مسلم امہ کے اس بلاک کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں اپنے نبی کی عزت پر آنچ نہ آنے دیا جائے۔ اگر مسلم امہ کا ایک ایسا بلاک وجود میں آتاہے تو امید ہے کہ یہ بلاک ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے ایک گارنٹی تصور ہوگا۔ یعنی دنیا میں کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔ اگر کہیں خدانخواستہ کسی نے ایسی نازیبا حرکت کی تو بڑے آسان او رموثر طریقے سے اسے شٹ اپ کال دی جاسکتی ہے۔

نیز اس وقت مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ اسلاموفوبیا بناہوا ہے۔ مسلم آبادی اس وقت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے لیکن ان کے پاس موثر پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ہرکس وناکس اسلام کے خلاف بولتا ہوا فخر محسوس کرتاہے۔  لیکن بدقسمتی سے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔  اس سے اسلام فوبیا کے رجحان کو تقویت ملتی ہے۔ اب مسلم لیڈرز یونائیٹڈ نیشنز میں جاکر جتنی مرضی تقریریں کریں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسلئے کہ ان کےپا س اس کی روک تھام کیلئے کوئی موثر پلیٹ موجود ہی نہیں۔

مسلم امہ بلاک کا بڑافائدہ عالم اسلام اور دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو یہ ہوگا کہ اسلامو فوبیا کو موثر طریقے سے روکاجاسکے گا۔ اور اسلام کی عزت کو دنیا بھر میں بحال کیا جاسکے گا۔

امت مسلمہ جسد واحد ہے۔

مسلم امہ میں اتحاد اس لئے بھی ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ نے خود اسے جسد واحد قراردیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ مسلم امہ ایک جسم کی طرح ہے۔ جس طرح جسم کے کسی ایک عضو میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مسلم امہ میں شامل کسی ایک ملک ،قوم  یا فرد کو کوئی   پریشانی لاحق ہو تو مسلم امہ بلاک حرکت میں آسکے۔ اور اس پریشانی کو دور کرنے کی موثر تدبیر کرسکے۔

خنجرچلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر      سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

اس وقت موجود صورت حال میں دنیا کے نقشے میں قریبا  57اسلامی ممالک ہیں۔ اگر یہی ممالک مل کر ایک مسلم امہ بلاک تشکیل دیتے ہیں تو یقین جانئے عالم اسلام کے بے شمار مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

اختلافات ونزاعات کے دائرے

اس وقت مسلم امہ میں اختلافات ونزاعات کے بے شمار دائرے موجود ہیں۔ان میں قومی، سیاسی، نسلی و لسانی، ملکی و علاقائی اورصوبائی کے علاوہ مذہبی ومسلکی اختلافات ونزاعات شامل ہیں۔ اختلافات ونزاعات کے یہ دائرے مختلف ملکوں میں متعدد سطحوں پر موجود ہیں۔ تاہم ان میں نسبتا  سب سے بڑا نزاع مذہبی ومسلکی ہے۔

اسلام کی ساڑھے چودہ سوسالہ تاریخ ہے۔ اس دوران مختلف مسالک ومکاتب فکر وجود میں آئے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ حالات کے بل بوتے پر یہ مسالک ومکاتب اتنے مضبوط ہوتے چلے گئے کہ اب یہ تناور درخت بن چکے ہیں۔  جو جس درخت کے نیچے بیٹھ گیا  اس نے اس درخت کو حتمی حق قرار دے کر دوسروں کی نفی شروع کردی۔ اور یہی رویہ تقریبا  ہرمسلک کے پیروکاروں کی طرف سے برتا گیا۔

جس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلاگیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ  ہر مسلک اپنے حلقے تک محدود ہے۔  مسلم معاشرے میں اگر کسی اچھے کام کا آغاز ہوتا بھی ہے تو کسی نہ کسی مسلک کے ساتھ اسے نتھی کرکے دوسرے مسلک کے لوگ اس سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ یوں مسلم امہ کا پلیٹ فارم موجود نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں اٹھنے والی اچھی سے اچھی کاوش کسی سردخانے کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یا اسی مسلکی حلقے میں وہ کاوش محدود ہوکررہ جاتی ہے۔

 علامہ اقبال نے اس منظرنامے کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک   ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی ، اللہ بھی، قرآن بھی ایک     کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں     کیازمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

دورحاضرمیں امت کا حال زار

آج مسلم امہ کا حال انتہائی کسمپرسی  کا شکار ہے۔دشمن کی سازش اور کارستانیوں سے ہمیں کوئی  گلہ نہیں ، کیونکہ دشمن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے خود مسلم ممالک کی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں اور مسلم معاشرے میں موجود مختلف مسالک ومکاتب فکر کی ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنا  بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔اسی مذہبی ومسلکی اختلاف کی کمزور رگ کو پہچان کر عالمی استعمار مسلم امہ کے خلاف  سازشیں کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

چنانچہ عملی طورپر عالم اسلام شیعہ سنی کے دو مختلف متنازع بلاک میں تقسیم ہوکررہ گیا ہے۔ مغرب جب اپنے مفادات کو مسلم معاشرے میں آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ تو اسی کمزور رگ کو استعمال کرتا ہے۔ یوں عالم اسلام اپنے تمام تر وسائل کے باوجود اس ایک کمزوری کی بنا پر مغرب کے آگے جھک جاتاہے۔ اور یوں مغربی استعمار اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

عالم اسلام میں اتحاد کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی اس کمزوری کا ادراک ہوناچاہیے۔ جب تک ہمیں اپنی اس کمزوری کا ادراک اور پھر احساس نہ ہو ہم اپنی اس کمزوری کو دور نہیں کرسکتے۔ کیونکہ جس چیز کو ہم کمزوری ہی نہ سمجھیں اسے دور کرنے کیلئے تدابیر کیونکر کرسکتے ہیں۔

کمزوری کا ادراک حاصل کرنے کے بعد دوسراکرنے کام یہ ہے کہ  ہمیں مسلم امہ بلاک تشکیل دینے کیلئے مسلم رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک رائے عامہ اس کیلئے ہموار نہ ہو اس وقت تک مسلم امہ اتحاد ہونا ممکن نہیں۔

جب ہم اس کام کو کرنے نکلیں گے تو یقینا عالمی استعمار اس کے خلاف کھڑا ہوگا ۔ طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی جائیں گی۔ عالم اسلام کے بڑے لیڈرز کو اپنا ہمنوا بنالیں گے اور ان کے ذریعے اس مہم کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے گی۔جب دیکھا جائے کہ عالم اسلام ہی کے بڑے لیڈرز اور مشاہیر اس مقصد کے آگے رکاوٹ ہیں تو سمجھنا چاہیے یہی وہ کام ہے جو مسلم امہ کے مفاد میں ہے۔ اور مغربی استعمار کے مفادات کے خلاف ہے۔جبھی وہ اسے روکنا چاہتاہے۔  ایسے میں ہمیں اس کام پر صبرواستقامت کے ساتھ پورا زور لگانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیئے۔ مسلم امہ اور حاضر عالم اسلام

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button