Character Building & TarbiyahParents Guides

بچوں کی تربیت میں والد کا کردار

ڈاکٹر محمدیونس خالد

بچوں کی تربیت میں والدین، گھر، خاندان، ماحول، مکتب ، مدرسہ اور اسکول کے علاوہ کئی دیگر عناصر  بھی حصہ لیتے ہیں۔ لیکن والدین کا کردار سب سے اہم اور بنیادی ہوتاہے۔ والدین میں سے ماں کے کردار سے کون واقف نہیں؟ ہم نے بچوں کی تربیت میں ماں کے کردار پرنہایت جامع آرٹیکل تیار کیا ہے۔ اسے پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے۔

لیکن بچوں کی تربیت میں باپ کا کردار کتنا اہم  ہے؟ اسے جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ تاکہ ماں باپ جودرحقیقت تربیت اولاد کی گاڑی کے دو پہئیے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کواس کے کردار کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہو۔ اور پھر آگاہی کے بعد اپنے حصے کے کردار کو ہرایک نہایت تندہی اور جانفشانی کے ساتھ ادا کرسکیں۔ یوں زندگی کی گاڑی کے ساتھ تربیت اولاد کی گاڑ ی بھی  بہت ہی ہموار طریقے سے کامیاب سفر کرسکے اور اپنی منزل تک جاپہنچے۔

 اس آرٹیکل میں ہم بچوں کی تربیت میں والد کے کردار کو زیربحث لائیں گے۔ تاکہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ماں اور باپ دونوں کا کردار بھرپور طریقے سے سامنے آسکے۔ ورنہ عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی ایک ذمہ داری اپنے سر  لیتا ہے تو دوسرا شریک حیات اپنی ذمہ داری بھی دوسرے کے سر ڈال کر بیٹھ جاتاہے۔ اور اپنے کردار کو  نظرانداز کردیتا ہے۔

جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت نہیں ہوپاتی۔ ذیل میں ہم والد کے کردار کو واضح کریں گے۔

باپ  دنیا میں اولاد کی آمد کا باعث ہوتاہے۔

انسان کا جد امجد حضرت آدم علیہ السلام ایک باپ تھے۔ جسے اللہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس میں روح پھونکی، اور ان کی جوڑی حضرت حوا علیہا السلام کو انہی کی پسلی سے بنایا۔ اس واقعہ سے جہاں اور بہت ساری باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ وہیں اہمیت کے ساتھ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے ایک باپ کے ذریعے اس دنیا کو شروع فرمایا۔ حضرت آدم ؑ کو بحیثیت باپ درمیان  سے نکال دیں تو انسانیت کا  وجود  ہی باقی نہیں رہتا۔

بالکل اسی طرح والدین میں سے باپ کو نکال دیں۔ تو انسان کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کا نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے۔ لہذا باپ کا کردار نہایت کلیدی نوعیت کا ہے۔ باپ کی اس اہمیت کے ساتھ ساتھ تربیت کے حوالے سے اس پر کچھ اہم ذمہ داریاں بھی عائد کردی گئی ہیں۔

بچوں کیلئے حلال غذا، لباس اور رہائش کا انتظام

یہ باپ کی ذمہ داریوں میں سے اہم ترین ذمہ داری ہے۔ کہ وہ اپنے گھروالوں کیلئے مناسب رہائش، حلال غذا اور لباس وغیرہ کا انتظام کرے۔ نیز بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے لئے حلال پیسوں کے انتظام کے ساتھ ان کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرے  کہ وہ خوشی کے ساتھ اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔

میاں بیوی کا تعلق مضبوط ہو

نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرلاھلی (ترمذی)

تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جواپنے اہل وعیال کے ساتھ اچھے ہیں۔ اور میں اپنے گھروالوں کیلئے تم سب میں اچھا ہوں۔

اس حدیث میں خصوصی طور پروالد کو یہ حکم دیا گیا ہے ۔کہ وہ اپنے بچوں کی بہترین مفاد اور تربیت کی خاطراپنے گھروالوں کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ یہ اس لئے ہدایت کی گئی ہے کہ کیونکہ عموما انسان باہر کی زندگی میں اچھا ہی ہوتا ہے، کیوں کہ وہاں دوسروں پر اس کا زور نہیں چلتا ۔ لیکن اپنے گھروالوں پر چونکہ زور چلتا ہے۔ لہذا وہاں عموما انسان بدمزاجی اور سخت رویے کا شکار ہوجاتاہے۔

اس بدمزاجی کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔میاں بیوی کا تعلق خراب ہوجاتاہے۔ گھرکا سکون برباد ہوجاتاہے۔ گھرمیں بے برکتی پیداہوجاتی ہے۔ ہروقت لڑائی اور شور شرابا  کی وجہ سے بچوں کی تربیت تباہ ہوکررہ جاتی ہے۔

باپ اپنے بچوں کو کوالٹی ٹائم دیتا ہو۔

باپ کا کام صرف کمانا نہیں کہ وہ ہر وقت کمانے اور زیادہ سے زیادہ کمانے کو ہی اپنی زندگی کا  حتمی مقصد سمجھے۔ بلکہ اپنے بچوں کو کوالٹی ٹائم بھی دینا چاہیے۔ جس کا مطلب یہ کہ باپ چوبیس گھنٹوں میں کم از کم دوگھنٹے ایسے نکالے جو بچوں کیلئے خاص ہوں۔ یہ دوگھنٹے بچوں کی خواہش کے مطابق ، ان سے حال احوال پوچھنے اور ان سے گپ شپ میں گزریں۔

باپ اگر یہ کام نہ کرے تو نقصان کیا ہوگا۔ بچے صرف ماں سے رابطے میں ہونگے باپ کو بالکل نظرانداز کردیں گے۔اور نتیجے میں باپ کا جو کردار ہوناچاہیے بچوں سے تعلق نہ ہونے  اور بچوں سے رابطے میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ کردار بھی ادھورا رہ جائےگا۔ ایک وقت آئےگا کہ باپ کے چاہنے کے باوجود بچوں سے قریبی تعلق نہ ہونے کی وجہ سے باپ کی باتیں اور باپ کی خواہشیں نظر انداز ہوجائیں گی۔

باپ نرم مزاج اور شفیق ہو

باپ کا ایک اہم کردار نرم مزاج اور شفقت سے بھرپور ہونا ہے ۔ تاکہ بچے اس سے نہ صرف مانوس ہوں بلکہ اپنے معاملات اور مسائل کو باپ  سے مل کر زیربحث لاسکیں۔ اگر باپ میں سخت مزاجی اور اکھڑپن موجود ہوتو بچے اس سے دور رہیں گے۔ دور رہ کر اپنے لئے الگ دوست تلاش کرلیں گے۔ اب ہوسکتا ہے کہ وہ دوست اچھے کردار کے حامل نہ ہوں۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ  نوالہ سونے کا کھلاواور نظر شیر کی  رکھو،  معذرت کے ساتھ دورحاضر کیلئے یہ مقولہ نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اب تو شفقت کی نظر ہی  لازمی ہے۔ ورنہ بچوں کے بدک جانے کا اندیشہ رہے گا۔

والد کو شجر سایہ دار بننا پڑے گا۔

سایہ دار درخت سے لوگوں کو راحت ملتی ہے۔ یہ ایسا درخت ہوتاہے جو خود دھوپ، بارش، گرمی اور سردی سب کچھ برداشت کرلیتا ہے ۔ لیکن اپنے مستفیدین کو پھل، لکڑی دینے کے علاوہ  راحت وآرام بھی  پہنچاتا ہے۔

 اور یہی باپ کا کردار بھی ہوتاہے۔ وہ محافظ و نگہبان ہونے کے ساتھ گھر کا قوام  ہوتاہے۔ گھر میں والد کی موجودگی تحفظ کا احساس دلانے والی ہونے کے ساتھ شجرسایہ کا لطیف احساس بھی دلانے والی ہونی چاہیے۔

جدید ٹیکنالوجی  سے باخبر رہیں

والدین کو خاص کر والد کو جدید ٹیکنالوجی ، اور موبائل کے استعمال کے حوالے  نہ صرف آگاہ رہنا ہوگا ، بلکہ اپنے بچوں کے حوالے سے ان چیزوں کے بارے میں محتاط بھی رہنا ہوگا۔ بچوں کے ساتھ والدین کو خود کو بھی اپڈیٹ کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ بچے والدین کو بے خبرپاکر من مانیاں نہ کرسکیں۔ دورحاضر میں موبائل ایک طرف سے نعمت ہے جبکہ دوسری طرف بہت بڑا چیلنج اور آزمائش ہے۔ یعنی موبائل کا درست استعمال بچوں کو سکھانا بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے بھی والد کو اپنا بھرپور کردار اداکرنا ہوگا۔

والد کا کردار بہترین مربی

قرآن کریم میں اللہ کریم کا ارشاد ہے: یا ایھاالذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا (تحریم) ایمان والو! بچاو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جنہم کی آگ سے۔

حدیث میں نبی کریم ﷺ نے والد کے کردار کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:  مانحل والد افضل من ادب حسن (الحدیث) کوئی والد اپنی اولاد کو اچھی تربیت سے بڑھ کر تحفہ نہیں دے سکتا۔  ایک اور حدیث میں فرمایا: اکرموا اولادکم واحسنوا ادبھم (ابن ماجہ) اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔

مذکورہ آیت کریمہ اور احادیث نبویہ ﷺ سے والد کا کردار کھل کر سامنے آتاہے۔ کہ بچوں کی حسن تربیت کا مجموعی خاکہ بنانا اور اس کے لئے حالات موافق بنا کر بیوی کے تعاون سے اسے رنگ بھر نا یہ سب درحقیقت کا والد کی ذمہ داری ہے۔

والد کا کردار متحرک اور بھرپور ہوناچاہیے

بچوں کی تربیت میں ماں کردار  75 فیصد ہوتا ہے۔ لیکن ماں کے تین تہائی کردار کو سپورٹ اورایندھن فراہم کرنا بہرحال باپ کا ہی کام ہے۔ باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بھرپور متحرک کردار ادا کرے۔ اور ماں کی تربیت میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔ ضرورت پڑنے پر اس کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔

بچوں کی تربیت کے معاملے میں میاں بیوی دونوں ایک پیج پر کھڑے ہوں۔ تربیت کے حوالے سے اپنی معلومات میں اضافہ کیلئے نئی کتابیں ، مضامین پڑھیں اور کورسز وورکشاپس کا موقع ملے تو ضرور اٹینڈ کریں۔ اس سے جہاں انسان کی خود امپرومنٹ ہوتی ہے وہاں تربیت جیسے مشکل عمل کیلئے انسان کو انکریجمنٹ مل جاتی ہے۔

اور ہاں جب تک والد کا بھرپور اور متحرک کردار نہ ہو والدہ اگرچاہے بھی تو بچوں کی بھرپور تربیت نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ یہ کام اصلا والد کا ہی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں رسول اللہ ﷺ نے احادیث میں تربیت اولاد کیلئے اصل مخاطب والد ہی کو بنایا ہے۔

تربیت میں والد کی دلچسپی کے اثرات

اگر باپ اپنی اولاد کی تربیت میں دلچسپی لے تو اس کے حقیقی اور مثبت اثرات کھل کرسامنے آتے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ والدہ بھی بچوں کی تربیت میں حصہ لینے لگتی ہے۔ دیگر مثبت اثرات مندرجہ ذیل ہیں۔

بچے خوداعتما د بن جاتے ہیں۔

بچوں کا اپنے والد سے مضبوط تعلق بن جاتاہے۔

بچے نفسیاتی اورجذباتی طور پر بھی صحت مند ہوجاتے ہیں۔

ان کے  رویوں میں ناہموار ی نہیں رہتی ، چنانچہ وہ خود پر  آسانی سے قابو   پالیتے ہیں۔

منشیات میں لگنے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔

برے دوستوں سے بچے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

ان میں بلندفکری اور اولوالعزمی پید ا ہوجاتی ہے۔

جنسی بے راہ روی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

یہ پڑھیے۔۔۔۔ اولاد سے پہلے والدین کی تربیت

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button